افغانستان: ہرات میں خودکش کار بم دھماکا، عورتوں اور بچوں سمیت 8 افراد ہلاک، 53 زخمی

کابل (ڈیلی اردو/ڈی ڈبلیو/روئٹرز/اے ایف پی) فغانستان میں یہ خودکش کار بم دھماکا ایسے وقت ہوا ہے جب عالمی طاقتیں جنگ زدہ ملک میں قیام امن اور مستقل جنگ بندی کے لیے کوشاں ہیں۔

افغانستان کے مغربی صوبے ہرات میں جمعے کے روز ہونے والے ایک کار بم دھماکے میں کم از کم اٹھ افراد ہلاک اور 53 دیگر زخمی ہوگئے۔

ہرات کے گورنر سید عبدالواحد قتالی نے بتایا کہ دھماکے کے بعد درجنوں مکانات اور دکانیں تباہ ہوگئیں۔ ہلاک ہونے والوں میں عورتیں اور بچے شامل ہیں۔ امدادی کارکن ملبے میں دبے افراد کو بچانے کی کوشش کررہے ہیں۔

گوکہ کسی گروپ نے اس دھماکے کی ذمہ داری فی الحال قبول نہیں کی ہے تاہم مقامی حکام نے اس واقعے کا ذمہ دار طالبان کو ٹھہرایا ہے۔

بنیاد پرست سنی طالبان نے تقریباً دوعشروں سے مغربی حمایت یافتہ افغان حکومت کے خلاف جنگ جاری رکھی ہوئی ہے۔

قیام امن کیلئے عالمی طاقتوں کی کوشش

ہرات میں کار بم دھماکہ ایک ایسے وقت میں ہوا ہے جب روس نے افغانستان میں مستقبل کی عبوری حکومت میں طالبان کو شامل کرنے کی امریکی تجویز کی حمایت کرنے کا اعلان کیا ہے۔ عالمی طاقتیں افغانستان کے لیے ایک ایسے انتظام کی کوشش کررہی ہیں جس سے جنگ زدہ ملک میں سکیورٹی کو یقینی بنایا جاسکے۔

روسی وزارت خارجہ کی ترجمان ماریاز زاخارووا نے جمعے کے روز پریس بریفنگ کے دوران کہا، ” ایک عبوری شمولیتی انتظامیہ کی تشکیل طالبان کو افغانستان کے پرامن سیاسی زندگی میں شامل کرنے کے مسئلے کا منطقی حل ہوگا۔” انہوں نے مزید کہا، ” یہ فیصلے افغانوں کو خود کرنا ہوں گے۔”

افغان صدر اشرف غنی نے افغانستان کے لیے عبوری حکومت کی تجویز کو مسترد کردیا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ نئے انتخابات کے بعد ہی نئی حکومت کی تشکیل ہونی چاہئے۔

جنگ بندی کیلئے امریکا، روس اور چین کی کوششیں

امریکا، افغانستان کے لیے سیاسی حل اور متحارب دھڑوں کے مابین مستقل جنگ بندی کے لیے روس، چین اور دیگر ملکوں کے ساتھ کا م کررہا ہے۔

امریکی وزارت خارجہ کے ترجمان نیڈ پرائس نے جمعہ کے روز کہا، ” ہم اس بات کو تسلیم کرتے ہیں کہ روس اور اس خطے کے دیگر ممالک ایک محفوظ اور مستحکم افغانستان کے لیے اہم رول ادا کرسکتے ہیں۔”

روس 18مارچ کو ایک بین الاقوامی کانفرنس کی میزبانی کرنے جا رہا ہے جس میں افغانستان کے مستقبل کے حوالے سے افغان حکومت کے نمائندے اور دیگر فریقین بھی شرکت کریں گے۔ افغان حکومت اور طالبان کے درمیان قطر کے دارالحکومت دوحہ میں سفارتی مذاکرات فی الحال تعطل کا شکار ہیں اور ترکی اگلے ماہ ایک امن مذاکرات کی میزبانی کرے گا۔

امریکی صدر جو بائیڈن کی انتظامیہ فی الحال اس بات پر غور و خوض کررہی ہے کہ آیا سابق صدر ڈونلڈ ٹرمپ اور طالبان کے درمیان فروری 2020ء میں ہونے والے معاہدے کو برقرار رکھا جائے۔ اس معاہدے کے تحت تمام امریکی افواج کو یکم مئی تک افغانستان چھوڑ دینا ہے۔

امریکی وزیر خارجہ انٹونی بلنکن نے حال ہی میں افغان صدر اشرف غنی کو بھیجے گئے ایک خط میں کہا تھا کہ یکم مئی تک امریکی افواج کی مکمل واپسی سمیت تمام متبادل زیر غور ہیں۔

Share on Social

اپنا تبصرہ بھیجیں