69

وادی کرم اور افغان تاریخ کے تلخ حقائق…! (احمد طوری)

بارہویں صدی عیسوی کے ابتداء میں شہاب الدین غوری کے ترک النسل چہیتے گورنر تاج الدین یلدز وادئ کرم (کڑمان-شلوزان) پر بادشاہت قائم اور اپنا سکہ رائج کرچکے تھے جس کے آثار ابھی تک موجود ہیں۔ عظیم فاتح شہاب الدین غوری ہندوستان پر حملوں کے لئے درہ کرم استعمال کرتے رہے اور جب گھکڑوں کے ہاتھوں قتل ہوئے تو لاشہ بھی کڑمان سے ہوکر غور پہنچایا گیا۔

طوری قبائل کا ذکر پہلی دفعہ “تاریخ نامہ ہرات“ نامی کتاب میں آیا ہے جب 1255 میں طوری قبیلے کے مشر احمد طوری دیگر ڈیڑھ درجن ملوک عظام کے ساتھ ہرات کے شاہی (گورنر)کے دربار میں موجود تھے جو ملکی صورتحال پر غور و حوض کے لئے بادشاہ کے دربار میں بلائے گئے تھے۔

طوری بنگش قبائل کا ذکر مغل بادشاہ ظہیرالدین بابر نے اپنی سوانح حیات “تزک بابری” یعنی ”بابُرنامہ“ میں کیا ہے جب وہ ہندوستان پر حملہ کرتے ہوئے کوہاٹ اور بنوں تک پشتوں قبائل کا قتل عام کر رہے تھے۔ بنگش قبیلے کے بہت سے لوگ قتل کئے تھے جس کا ذکر تفصیل سے کیا گیا ہے۔

طوری بنگش اور جاجی قبائل کا ذکر ابو الفضل کی کتاب اکبر نامہ میں موجود ہے جو مغل شہنشاہ جلال دین اکبر کے زمانے میں لکھا گیا ہے۔ ابو الفضل اکبر نامہ میں لکھتے ہیں کہ طوری اور جاجی مشران مغل بادشاہ اکبر کے دربار میں دیگر پشتون قبائلی مشران کیساتھ پیش ہوئے جب اکبر بادشاہ 1586ء میں اٹک میں تشریف فرما تھے۔ دیگر قبائل میں خلیل، مہمند، خوگیانی یا گیگیانی، شیرزاد، خضر خیل، عبد رحمانی اور غورغشت اور غوریا خیل قبائل شامل تھے۔ ان سب قبائل نے مل کر اکبر بادشاہ کے ہاں یوسفزئی قبیلے کی شکایت لگائی تھی۔

احمد شاہ ابدالی نادرشاہ کی سرکردگی میں افغانستان کو روندتے ہوئے دہلی پر قبضہ کر گئے۔

سترھویں صدی کے ابتداء میں غلجی افغان جنگجو میر اویس ھوتک (میرویس نیکہ) اور انکے صاحبزادے میر محمود (1709-1747) مغلوں کی مدد سے تاریخی افغان شہر قندھار اور ہرات سمیت ایران کے بیشتر علاقے فتح کرنے میں کامیاب ہوئے اور اپنے آپ کو شاہ افغانستان کے ساتھ شاہ ایران بھی قرار دیا تو کسی اور نے نہیں بلکہ احمد شاہ ابدالی نے ایرانیوں (نادر شاہ) سے مل کر 1738 میں ہوتک بابا کا قلع قمع کیا اور نادرشاہ کی سرکردگی میں افغانستان کو روندتے ہوئے دہلی پر قبضہ کر گئے۔

احمد شاہ ابدالی کے وفاداروں نے ایرانی بادشاہ نادر شاہ کو قتل کرکے کوہ نور ہیرا بھی ساتھ کندھار لائے اور 1747 میں لویہ جرگہ کے ذریعے افغانستان کے بادشاہ منتخب کروانے میں کامیاب ہوئے تو بہت بڑی لشکر لیکر غزنی اور کابل کو تہہ وبالا کرتے ہوئے پنجاب سندھ اور کشمیر میں مغلوں کو شکست دینے میں بھی کامیاب ہوئے جبکہ 1761 کے مشہور ومعروف پانی پت جھگڑے میں مراٹھا سلطنت کو بھی شکست سے دوچار کیا تو دہلی کے کمزور مغل بادشاہ نے ہتھیار ڈالنے میں دیر نہیں کی۔

