کل سے بہت سے دوست مجھ سے سوال کر رہے ہیں کہ میں نے عراق کے حالات پر ابھی تک کیوں نہیں لکھا۔ اس بارے میں،میں بھی کچھ لکھنا چاہ رہا تھا مگر مجھے بالکل بھی سمجھ نہیں آ رہی تھی کہ آخر اچانک ایسا کیا ہو گیا کہ بات اتنی آگے تک بڑھ گئی۔
میرے بہت سے دوست جو سوشل میڈیا پر عالمی سطح کی انگریزی اخبارات کے پیجز کو فالو کرتے ہیں،انہوں نے یہ بات ضرور نوٹ کی ہو گی کہ عراق میں احتجاج شروع ہونے سے کچھ دن پہلے ان اخبارات کی پوسٹس پر بہت سی پروفائلز ایک ہی کمنٹ کرتے نظر آ رہے تھے،جس میں احتجاج کی کال تھی۔
یہ کمنٹ بار بار کاپی پیسٹ کیا جاتا رہا،یہاں تک کہ بہت سی پوسٹس پر سواۓ ان کمنٹس کے علاوہ کچھ اور نظر ہی نہیں آتا تھا حالانکہ اس پوسٹ کا عراق سے تعلق نہیں ہوتا تھا۔
یہ دیکھ کر مجھے عجیب ضرور لگا اور میں نے وہ کمنٹ کرنے والی پروفائلز کو چیک کرنا شروع کیا تو اکثریت پر پرائیویسی آن تھی اور ایسا محسوس ہو رہا تھا کہ جیسے وہ کسی خاص مقصد کے لئے بنائی گئی تھیں۔
مجھے یہ سب دیکھ کر شک ہوا کہ کچھ نا کچھ ہونے والا ہے اور وہی ہوا کہ اس کے کچھ دن بعد ہی خبریں آنا شروع ہو گئیں کہ بغداد میں حالات کشیدہ ہو چکے ہیں اور پولیس کے ساتھ جھڑپوں میں کئ افراد کی جانیں ضائع ہو چکی ہیں۔
آپ کو یاد ہو گا کہ اس سے قبل بھی عراق میں اس طرح کے حالات کشیدہ ہو چکے ہیں اور اتفاق سے تب بھی مظاہرے اسی وقت شروع ہوۓ جب پوری دنیا سے زائرین اربعین کے لئے عراق پہنچ رہے تھے۔یہ حالات ایسے وقت میں ہی کیوں شروع ہوتے ہیں اس کی مجھے آج تک سمجھ نہیں آئی۔
اس بات سے بالاتر کہ ان حالات کے پیچھے کون سی طاقت کارفرما ہے،میں عراق کو عالمی قوتوں کا سجایا ہوا میدان جنگ سمجھتا ہوں جہاں ہر گروپ چاہتا ہے کہ عراق پر میرا قبضہ ہو اور اسی کشمکش میں عراقی عوام پس رہی ہے۔
وہ طاقتیں امریکہ،سعودی عرب،ایران اور اسرائیل ہیں،ان سب ممالک کے اپنے اپنے مقاصد ہیں جو ہر صورت میں حاصل کرنا چاہتے ہیں۔
امریکہ جس نے عراق کو تباہ کرنے میں اہم کردار کیا ہے اور تباہی کے چند سال بعد اسے مجبور ہو کر عراق سے نکل جانا پڑا تھا مگر داعش کے خروج کے بعد اسے دوبارہ واپس آنے کا موقع مل گیا۔امریکہ کا عراق میں فوجی اڈے قائم کرنے کا اصل مقصد ایران کے قریب ترین رہنا تھا تاکہ ایران پر نظر رکھی جا سکے اور یہ کوشش بھی جاری رہی کہ عراق میں ایرانی اثرورسوخ کو کم کیا جائے۔
سعودی عرب کے بھی کچھ ایسے ہی مقاصد ہیں اور اسے یہ فکر لاحق ہے کہ ایک پڑوسی ملک کہ جس کے ساتھ طویل سرحد ملتی ہے،اس ملک میں ایرانی اثرورسوخ سے سعودی عرب کو خطرہ لاحق ہو سکتا ہے،سعودی عرب نے گزشتہ چند سالوں میں مشرق وسطیٰ میں ایرانی اثرورسوخ کو ختم کرنے کے لئے وسائل کا بے دریغ استعمال کیا ہے،جس میں لبنان کے وزیراعظم کو حزب اللہ کے خلاف آپریشن کرنے پر مجبور کرنا اور اس کے انکار کی صورت میں سعد رفیق حریری کو یرغمال بنا کر استعفیٰ دلوانا شامل ہے،اس کے علاوہ شامی خانہ جنگی میں جنگجوؤں اور اسلحہ فراہم کرنے کے ساتھ ساتھ یمن پر حملہ شامل ہے۔
