شام: الہول کیمپ سے داعشی خواتین اور بچوں کی فرار ہونے کی کوشش ناکام

دمشق (ڈیلی اردو) گذشتہ دنوں کے دوران اس طرح کی رپورٹیں کثرت سے سامنے آئیں کہ شام کے صوبے الحسکہ کے دیہی علاقے میں واقع الہول کیمپ سے فرار کی کوششیں کی گئیں۔ اس کیمپ میں داعش تنظیم کے ارکان کی سیکڑوں شدت پسند خواتین موجود ہیں۔

رواں ہفتے کے آغاز پر شام میں انسانی حقوق کے نگراں گروپ المرصد نے بتایا تھا کہ شام کے شمال اور مشرقی حصے میں خود مختار انتظامیہ کی داخلہ سیکورٹی کی فورسز نے الہول کیمپ سے اجتماعی طور پر فرار کی سب سے بڑی کارروائی کو ناکام بنا دیا۔ فرار کی کوشش میں شامی اور عراقی شہریت رکھنے والی تقریبا 200 خواتین شامل تھیں۔ ان خواتین کے ساتھ بچوں کی ایک بڑی تعداد بھی تھی۔

علاوہ ازیں حالیہ عرصے میں کیمپ کے اندر تشدد کے واقعات میں نمایاں طور پر اضافہ دیکھنے میں آیا ہے۔ کیمپ میں داعش کے غیر ملکی ارکان کی بیویاں بھی موجود ہیں جن کا تعلق 50 کے قریب یورپی، ایشیائی اور عرب ممالک سے ہے۔

ریڈ کراس انٹرنیشنل اور اقوام متحدہ کے مطابق اس وقت کیمپ میں 65 ہزار سے زیادہ افراد موجود ہیں۔ ان میں شامی اور عراقی پناہ گزین شامل ہیں۔ کیمپ کا ایک حصہ داعش تنظیم کے ارکان کی بیویوں اور بچوں کے لیے مخصوص ہے۔ ان کی کم از کم تعداد کا اندازہ 12 ہزار لگایا گیا ہے جن میں اکثریت بیوہ خواتین ہیں۔

الہول کیمپ میں فرار کی کارروائیوں اور کوششوں پر تبصرہ کرتے ہوئے انسداد دہشت گردی اور انٹیلی جنس کی اسٹڈیز کے یورپی مرکز کے ڈائریکٹر جاسم محمد نے العربیہ ڈاٹ نیٹ کو بتایا کہ “ہمیں دستیاب معلومات سے تصدیق ہوتی ہے کہ ترکی اور ادلب شہر سے داعشی خواتین کے پاس مالی رقوم پہنچ رہی ہیں۔ یہ رقم اسمگلنگ نیٹ ورکس کو ادا کر کے کیمپ سے فرار ہونے کے واسطے استعمال ہو رہی ہے۔ مالی رقوم الہول کیمپ میں موجود منی ایکسچینج کے دفاتر کے ذریعے داعشی خواتین کو پہنچتی ہیں۔ یہ اندازا ماہانہ 300 سے 500 امریکی ڈالر ہوتی ہے”۔

جاسم محمد نے انکشاف کیا کہ مذکورہ رقوم کا بنیادی داعشی خواتین کے بیرون ملک مقیم خاندان ہیں۔ یہ لوگ غیر قانونی اور غیر اجازت یافتہ ایکسچینج کمپنیوں کے ذریعے اپنی بیٹیوں کو رقوم بھیجتے ہیں۔ بینک اکاؤنٹس کے ذریعے رقوم منتقل نہ ہونے کے سبب حکومتیں ان کا پتہ نہیں چلا سکتیں”۔

جاسم کے مطابق فنڈنگ کا ایک اور ذریعہ بھی ہے اور وہ ہے انٹرنیٹ کے ذریعے چندہ جمع کرنا۔ داعش کے حامی سپورٹرز انٹرینٹ پر مالی عطیات کے لیے مہم چلاتے ہیں۔ اس کے نتیجے میں حاصل ہونے والی رقوم بھی الہول کیمپ میں داعشی خواتین تک پہنچتی ہیں”۔

الہول کیمپ میں مقامی ذمے دار نے مالی رقوم پہنچنے کے حوالے سے کسی بھی تبصرے سے انکار کر دیا۔ تاہم خود مختار انتظامیہ کے قریبی ذرائع نے العربیہ کو تصدیق کی ہے کہ کیمپ میں ان خواتین کو معمولی رقم کا پہنچنا نارمل بات ہے تا کہ وہ ضروریات پوری کر لیں”۔

ذرائع کے مطابق بینکنگ نیٹ ورک کیمپ کے اندر کی سرگرمیوں کی مکمل نگرانی کرتا ہے لہذا بڑی مالی رقوم موصول نہیں ہوتی ہیں۔

گذشتہ ہفتے کے دوران داعش تنظیم کے حامیوں نے سوشل میڈیا پر وڈیو کلپس وائرل کیے تھے۔ ان کلپس میں ایک داعشی خاتون اپنا تعارف برطانوی “مريم” کے نام سے کرا رہی ہے۔ خاتون نے تنظیم کے حامیوں سے مطالبہ کیا کہ وہ مالی رقوم جمع کر کے الہول کیمپ کی خواتین کو بھیجیں تا کہ یہ خواتین اسمگلنگ نیٹ ورکس کے ذریعے کیمپ سے فرار ہونے میں کامیاب ہو سکیں”۔

سیرین ڈیموکریٹک فورسز (ایس ڈی ایف) جو کئی برسوں سے داعش تنظیم کے خلاف لڑ رہی ہے، وہ الہول کیمپ سے داعشی خواتین کی اسمگلنگ میں ملوث نیٹ ورکس کو نشانہ بنانے کے لیے سیکورٹی کارروائیاں جاری رکھے ہوئے ہے، تاہم اس کے باوجود فرار کی کارروائیاں رکنے کا نام نہیں لے رہی ہیں۔

Share on Social

اپنا تبصرہ بھیجیں