یوسفزئی اور خٹک، اورکزئی اور بنگش، آفریدی و شینواری اور وزیر و محسود سمیت ہر قبیلہ دوسرے کا دشمن رہا ہے

دوسری طرف ایران کے صوبہ مشہد جہاں نادرشاہ کے نواسے شاہ رُخ افشاد گونر تعینات تھے پر حملہ آور ہوئے۔ جبکہ شمالی افغانستان پر قابض تاجک، اُزبک، ھزارہ اور ترکمن قبائل کو بھی تابع بنایا۔ یہ وہ دور ہے جب افغانستان اور ہندوستان پر قبضے کی کوششیں ہورہی تھیں اور تمام پشتون قبیلے طول وعرض میں لڑتے رہے ہیں۔ یوسفزئی اور خٹک، اورکزئی اور بنگش، آفریدی و شینواری اور وزیر و محسود سمیت ہر قبیلہ دوسرے کا دشمن رہا ہے اور پیر روشان، اخوند درویزہ بابا اور خوشحال خان خٹک جیسے عظیم پشتون لیڈروں سے لیکر آج تک لڑ رہے ہیں۔

احمد شاہ ابدالی کے ساتھ سب پشتون (پختون) قبائل نے دل کھول کر مدد کی اور لشکروں میں شامل ہوئے جبکہ بہت سے قبائل آج بھی ہندوستان میں آباد ہیں۔ وہ زیادہ تر احمد شاہ بابا کے لشکر میں شامل تھے پھر وہیں زندگی بسر کرنے کا فیصلہ کیا۔

بنگش پشتون قبائل میں سب سے طاقتور قبیلہ رہا ہے۔ یہ اس دور میں عجیب صورتحال سے دوچار تھے۔ ایک جانب یہ وادئ کرم میں افغان حکمرانوں ( کے زیادہ خراج/ٹیکس) سے تنگ تھے تو دوسری طرف اورکزئی قبائل کے ساتھ جنگ بھی جاری تھی۔ اس کے علاوہ کوہاٹ کے محاذ پر خٹک قبائل سے بھی جنگ ہو رہی تھی جس میں خوشحال خان خٹک کود پڑے تھے اور مغل اور افغان حکمران بھی کیونکہ لوئر بنگش بہت زیادہ ٹیکس (خراج) دے رہا تھا جبکہ اپر کرم کے بنگش کم ٹیکس دے رہے تھے۔

احمد شاہ ابدالی نے خراسان، کشمیر، شمالی ہندوستان، اور آمو دریا سے خلیج فارس و عرب تک عظیم افغان سلطنت کی بنیاد رکھی لیکن ان کے بعد درانی خاندان نااہل نکلا۔ طاقت کے حصول کی کوشش آپس کی دشمنیوں میں تبدیل ہوئی، پورا افغانستان میدان جنگ بن گیا اور یہ پچاس سال کے اندر تقریباً سارے مفتوحہ علاقے گنوا بیٹھے۔

دوست محمد خان کے والد سردار پائندہ خان کنگ میکر تھے اور ہر مہینے ایک درانی کو کرسی سے اتار کر دوسرے کو بٹھاتے رہے بالآخر افغان سلطنت کے وارث بن گئے۔

درانیوں (1747-1823) نے افغانستان، تاجک، ہزارہ، ترکمن، اُبک، ایران اور ہندوستان سمیت درجنوں سلطنتوں کی اینٹ سے اینٹ بجائی اور احمد شاہ درانی بابا، تیمور شاہ درانی، زمان شاہ درانی، محمد شاہ درانی (اندھا)، شجاع شاہ درانی، علی شاہ درانی اور ایوب شاہ درانی سے ہوتی ہوئی افغان بادشاہت پہلی افغان جنگ کے بعد درانی (سدوزئی) قبیلے سے بارکزئی قبیلے میں منتقل ہوئی اور 1823 میں دوست محمد خان افغانستان کے بادشاہ بن گئے۔ دوست محمد خان کے والد سردار پائندہ خان کنگ میکر تھے اور ہر مہینے ایک درانی کو کرسی سے اتار کر دوسرے کو بٹھاتے رہے بالآخر افغان سلطنت کے وارث بن گئے۔

روسی، برطانوی، جرمن، پرتگالی، ولندیزی، ایرانی، مغل اور دیگر طاقتوں کے ہاتھ اپنی جگہ لیکن اوپر بتائے گئے لسٹ میں کون سا افغان بادشاہ ہے جو اپنے بھائی کو یا بھتیجے کو قتل کرکے تخت نشین نہ ہوا ہو؟ یہ ریت کوئی نئی نہیں، مغل، بنی امیہ اور بنی عباس بھی اسی روش پر چل رہے تھے اور نادر شاہ بھی اسی کا شکار بنے۔