سعودی عرب کے لئے خطے میں مشکلات کا اضافہ ہوتا جا رہا ہے جبکہ اس کا اثرورسوخ بھی ماند پڑ رہا ہے،یمن جو کبھی اتحادی ملک تھا،اپنی غلط پالیسیوں کی وجہ سے اسے دشمن بنا ڈالا جبکہ قطر جو ہمیشہ کا ساتھی تھا وہ بھی غلط پالیسیوں کی وجہ سے ایرانی بلاک میں شامل ہو چکا ہے،ترکی سے بھی شدید اختلافات چل رہے ہیں،کویت اور عمان بھی محمد بن سلیمان کی شدت پسندانہ پالیسیوں سے نالاں نظر آتے ہیں،ایسی صورت میں عراق کا مکمل طور پر ایرانی بلاک میں جانا سعودی عرب کے لئے اچھا شگون ثابت نہیں ہوگا۔
ایران کی اگر ہم بات کریں تو عراق میں اپنا اثرورسوخ قائم کرنے کی بہت سی وجوہات ہیں۔
اول یہ کہ ایران resistance axis کو بڑھانا چاہتا ہے اور اس کے لئے عراق میں اثرورسوخ ہونا نہایت لازم ہے۔
یہ الگ بات ہے کہ اس کوشش میں ایران نے عراق میں حد سے زیادہ مداخلت کرنا شروع کر دی تھی۔
2015 اور 2016 میں جب میں اربعین کے لئے عراق گیا تو اس دوران میری بہت سے عراقی شہریوں سے بات چیت ہوئی اور تقریباً ہر شہری کے مجھ سے ایک جیسے ہی سوالات تھے۔
کیا پاکستان میں بھی داعش ہے ؟
کیا تمھیں ایران پسند ہے ؟
یہ دو سوالات مجھے اکثر سننے کو ملے اور جب میں نے یہ جواب دیا کہ ہاں ایران مجھے پسند ہے تو وہ کہتے کہ ہمیں پسند نہیں ہے کیونکہ وہ ہمارے ملک پر قبضہ کر رہا ہے،ہماری صنعت تباہ ہو چکی ہے،یہاں تک کہ ہمارے ملک میں منرل واٹر بھی ایران سے آتا ہے،ہماری نئ نسل کے لئے روزی روٹی کمانے کے لئے وسائل ختم ہوتے جا رہے ہیں۔
یہ شکوہ حقائق پر مبنی تھا کیونکہ اگر کوئی بھی ملک معاشی طور پر بہتر ہے تو اس کے پڑوسی ممالک کی معیشت کا یہی انجام ہوتا ہے،ہم خود ترقی یافتہ ملک چین کی معیشت کا شکار ہوتے جا رہے ہیں۔اس کے علاوہ عراق میں ایرانی نواز سیاسی جماعتیں تشکیل دی جا چکی تھیں،جن کا مقصد عراق میں ایرانی مفادات کو تحفظ فراہم کرنا تھا۔اس بات میں کوئی شک نہیں کہ ایران نے عراق کے مشکل وقت میں بہت ساتھ دیا اور اگر ایران داعش کے خلاف عراق کی مدد نا کرتا تو عراق مزید تباہی کا شکار ہو چکا ہوتا لیکن اس احسان کا بدلہ بھی بہت بھاری وصول کیا جا رہا ہے۔
ایران کا ایک مقصد یہ بھی ہے کہ وہ عراق کو مزاحمتی تنظیموں حماس اور حزب اللہ کی امداد کے لئے بطور محفوظ راستہ استعمال کرنا چاہتا ہے کیونکہ زمینی راستہ سستا بھی ہے اور محفوظ بھی،فضائی اور بحری راستے جہاں مہنگے ہیں وہیں غیر محفوظ بھی ہیں کیونکہ اسرائیل ان راستوں پر کڑی نگرانی رکھتا ہے اور اکثر و بیشتر اہداف پر حملہ بھی کرتا ہے۔اب اگر ایران کا عراق میں اثرورسوخ ختم ہو جاتا ہے تو اس کا براہ راست اثر اسرائیل کے خلاف مزاحمت تحریکوں پر پڑے گا،جس کا فائدہ صرف اسرائیل کو ہی ہو گا۔میرا یہ بھی ماننا ہے کہ شام میں بغاوت اور خانہ جنگی کا اصل مقصد بھی اسی مزاحمتی تحریک کو کمزور کرنا تھا کیونکہ شام کی حماس اور حزب اللہ کو مکمل حمایت حاصل تھی۔
ایران کے لئے عراق میں اثرورسوخ نہایت ضروری ہے جس کے لئے وہ اپنی پوری کوشش کر رہا ہے اور اسی پالیسی کی وجہ سے اسرائیل کو بھی عراق میں مداخلت کرنے کا موقع مل چکا ہے،گزشتہ ماہ عراق میں ایرانی حمایت یافتہ ملیشیا پر فضائی حملوں میں بھی اسرائیل ملوث تھا۔
