دوحہ + کابل (ڈیلی اردو/روئٹرز/اے ایف پی) افغان حکومت اور طالبان کے درمیان امن مذاکرات کے حوالے سے بدھ کے روز ابتدائی معاہدے پر اتفاق ہو گیا ہے۔ 19 سالہ جنگ کے دوران یہ فریقین کے مابین پہلا تحریری معاہدہ ہے۔ اقوام متحدہ اور امریکا نے اس کا خیرمقدم کیا ہے۔
تقریباً دو عشرے سے جنگ زدہ افغانستان میں قیام امن کے حوالے سے ایک اہم پیش رفت میں افغان حکومت اور طالبان، امن مذاکرات کے طریقہ کار کے سلسلے میں ابتدائی معاہدے پر متفق ہو گئے ہیں۔ امریکا نے اس کا خیرمقدم کرتے ہوئے اسے تشدد کو روکنے کیلئے ایک اہم موقع قرار دیا ہے۔
اس معاہدے کے بعد فریقین کے مابین مزید بات چیت کی راہ ہموار ہو گئی ہے اور اسے ایک اہم پیش رفت قرار دیا جا رہا ہے کیوں کہ اس سے مذاکرات کار جنگ بندی سمیت دیگر اہم مسائل پر بات چیت کو آگے بڑھا سکیں گے۔ اس دوران طالبان کی طرف سے افغان حکومتی فورسز پر حملوں کا سلسلہ جاری ہے۔
معاہدے کی تصدیق
افغان حکومت کی مذاکراتی ٹیم کے ایک رکن نادر نادری نے غیر ملکی خبر رساں ایجنسی روئٹرز کو بتایا کہ تمہید سمیت مذاکرات کے طریقہ کار کو حتمی شکل دے دی گئی ہے اور اب ایجنڈے کے مطابق مذاکرات کا آغاز ہو گا۔
۱/۲ عقد الیوم الأربعاء اجتماع عام بین فریقي المفاوضات الأفغانیة. وقد کلفت لجنة مشترکة بترتیب موضوعات الأجندة.
إن المفاوضات الحالیة بین فریقي الفضاوات الأفغانیة تدل علی أن هناک إرادة بین الأفغان لإحلال السلام الدائم في أفغانستان، pic.twitter.com/hmaoy4msx7— Nader Nadery (@N_Nadery) December 2, 2020
طالبان کے ترجمان نے بھی ٹوئٹر پر ابتدائی معاہدہ ہونے کی تصدیق کر دی ہے۔ طالبان کے ترجمان ڈاکٹر محمد نعیم نے ٹوئٹر پر لکھا، ”مذاکرات کے طریقہ کار کو حتمی شکل دے دی گئی ہے اور اب ایجنڈے پر بات چیت کا آغاز ہو جائے گا۔”
1-3
This morning, a meeting took place in Doha, between Sher Mohammad Abbas Stanekzai, Deputy Director of the Political Office and Negotiation Team of the IEA, and the accompanying delegation, and Deborah Lyons, Special Representative of the Secretary-General for Afghanistan— Dr.M.Naeem (@IeaOffice) December 2, 2020
فریقین کی جانب سے ایک مشترکہ بیان میں کہا گیا ہے کہ ”ایک جوائنٹ ورکنگ کمیٹی کو (امن مذاکرات کے) ایجنڈے کے لیے موضوعات کا مسودہ تیار کرنے کی ذمہ داری سونپی گئی ہے۔”
3-3
the Geneva Conference and the delivery of international aid to Afghanistan, Regional Cooperation, causes of conflict, civilian casualties, and other related issues were discussed.— Dr.M.Naeem (@IeaOffice) December 2, 2020
معاہدے کا خیرمقدم
یہ معاہدہ پچھلے کئی ماہ سے دوحہ میں جاری مذاکرات کے بعد ممکن ہو سکا۔ افغانستان میں جاری تشدد کے باوجود امریکا ان مذاکرات کی حوصلہ افزائی کرتا رہا ہے۔
افغانستان میں اس وقت سب سے اہم ضرورت جنگ بندی کی ہے۔ عالمی برادری جنگ بندی پر مسلسل زور دیتی رہی ہے تاہم طالبان نے مذاکرات کے ابتدائی مراحل کے دوران جنگ بندی سے انکار کر دیا تھا اور اس کا کہنا تھا کہ ایسا اسی وقت ہوگا جب مذاکرات کو آگے بڑھانے کے طریقہ کار پر اتفاق ہو جائے گا۔
افغان امور سے متعلق امریکا کے خصوصی ایلچی زلمے خلیل زاد نے اس پیش رفت کا خیر مقدم کرتے ہوئے اسے ایک ‘سنگ میل‘ قرار دیا۔
1/4 I welcome the news from #Doha that the two Afghan sides have reached a significant milestone: A three-page agreement codifing rules and procedures for their negotiations on a political roadmap and a comprehensive ceasefire.