شاہ شجاع جو 1804-1809 اور 1839-1842 تک افغان بادشاہ رہے نے زمان شاہ کو زبردستی تخت سے اتارا کہ تم اندھے ہو تو محمود شاہ، شاہ شجاع سے تخت چھین کر قابض ہوئے اور شاہ شجاع سکھوں کے پاس پنجاب جا بیٹھے۔

شاہ شجاع درانی (سدوزئی) نے 1834 میں سکھوں سے مل کر کابل پر قبضہ کرنے کوشش کی تو پشاور سکھوں کے حوالہ کر بیٹھے۔ شاہ شجاع نے بس نہیں کیا بلکہ انگریزوں اور سکھوں سے مل کر 1838 میں ایک بار پھر افغانستان پر حملہ آور ہوئے ۔ اس دفعہ دوست محمد خان کو ہٹانے میں کامیاب ہوئے اور ایک بار پھر درانی (سدوزئی) سلطنت قائم کرنے کی کوشش کی لیکن افغانوں نے بری طرح مسترد کر دیا۔ شاہ شجاع نے وحشیانہ طرز عمل اختیار کرتے ہوئے اور بیرونی دشمن قوتوں سے مل کر ملک پر قبضہ کرنے کی کوشش کی اور بارکزئی قبیلے کی طاقت پر گرفت بھی مضبوط ہو چکی تھی۔

احمد شاہ ابدالی (درانی) کے دور میں پشتون قبائیل کو خاص اہمیت دی گئی اور مختلف قبائیل کے مسائل ترجیحی بنیادوں پر حل کرکے اپنے لشکروں کا حصہ بنایا گیا تو سترھویں صدی کے آخر میں طوری قبائل وادئ کرم میں زبردست اثر و رسوخ اور طاقت حاصل کرکے دیگر قبائل پر غالب آئے۔ درہ کرم پر قبضہ کرنا شروع کیا تو اپر اور لوئر کرم ٹل، شبک اور زازی میدان تک سارا کا سارا علاقہ ان کے قبضے میں چلا گیا۔

امیر کبیر دوست محمد خان 1863 میں ہرات فتح کرتے ہی وفات پا گئے لیکن ایک نااہل بیٹے کو ولی عہد بنا کر بھاگ ڈور منتقل کرنے کی وصیت کی تھی جس کے لئے سب دوست احباب اور مشران نے منع کیا تھا۔ شیر علی خان یا تو نشہ کرکے دنوں تک مے خانے میں پڑے رہتے پھر نشے سے بیدار ہوکر مسجد میں نمازیں اور قرآن مجید کی تلاوت کرکے توبہ واستغفار مانگتے پھرتے۔ ڈاکٹر بیلیو نے ‘افغان ریسز؛ میں اس کی تفصیل صفحہ نمبر 45 اور 46 پر لکھی ہے۔

غزنی کے گورنر شیر علی خان والد امیر دوست محمد خان کو دفن کرنے کے بعد افغانستان کے نئے بادشاہ بن کر کابل میں داخل ہوئے۔ امیر شیر علی خان بادشاہ بننے کا سالانہ جشن منانے کی تیاری کر رہے تھے کہ ایک بھائی اعظم خان نے (جو وادئ کرم کے گورنر تھے) بغاوت شروع کردی اور دوسرے محمد افضل (جو صوبہ بلخ کے گورنر تھے) نے 1864 بغاوت شروع کر دی۔ ان دونوں بغاوتوں کے پیچھے کوئی سازش تھی اور نہ ہی وادئ کرم یا بلخ کے عوام باغی ہو گئے تھے! بلکہ بادشاہ کے بھائی اپنے ہی (سوتیلے) بھائی کے خلاف کھڑے ہوئے۔

بادشاہ کے بھائی اعظم خان صاحب راولپنڈی بھاگ کر انگریزوں کے پاس پناہ مانگنے پر مجبور ہوئے

