17

افغان طالبان کا 12 رکنی وفد ملا برادر کی قیادت میں پاکستان پہنچ گیا

اسلام آباد (مانیٹرنگ ڈیسک) افغان طالبان کا بارہ رکنی وفد عبد الغنی برادر کی قیادت میں پاکستان پہنچ گیا، افغان وفد پاکستانی حکام سے ملاقات کرے گا، افغان امن عمل کے لئے امریکا کے خصوصی نمائندے زلمے خلیل زاد پانچ رکنی وفد کے ہمراہ اسلام آباد میں موجود ہیں۔

تفصیلات کے مطابق افغانستان میں امن کی بحالی کے لئے پاکستان کی کوششیں جاری ہے، افغان طالبان کا وفد عبدالغنی برادر کی سربراہی میں اسلام آباد پہنچ گیا ہے۔

ذرائع کے مطابق دورہ میں افغان طالبان کا بارہ رکنی وفد پاکستان پہنچا ہے۔ وفد میں طالبان کے قطر دفتر کے ڈپٹی پولیٹیکل افسر عبدالسلام حنفی بھی شامل ہیں  جبکہ طالبان کے سابق مسلح افواج کے سربراہ ملا فضل بھی وفد میں شامل ہیں۔

برطانوی خبر ایجنسی رائٹر کا طالبان ذرائع کے حوالے سے کہنا ہے کہ افغان طالبان کا وفد پاکستانی قیادت کو افغان امن مذاکرات معطل ہونے کی وجوہات سے آگاہ کرے گا۔

دوحہ میں طالبان دفترکے ترجمان سہیل شاہین کا ٹوئٹ میں کہنا تھا کہ طالبان کا وفد پاکستانی حکام سے ملاقاتیں کرے گا، طالبان وفد اس سے قبل روس، چین اور ایران کا دورہ بھی کرچکا ہے۔

دوسری جانب افغان امن عمل کے لئے امریکی نمائندہ خصوصی زلمے خلیل زاد اسلام آبادمیں پہلے سے موجود ہیں، زلمےخلیل زاد گزشتہ روز چین سے پانچ رکنی وفد کے ساتھ پاکستان پہنچے تھے، طالبان کا وفد امریکی نمائندہ خصوصی سے بھی ملاقات کرے گا۔

خیال رہے افغانستان میں امن کے لئے امریکا اورافغان طالبان کے درمیان امن مذاکرات دوحہ میں ہورہے تھے جو کچھ عرصے سے تعطل کا شکار ہیں، افغانستان میں حملے میں امریکی فوجی کی ہلاکت پر امریکی صدر نے مذاکرات معطل کردیئے تھے۔

امریکا کی جانب سے افغان امن عمل مذاکرات کا سلسلہ منسوخ کیے جانے کے بعد طالبان نے خبردار کیا تھا کہ اگر واشنگٹن امن کے مقابلے میں جنگ کو ترجیح دیتا ہے تو پھر طالبان بھی جنگ کے لیے تیار ہے۔

بعد ازاں طالبان رہنما ملاشیر عباس نے رشین ٹی وی کو انٹرویو میں کہا تھا کہ ہم نے امریکا پر نہیں امریکا نے افغانستان پر جنگ مسلط کی، وہ ہمارے ہزار لوگ مار سکتے ہیں تو ہمیں بھی ان کے ایک دو مارنے کا حق ہے، اگر امریکا مذاکرات نہیں چاہتا تو ٹھیک ہے ہم سو سال تک بھی لڑسکتے ہیں۔

واضح رہے وزیراعظم عمران خان کے دورہ امریکا میں بھی زلمے خلیل زاد نے وزیراعظم سے ملاقات کی تھی۔ ملاقات میں افغان امن عمل پر پاکستان اورامریکا کی مشترکہ کوششوں پر تبادلہ خیال ہوا تھا۔

وزیراعظم عمران خان نے امریکا طالبان مذاکرات منسوخی کے حوالے سے کہا تھا کہ امریکا اور طالبان مذاکرات میں رکاوٹ ہم سب کی بدقسمتی ہے ، میری پوری کوشش ہو گی امریکا طالبان مذاکرات دوبارہ شروع ہوں، افغان امن سےمتعلق معطل مذاکرات بحال کرانے کی پوری کوشش کروں گا۔

آٹھ سال پاکستان میں قید رہنے والے ملا برادر

طالبان کے سیاسی دفتر کے سربراہ ملا برادر پاکستان میں آٹھ سال قید کاٹنے اور پھر رہائی کے بعد پہلی مرتبہ پاکستان کے دورے پر اسلام آباد پہنچ گئے۔

ملا برادر کی رہائی کے حوالے سے وزیراعظم عمران خان نے حال ہی میں طورخم میں منعقدہ ایک تقریب میں کہا تھا کہ ’ہم نے طالبان کو قطر پہنچایا اور اُن سے کہا گیا کہ وہ امریکہ کے ساتھ مذاکرات کریں۔ ‘

قطر میں افغان طالبان کے سیاسی دفتر کے سربراہ ملا عبدالغنی برادر کو 2010 میں پاکستان کے شہر کراچی میں ایک آپریشن کے دوران گرفتار کیا گیا تھا اور انھیں آٹھ برس بعد اکتوبر 2018 میں رہا کر دیا گیا تھا۔

بعض ذرائع کے مطابق پاکستان نے ملا برادر کو امریکی درخواست پر رہا کیا تھا تاکہ وہ مذاکرات میں کوئی کردار ادا کر سکیں۔

51 سالہ ملا عبدالغنی برادر طالبان کے بانی ملا عمر کے قریبی ساتھی اور اُن کے سیکنڈ ان کمانڈ تھے۔

الجزیرہ کی صحافی کارلوٹا بیلیس کی ایک مختصر دستاویزی فلم میں سابق افغان صدر حامد کرزئی نے کہا تھا کہ ملا برادر اور کئی طالبان رہنما 2010 میں ہی افغان حکومت کے ساتھ مذاکرات کے لیے تیار تھے۔

تاہم اُن کے مطابق امریکہ اور پاکستان مذاکرات کے حق میں نہیں تھے اور اُنھوں نے ملا برادر کو گرفتار کر لیا تھا۔ سابق افغان صدر کے مطابق اُنھوں نے اُس وقت بھی ملا برادر کی گرفتاری پر شدید احتجاج کیا تھا۔

Share on Social

اپنا تبصرہ بھیجیں