پیانگ یانگ (ڈیلی اردو/بی بی سی) جنوبی کوریا میں حکام کا کہنا ہے کہ شمالی کوریا نے سرحدی گاؤں کائسونگ میں واقع رابطے کے لیے ایک مشترکہ دفتر کو دھماکے سے اڑا دیا ہے۔
Dramatic video from South Korea's Ministry of National Defense showing North Korea blowing up the liaison office with South Koreahttps://t.co/HIMAMG16uE pic.twitter.com/Vn6CCbG9tZ
— Victoria Kim (@vicjkim) June 16, 2020
یہ پیشرفت اس وقت پیش آئی ہے جب شمال نے جنوب کے خلاف فوجی کارروائی کرنے کی دھمکی دی تھی۔
یہ مقام شمالی کوریا کے علاقے میں موجود ہے اور اسے 2018 میں دونوں اطراف پر کوریائی شہریوں کی مدد کے لیے بنایا گیا تھا۔
یہ دفتر کووڈ 19 کے پھیلاؤ کو روکنے کے لیے جنوری سے بند ہے۔
جنوبی اور شمالی کوریا کے درمیان تناؤ گذشتہ کئی ہفتوں سے بڑھ رہا ہے۔ اس تناؤ میں اس وقت تیزی آئی جب جنوب میں واقع شمالی شہریوں کے منحرف گروہوں کی جانب سے شمال میں پراپگینڈا کے کتابچے پھینکے گئے۔
شمالی کوریا کے رہنما کم جونگ ان کی بہن کم یو جونگ نے گذشتہ ہفتے اس دفتر کو تباہ کرنے کی دھمکی دی تھی۔
شمالی کوریا نے ایک دھمکی میں کہا ہے کہ وہ جنوبی کوریا سے الگ کرنے والی سرحد پر موجود سیز فائر کے علاقے میں اپنی فوج بھیجنے کے لیے تیار ہیں۔
North Korea blows up joint liaison office with the South in border town of Kaesong, S Korean officials say https://t.co/KSAwJZ4Jj9
— BBC Breaking News (@BBCBreaking) June 16, 2020
یہ تنبیہ اس منحرف گروہ کے ردِعمل میں دی گئی ہے جو شمالی کوریا سے بھاگ کر جنوبی کوریا پہنچا اور وہاں سے شمال کی جانب پراپگینڈا کے لیے کتابچے بھیج رہا ہے۔
گذشتہ ہفتے کے اواخر میں شمالی کوریا کے کِم جونگ اُن کی بہن کم یو جونگ نے کہا کہ انھوں نے فوج کو اس قدم کے لیے تیار رہنے کا حکم دے دیا ہے۔
شمالی کوریا کا تنازع
لیکن فوج کا کہنا ہے کہ وہ ’صف اول کو ایک قلعہ بنانے اور اپنی فوجی نگرانی بڑھانے کے لیے تیار ہیں۔‘
دونوں ممالک کے درمیان ان کتابچوں کی وجہ سے تناؤ بڑھ رہا ہے۔ انھیں اکثر غباروں کی مدد سے شمال کی جانب پھینکا جاتا ہے۔
جنوبی کوریا کی وزارت دفاع نے منگل کو کہا ہے کہ انھوں نے ان نئی دھمکیوں کا جواب دے دیا ہے اور وہ امریکہ سے ساتھ باریک بینی سے شمال میں فوجی حرکات کا جائزہ لے رہے ہیں۔
شمال نے کیا کہا؟
شمالی اور جنوبی کوریا کے بیچ سیز فائر کا علاقہ ہے جسے ڈی ملٹرائزڈ زون (ڈی ایم زی) کہا جاتا ہے۔ 1950 کی دہائی میں کوریائی جنگ کے دوران سرحد کے دوران یہ علاقہ تشکیل ہوا تھا۔
منگل کو شمالی کوریا کی فوج نے کہا کہ وہ اپنی حکمت عملی پر تحقیق کر رہے ہیں تاکہ فوج سیز فائر کے علاقے میں داخل ہوسکے۔
