افغانستان: قندوز میں امریکی فوجی ہلاک، طالبان نے ذمے داری قبول کر لی

کابل (بیورورپورٹ) افغان طالبان کے حملے میں ایک امریکی فوجی افغانستان میں ہلاک ہو گیا۔

دوسری جانب افغان طالبان نے ایک حملے کی ذمے داری قبول کی ہے۔ طالبان کا کہنا ہے کہ اس حملے میں ایک امریکی فوجی مارا گیا۔

طالبان کے ایک ترجمان ذبیح اللہ مجاہد نے ٹویٹ کرتے بتایا کہ ‘امریکی قافلے‘ کو قندوز کے علاقے چار درہ میں نشانہ بنایا گیا۔ ترجمان نے دعوی کيا ہے کہ اس حملے میں متعدد فوجی زخمی بھی ہوئے۔

دوسری جانب امریکی فوج کی جانب سے ایک بیان جاری کرتے ہوئے کہا گیا ہے کہ ایک آپریشن کے دوران ان کا ایک اہلکار ہلاک ہو گیا ہے۔ امریکی فوج کی جانب سے مزید معلومات فراہم نہیں کی گئیں۔

دریں اثناء اس ہلاکت کے ساتھ ہی رواں برس افغانستان میں ہلاک ہونے والے امریکی فوجیوں کی تعداد کم از کم بیس ہو گئی ہے۔ سن دو ہزار چودہ کے بعد رواں برس امریکی فوجیوں کے لیے سب سے ہلاکت خیز ثابت ہوا ہے۔

واضح رہے کہ امریکا نے رواں ماہ کے اوائل میں افغانستان سے اپنی فوج کے انخلاء کے امکان کا اعلان کیا تھا۔ اس موقع پر امریکی وزیر دفاع مارک ایسپر کا کہنا تھا کہ یہ ضروری نہیں کہ افغانستان میں امریکی فوجیوں کی تعداد میں ہونے والے کسی بھی کمی کا تعلق لازما طالبان تحریک کے ساتھ ڈیل کا نتیجہ ہو۔ ایسپر کا یہ بیان امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے افغانستان کے دورے کے بعد سامنے آیا جو تھینکس گیوِنگ کے موقع پر کیا گیا تھا۔ اس موقع پر ٹرمپ نے امریکی فوجیوں کی ممکنہ کمی پر گفتگو کی۔ امریکی صدر نے خیال ظاہر کیا تھا کہ طالبان تحریک افغانستان میں 18 سال سے جاری جنگ میں فائر بندی پر آمادہ ہو جائے گی۔

امریکا اور افغان طالبان کے درمیان ایک سال سے مذاکرات جاری ہیں۔ اس کا مقصد ایک سمجھوتے کا طے پانا ہے جس کے تحت امریکا افغانستان سے اپنی فوج نکال لے گا اور اس کے مقابل طالبان تحریک کی جانب سے سیکورٹی ضمانت دی جائے گی۔ تاہم امریکیوں کی جانب سے رواں ماہ دسمبر میں اُس وقت بات چیت معطل کر دینے کا اعلان کر دیا گیا جب امریکا کے ایک بڑے فوجی اڈے پر عسکریت پسندوں نے بڑا خود کش حملہ کیا۔

یاد رہے کہ اس وقت 20 ہزار غیر ملکی فوجی جن میں اکثریت امریکی ہیں، افغانستان میں تعینات ہیں۔ یہ تمام فوجی امریکا کے زیر قیادت نیٹو اتحاد کے مشن میں شامل ہیں۔ اس مشن کا مقصد افغان فوج کو تربیت، مدد اور مشاورت فراہم کرنا ہے۔ اس کے علاوہ امریکی فوج کا کچھ حصہ شدت پسند جماعتوں کے خلاف دہشت گردی کے سد باب کی کارروائیوں میں بھی شریک ہوتا ہے۔

Share on Social

اپنا تبصرہ بھیجیں