کابل (ڈیلی اردو/ڈی پی اے/ڈوئچے ویلے) افغان حکومت کو ان ویڈیوز پر گہری تشویش ہے، جن میں طالبان رہنماؤں کو ’پاکستان میں عسکریت پسندوں کے تربیتی کیمپوں‘ کے دورے کرتے ہوئے دکھایا گیا ہے۔ ان ویڈیوز میں طالبان لیڈر زخمیوں سے ملاقات کرتے بھی دیکھے جا سکتے ہیں۔
کابل سے جمعہ پچیس دسمبر کو ملنے والی رپورٹوں کے مطابق ان ویڈیوز میں دیکھا جا سکتا ہے کہ کس طرح افغان عسکریت پسندوں کے رہنماؤں نے پاکستان میں بظاہر نہ صرف زخمی طالبان جنگجوؤں سے ملاقات کی بلکہ انہوں نے کابل حکومت کے خلاف برسرپیکار افغان طالبان کے پاکستانی شہروں میں قائم مبینہ تربیتی کیمپوں کے دورے بھی کیے۔
افغان حکومت کا دعویٰ
افغان وزارت خارجہ کے جاری کردہ ایک بیان میں آج جمعے کے روز کہا گیا، ”افغان باغی عناصر اور ان کے رہنماؤں کی پاکستان کے ریاستی علاقے میں موجودگی اور وہاں کھلم کھلا کی جانے والی سرگرمیاں افغانستان کی قومی سلامتی اور خود مختاری کی واضح خلاف ورزی ہیں۔‘‘
The overt presence & activities of Afghan insurgent elements & their leaders in Pakistani territory clearly violate AFG's national sovereignty & continue to cause crisis and instability in the region, posing a serious challenge to achieving lasting peace in AFG.
Full statement???? pic.twitter.com/ZvymKECNz3— Ministry of Foreign Affairs – Afghanistan ???????? (@mfa_afghanistan) December 25, 2020
افغانستان کی طرف سے پاکستان پر شروع سے ہی یہ الزام لگایا جاتا ہے کہ وہ افغان طالبان کی مدد کرنے کے علاوہ انہیں محفوظ پناہ گاہیں بھی مہیا کرتا ہے تاہم پاکستان کی طرف سے کابل حکومت کے ایسے دعووں کی ہمیشہ ہی تردید کی جاتی ہے۔
کابل کا کہنا ہے کہ پاکستان میں طالبان عسکریت پسندوں کے محفوظ ٹھکانے اور طالبان کی قیادت کی موجودگی خطے میں نا صرف مزید بحران اور عدم استحکام کی وجہ بن رہے ہیں بلکہ یہ صورت حال افغانستان میں دیرپا امن کے قیام کی کوششوں کے لیے بھی ایک بڑا چیلنج ہے۔
جرمن نیوز ایجنسی ڈی پی اے کے مطابق کابل حکومت نے ایک بار پھر ہمسایہ ملک پاکستان کی حکومت سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ پاکستان کے ریاستی علاقے کو ان ‘باغیوں‘ کے استعمال میں آنے سے روکے۔
ملا برادر کراچی کے ہسپتال میں
اسی ہفتے سوشل میڈیا پر منظر عام پر آنے والی ویڈیو فوٹیج میں افغان طالبان کے نائب سربراہ ملا عبدالغنی برادر کو پاکستان کے بندرگاہی شہر کراچی میں دیکھا جا سکتا تھا، جس میں یہ اشارہ دینے کی کوشش کی گئی تھی کہ طالبان افغان امن عمل سے متعلق اپنے تمام فیصلے پاکستان میں مقیم اپنی اعلیٰ قیادت کے ساتھ مشاورت کے بعد کرتے ہیں۔
VIDEO:
Multiple videos of Mullah Baradar that have been shared by Taliban sources make it clear that Taliban are no longer hiding that Taliban fighters are being/have been medically treated in Pakistani hospitals.
This video of Mullah Baradar is also from Pakistan. pic.twitter.com/89fpCHEPgn
— FJ (@Natsecjeff) December 22, 2020
اسی طرح ایک اور ویڈیو میں طالبان کے ایک اعلیٰ رہنما اور مذاکراتی مندوبین میں سے ایک ملا فضل اخوند کو بھی دیکھا جا سکتا تھا کہ وہ طالبان کے ایک تربیتی مرکز میں اس تحریک کے جنگجوؤں سے ملاقات کر رہے تھے۔ اس تربیتی کیمپ کی جگہ کی نشاندہی نہیں کی گئی تھی تاہم اس کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہ پاکستانی علاقہ ہے۔
#AFG Mullah Beradar visiting injured Taliban soldiers, am told in Karachi Pakistan, and the Taliban leader gave money to the wounded Taliban soldiers. Video shared with me. pic.twitter.com/YS9o2svvZs
— BILAL SARWARY (@bsarwary) December 21, 2020
پاکستانی موقف کی ناکافی نمائندگی
کابل سے اس بارے میں موصولہ رپورٹوں میں یہ نہیں بتایا گیا کہ افغان حکومت نے یہ تعین کس بنیاد پر کیا کہ ان ویڈیوز میں نظر آنے والے تربیتی کیمپ پاکستانی علاقے ہی میں تھے۔ پاکستان کا مسلسل یہ دعویٰ ہے کہ وہ طالبان کو کوئی مدد فراہم کرتا ہے اور نا ہی افغان طالبان کو یہ اجازت دی گئی ہے کہ وہ پاکستانی سرزمین کو اپنے مقاصد کے لیے استعمال کریں۔
دوسری طرف طالبان نے تصدیق کر دی ہے کہ ملا برادر نے کراچی میں ایک ہسپتال کا جو دورہ کیا، وہ افغان طالبان کے ایک وفد کے اسی ماہ کے وسط میں پاکستان کے ایک دورے کے دوران کیا گیا تھا۔