فوج نے اپنے بیان میں کہا کہ وہ ہائی الرٹ پر ہیں اور حکومت کے کسی بھی فیصلے پر عملدرآمد تیزی سے کرنے کے لیے تیار ہیں۔
South Korea says that North Korea has exploded an inter-Korean liaison office building just north of the tense Korean border in the town of Kaesong. North Korea had stepped up its fiery rhetoric in recent days. https://t.co/BJlI5z8WRj
— The Associated Press (@AP) June 16, 2020
یہ بیان ایسے وقت میں آیا ہے جب جنوبی کوریا کے رہنما کِم جونگ اُن نے سنیچر کو جنوبی کوریا کے خلاف حملے کی دھمکی دی۔
ان کی بہن کم یو جونگ بھی شمال کی ریاست میں اہم رہنما سمجھی جاتی ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ: ’وقت آگیا ہے کہ جنوبی کوریا کے حکام کے ساتھ تعلق توڑ دیا جائے۔‘
انھوں نے ’ایکشن‘ لینے کا وعدہ کیا، فوج کو ہدایت جاری کی اور اپنے بیان کا اختتام کچھ اس طرح کیا: ’کچرے کو ٹوکری میں پھینکنا ضروری ہے۔‘
کتابچوں میں کیا ہے؟
گذشتہ ہفتے شمال نے جنوب سے تمام رابطے منقطع کر لیے تھے۔ اس میں دونوں ممالک کے رہنماؤں کے درمیان ہاٹ لائن فون رابطہ شامل ہے۔
کہا گیا کہ انھیں اس منحرف گروہ پر غصہ ہے جو جنوب میں بیٹھ کر شمال کی جانب کتابچے پھینک رہا ہے۔
منحرف گروہ اکثر سرحد پار غبارے بھیجتا ہے جن میں کتابچے اور دوسری اشیا ہوتی ہیں۔ ان میں کھانا، ایک ڈالر کے نوٹ، ریڈیو، یو ایس بی اور جنوبی کوریا کے ڈرامے یا نئی چیزیں موجود ہوتی ہیں۔
جنوبی کوریا کی حکومت نے پہلے ہی اس گروہ کو روکنے کی کوشش کی ہے اور کہا ہے کہ ان کے اس عمل سے سرحد کے قریب واقع آبادی خطرے میں آچکی ہے۔
صدر مون جے ان نے براہ راست شمال سے مطالبہ کیا ہے کہ مزاکرات کی میز پر واپس آئیں اور صورتحال کو مزید مشکل نہ بنائیں۔
سیز فائر زون کیا ہے؟
سیز فائر زون یا ڈی ایم زی کو سنہ 1953 میں کوریائی جنگ کے بعد تشکیل دیا گیا تھا تاکہ دونوں ممالک کے درمیان ایک بفر زون بنایا جاسکے۔ یہاں دونوں میں سے کسی کی فوج موجود نہیں ہوتی۔
کئی دہائیاں گزرنے پر یہاں کبھی کبھار فائرنگ سنائی دیتی ہے، شمالی کوریا کے منحرف سپاہی بھاگتے دکھائی دیتے ہیں اور تناؤ کم کرنے اور امن کے لیے بھی یہیں بات چیت ہوتی ہے۔ جنوبی کوریا میں یہ ایک سیاحتی مقام بھی بن چکا ہے۔
شمالی کوریا اور امریکہ کے درمیان مذاکرات کے دوران یہاں کم جونگ ان نے ڈونلڈ ٹرمپ اور مون جے ان کے ساتھ ہاتھ بھی ملائے تھے۔
گذشتہ دو سال کے دوران سیول میں جنوبی کوریا کی حکومت نے کوشش کی ہے کہ سرحد کے اس خوفناک علاقے کو امن کو گہوارہ بنایا جائے۔
شمال کے دارلحکومت میں ستمبر سنہ 2018 کے دوران ان دو ممالک کے رہنماؤں نے سرحد پر فوجی تناؤ کم کرنے کی حامی بھری تھی۔
تاہم اب تک اپنے نام کے برعکس یہ دنیا بھر میں فوج کی سب سے زیادہ موجودگی والے علاقوں میں شمار کیا جاتا ہے۔