دوسری طرف عراق کے مقتدر طبقے اس مداخلت سے خوش نہیں ہیں خصوصاً آیت اللہ سیستانی،حکیم خاندان اور الصدر خاندان۔
یہی وجہ ہے کہ ان سب شخصیات نے اپنے مختلف بیانات میں ایران کو عراق کی خودمختاری کا احترام کرنے کی تلقین کی اور ان کی سیاست بھی اسی پالیسی کے تحت ہے۔ایران سے عراقی عوام کی ناراضگی ہی کی وجہ سے گزشتہ الیکشن میں ایرانی نواز سیاسی جماعتیں خاطر خواہ کامیابی حاصل نہیں کر سکیں جو کہ ایران کے لئے ایک بڑا دھچکا تھا جبکہ مقتدیٰ الصدر جو کہ ایرانی مداخلت کے خلاف ہیں،ان کی جماعت نے خلاف توقع زیادہ ووٹ حاصل کئے۔
آیت اللہ سیستانی ایسی غیر متنازعہ شخصیت ہیں جن کی عراق کے تمام مذاہب اور فرقے احترام کرتے ہیں،یہی وجہ ہے کہ جب سیستانی صاحب نے داعش کے خلاف جہاد کا فتویٰ دیا تھا تو اہلسنت علماء کرام کے ساتھ ساتھ عیسائی اور دوسرے مذہبی رہنماؤں نے بھی فتویٰ کی تائید کی بلکہ داعش کے خلاف جہاد میں باقاعدہ حصہ بھی لیا۔یہی وجہ ہے کہ موجودہ کشیدہ حالات میں آیت اللہ سیستانی نے جہاں مظاہرین کو صبر و تحمل سے کام لینے کی تاکید کی وہیں حکومت کو بھی عراقی عوام کے مسائل حل کرنے کا حکم دیا۔
یہ شخصیات چاہتی ہیں کہ عراق کے فیصلے عراق میں ہی ہوں اور کسی بھی ملک کی مداخلت نا ہو خواہ وہ ایران ہو،امریکہ ہو یا سعودی عرب لیکن یہ سب اتنا آسان نہیں ہے۔
موجودہ حالات بھی اسی لڑائی کی ایک کڑی ہے،احتجاج کے دوران ایرانی پرچم نذر آتش کرنا اور ایران کے خلاف تقاریر کرنا یہ ثابت کرتا ہے کہ ان مظاہروں کے پیچھے ایران مخالف طاقتیں ہیں جو عراقی عوام کے مسائل کو اپنے مذموم مقاصد کے لئے استعمال کر رہے ہیں اور اس کا ثبوت حالیہ رپورٹس میں بھی آ چکا ہے کہ سوشل میڈیا پر عراقی عوام کو مظاہروں کے لئے بھڑکانے والی پروفائلز کی اکثریت کا تعلق سعودی عرب اور دوسرے ممالک سے ہے جبکہ اسرائیلی میڈیا اس کو ضرورت سے زیادہ کوریج دے رہا ہے۔
ان مظاہروں کے دوران یہ خبر بھی آئی کہ آیت اللہ سیستانی کو قتل کرنے کی کوشش ناکام بنا دی گئی ہے یعنی ایک طرف تو مظاہروں میں ایران کے خلاف نفرت پیدا کر رہے ہیں وہیں آیت اللہ سیستانی جو کو ایران سے اصولی اختلاف رکھتے ہیں،ان کو قتل کرنے کی کوشش کرنا بھی واضح پیغام دیتا ہے کہ کوئی تو ہے جو سیستانی صاحب کے قتل کا الزام ایران پر لگا کر عراق میں آگ و خون کی ہولی کھیلنا چاہتا ہے اور ظاہر ہے کہ ان حالات کا فائدہ امریکہ،اسرائیل اور سعودی عرب کے علاوہ کسی اور کو نہیں ہو سکتا۔
عراق کا سب سے بڑا مسئلہ بھی پاکستان کی طرح بے انتہا کرپشن ہے،جس کی وجہ سے تیل کا بڑا ذخیرہ ہونے کے باوجود بھی عراقی عوام کی اکثریت غربت کی زندگی گزار رہی ہے۔جس کی وجہ سے عراقی عوام گاہے بگاہے احتجاج کرتی نظر آتی ہے۔جس کا فائدہ پوشیدہ طاقتیں اٹھاتی ہیں۔
بدقسمتی سے عراق کی حالت دو بیلوں کی لڑائی میں گھاس کی سی ہے کہ دونوں طرف سے ہی اس نے روندا جانا ہے۔
اس جنگ میں فتح کسی بھی فریق کی ہو مگر یہ بات واضح ہے کہ شکست صرف عراقی عوام کی ہی ہو گی۔
نوٹ: کالم/ تحریر میں خیالات کالم نویس کے ہیں۔ ادارے اور اس کی پالیسی کا ان کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