دمشق (ڈیلی اردو/نیوز ایجنسی) شام میں کرد ملیشیا کی سربراہی میں کام کرنے والی سیرین ڈیموکریٹک فورسز (ایس ڈی ایف) کے ترجمان کا کہنا ہے کہ قمیشلی میں جیل کے قریب ترکی کی بمباری کے باعث داعش کے متعدد دہشت گرد فرار ہونے میں کامیاب ہو گئے ہیں۔
ایس ڈی ایف ترجمان مروان قمیشلو کے مطابق یہ قیدی مشرقی شام میں کرد اکثریتی شہر قمیشلی میں واقع جیل سے فرار ہوئے جبکہ داعش سے تعلق رکھنے والی خواتین نے کرد حفاظتی دستوں پر پتھروں اور ڈنڈوں سے حملہ بھی کیا۔
مروان قمیشلو کا کہنا تھا کہ الھول کیمپ میں ہونے والا یہ واقعہ غیر ملکی قیدیوں والے حصے میں پیش آیا جس میں گذشتہ واقعات کے مقابلے میں زیادہ افراد ملوث تھے۔
#ISIS terrorist detained flee from Jirkin prison in #Qamishli, as a result of #Turkish shelling. #NE_Syria #ISIS pic.twitter.com/g2smryp3JG
— Coordination & Military Ops Center – SDF (@cmoc_sdf) October 12, 2019
ان کے مطابق داعش سے تعلق رکھنے والی خواتین نے الہول کیمپ میں حفاظتی عملے پر حملہ کیا، ان کے خیموں کو آگ لگا دی اور انہیں ڈنڈے اور پتھر مارے۔
ایس ڈی ایف کی جانب سے اس واقعے کی عکس بند کی گئی ویڈیو میں دیکھا جا سکتا ہے کہ تقریباً 20 برقع پوش خواتین ایک کھلی جگہ میں بھاگ رہی ہیں جبکہ کچھ مرد انہیں سمجھانے کی کوشش کر رہے ہیں۔
Journalist Mustafa al-Ali is reporting an unrest and rebellion inside al-Hawl hosting #Daesh prisoners and IDP's. Follow him for reliable updates. https://t.co/3RehapXL5Q
— Mustafa Bali (@mustefabali) October 11, 2019
یہ واقعہ ایک ایسے وقت میں پیش آیا ہے جب داعش نے قوامیشلی میں ہونے والے ایک خودکش حملے کی ذمہ داری قبول کی ہے جس میں تین افراد شہید ہو گئے تھے۔
ایک کرد عہدیدار نے تنبیہ کی تھی کہ ترکی کے حملے کے بعد داعش کے جنگجوؤں کو قید رکھنے کی کردوں کی اہلیت میں کمی واقع ہوگی کیونکہ وہ ترکی کا مقابلہ کر رہے ہیں۔
کرد جنگجوؤں کے خلاف کیے جانے والے اس آپریشن کے تیسرے دن ترکی کی فوج شام کے علاقے میں داخل ہو چکی ہے۔
عالمی برادری کی جانب سے اس کارروائی پر کڑی تنقید کی جا رہی ہے جبکہ ہزاروں شہری اس علاقے کو چھوڑ رہے ہیں۔
اس آپریشن میں اب تک ترکی کے نو شہری ہلاک ہو چکے ہیں جبکہ شام میں یہ تعداد اس سے بھی زیادہ ہے۔ اقوام متحدہ کے مطابق اس کارروائی کے نتیجے میں اب تک ایک لاکھ لوگ نقل مکانی کر چکے ہیں۔