— U.S. Special Representative Thomas West (@US4AfghanPeace) December 2, 2020
انہوں نے ایک ٹوئٹ میں کہا کہ فریقین نے تین صفحات کے معاہدے پر اتفاق کرلیا ہے، جس میں سیاسی روڈ میپ اور جامع جنگ بندی کے لیے مذاکرات کے حوالے سے طریقہ کار اور قواعد و ضوابط موجود ہیں۔ انہوں نے مزید کہا ”یہ معاہدہ ظاہر کرتا ہے کہ مذاکرات کرنے والے فریقین سخت معاملات پر بھی اتفاق رائے کرسکتے ہیں۔“
4/4 As negotiations on a political roadmap and permanent ceasefire begin, we will work hard with all sides for serious reduction of violence and even a ceasefire during this period. This is what the Afghan people want and deserve.
— U.S. Special Representative Thomas West (@US4AfghanPeace) December 2, 2020
امریکی وزیر خارجہ مائیک پومپیو نے’ایک مشترکہ بنیاد تلاش کرنے کی لگن اور خواہش‘ کیلئے فریقین کو مبارک باد دیتے ہوئے کہا کہ امریکا ’تشدد کو کم کرنے اور جنگ بندی کیلئے تمام فریقین کے ساتھ مل کر سخت محنت کرے گا۔“ انہوں نے مزید کہا کہ’سیاسی روڈ میپ اور جنگ بندی کی طرف تیزی سے پیش رفت ہی وہ چیز ہے جو افغانستان کے عوام کسی بھی چیز سے زیادہ چاہتے ہیں۔‘
افغانستان کے اقوام متحدہ کے ایلچی ڈیبورہ لیونز نے اس ‘مثبت پیش رفت’ کو خوش آئند قرار دیتے ہوئے ٹوئٹر پر کہا کہ یہ پیش رفت اس امن کے لیے سنگ میل ثابت ہونی چاہیے جو تمام افغانی چاہتے ہیں۔
UN envoy for #Afghanistan @DeborahLyonsUN welcomes progress achieved by both negotiating teams in the #AfghanPeaceProcess. Moving on to the agenda is a positive development. This breakthrough should be a springboard to reach the peace wanted by all Afghans. @IeaOffice @N_Nadery
— UNAMA News (@UNAMAnews) December 2, 2020
افغان رہنماوں کا ردعمل
افغان صدر اشرف غنی کے ترجمان صدیق صدیقی نے ٹوئٹر پر کہا”(یہ معاہدہ) افغان عوام کی بنیادی مانگ ایک جامع جنگ بندی سمیت اہم امور پر بات چیت شروع کرنے کے لیے آگے کی طرف ایک قدم ہے۔”
The Pres. of Islamic Republic of Afghanistan welcomes the finalization of the negotiation procedures in Doha. It’s a step forward towards beginning the negotiations on the main issues, including a comprehensive ceasefire as the key demand of the Afghan people for a lasting peace.
— Sediq Sediqqi ???????? (@SediqSediqqi) December 2, 2020
افغانستان کی قومی مفاہمتی کونسل کے چیئرمین عبد اللہ عبد اللہ نے ایک ٹویٹ میں اس پیش رفت کو ‘ابتدائی اہم قدم‘ قرار دیا ہے۔
I welcome the initial major step taken in #Doha today agreeing to the procedural framework that paves the way for discussions about the peace agenda. I thank the republic’s negotiation team, all facilitators & the host #Qatar for their valuable support.
— Dr. Abdullah Abdullah (@DrabdullahCE) December 2, 2020
امن مذاکرات کی میزبانی کرنے والے قطر اور افغانستان کے پڑوسی ملک پاکستان کی حکومتوں نے بھی افغان حکومت اور طالبان کے درمیان معاہدے کا خیر مقدم کیا ہے۔
خیال رہے کہ امریکا میں نائن الیون واقعے کے بعد امریکی فورسز نے سن 2001 میں طالبان کو افغانستان میں حکومت سے برطرف کردیا تھا۔ اس کے بعد سے ہی افغانستان میں جنگ کا سلسلہ جاری ہے۔ گوکہ کابل حکومت کو امریکا کی حمایت حاصل ہے تاہم ملک کے بیشتر حصوں پر طالبان کا کنٹرول ہے۔
امریکا اور طالبان کے درمیان فروری میں ایک معاہدہ ہوا تھا جس کے مطابق غیر ملکی افواج کو مئی 2021 تک افغانستان سے نکلنا ہوگا جبکہ اس کے بدلے طالبان کی طرف سے حملے نہ کرنے کی ضمانت دی گئی ہے۔
امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ تنقید کے باوجود افغانستان سے امریکی فوج کے انخلا کے لیے جلدی میں نظر آتے ہیں اور کہہ چکے ہیں کہ وہ امریکا کی طویل ترین جنگ کا خاتمہ کرتے ہوئے کرسمس تک تمام امریکی فوجیوں کو واپس ملک میں دیکھنا چاہتے ہیں۔
ٹرمپ انتظامیہ نے جنوری تک افغانستان سے مزید دو ہزار فوجیوں کے انخلا کا اعلان کیا ہے، تاہم اس کے باوجود اس کے ڈھائی ہزار فوجی وہاں تعینات رہیں گے۔
جرمنی کے وزیر خارجہ ہائیکو ماس نے منگل کے روز مغربی دفاعی اتحاد نیٹو کو افغانستان سے فوجیوں کے قبل از وقت انخلا کے حوالے سے خبردار کیا تھا۔