امیر شیر علی خان نے ایک بڑا لشکر اپنے بھائی اعظم خان کی سرکوبی کیلئے وادئ کرم بھیجا تو بادشاہ کے بھائی اعظم خان صاحب راولپنڈی بھاگ کر انگریزوں کے پاس پناہ مانگنے پر مجبور ہوئے۔ اعظم خان کے بھاگنے پر وادئ کرم میں جو گورنر مسلط کر دیئے گئے تھے انہوں نے اعظم خان کی بغاوت کا بدلہ عوام سے لینے کا فیصلہ کیا اور وادئ کرم کے اہل تشیع آبادی پر ظلم کے پہاڑ توڑنا شروع کر دئے۔ وادی کرم کی آبادی پہاڑوں پر جا کر بسنے لگی۔

امیر دوست محمد خان کا دور پرسکون تھا! وادئی کرم پر 1848 سے 1864 تک محمد اعظم خان افغانستان کی طرف سے پہلے گورنر بھیجے گئے، جو افغان بادشاہ دوست محمد خان کے صاحبزادے اور امیر شیر علی خان کے بھائی تھے، اعظم خان کی والدہ اور بیگم کا تعلق بھی وادئ کرم (شلوزان) سے تھا، اس سے اندازہ کریں کہ وادئی کرم کی کتنی اہمیت تھی۔ افغان بادشاہ دوست محمد خان کے انتقال کے بعد بھائیوں میں پھوٹ پڑی اور اقتدار صاصل کرنے کے لئے آپس میں لڑ پڑے تو شیر علی خان لشکر لے کر وادئ کرم کے گورنر اعظم خان پر حملہ آور ہوئے جو اپنے بھائی اور افغان بادشاہ شیر علی خان کے خلاف دوسرے بھائی أفضل خان کی حمایت کررہے تھے، اعظم خان جان بچا کر انگریزوں کے ہاں پناہ لینے پر مجبور ہوئے۔

کرم ایجنسی کے طوری قبائل

افغان بادشاہ وادئ کرم کی شیعہ آبادی کو کافر سمجھ کر دیگر علاقوں کی نسبت زیادہ خراج کا تقاضا کرتے تھے

وادئ کرم گورنر اعظم خان کے وقت میں کافی خوشحال اور پرامن تھی کیونکہ اعظم خان اور والد امیر دوست محمد خان دونوں کی رشتہ داریاں بھی ہو چکی تھیں لیکن وادئ کرم پر امیر شیر علی خان کی لشکر کشی اور اعظم خان کے ہٹائے جانے سے جو حالات افغانستان نے خود پیدا کئے، اس کا ذمہ دار طوری بنگش قبائل یا کسی مسلک کو نہیں ٹھہرایا جا سکتا!

اس معاملے میں پشتون (پختون) لکھاری تصویر کا صرف ایک رخ دکھاتے ہوئے ادبی اور تاریخی بددیانتی کر جاتے ہیں۔ کیا پشتون قلم کاروں میں سے کسی نے یہ لکھنے کی جرأت کی ہے کہ افغان بادشاہ وادئ کرم کی شیعہ آبادی کو کافر سمجھ کر دیگر علاقوں کی نسبت زیادہ خراج کا تقاضا کرتے تھے۔

أفضل خان اور اعظم خان کے بعد امیر کے سگے بھائی امین خان قندھار میں باغی ہوئے تو امیر سب کچھ چھوڑ چھاڑ کر بھائی کے مقابلے میں میدان جنگ میں اترے۔ اپنے بھائی کو بھتیجے کے ساتھ 1865 مین قتل کر ڈالا اور پھر وہیں تعزیت کے لئے بیٹھ گئے۔ امیر شیر علی خان اب ہفتوں کی بجائے مہینوں اپنے آپ کو کمرے میں بند کرکے نشہ کرتے اور بے حال پڑے رہتے اور اُٹھ کر پھر مہینوں مسجد کے محراب میں بیٹھ مولویوں کے منتر سنتے۔

امیر شیر علی خان ابھی قندھار میں بھائی اور بھتیجے کو قتل کرکے کابل پہنچے بھی نہیں تھے کہ جیل میں ٹھونسے گئے بھائی أفضل خان کے بیٹے عبد الرحمن نے بغاوت کرکے صوبہ بلخ فتح کر لیا اور کابل کی طرف مارچ شروع کیا۔ وہاں اعظم خان بھی ساتھ ملے تو شیر علی خان جو قندھار سے کابل آ رہے تھے اور عبد الرحمن بلخ سے کابل فتح کرنے۔ لہذا فروری 1866 میں شیخ آباد کے مقام ہر ایک اور جنگ ہوئی جس میں امیر شیر علی خان کو شکست ہوئی، تو عبد الرحمن نے والد أفضل خان کو رہائی دلوائی اور اعظم خان کے ساتھ مل کر کابل پہنچے۔

اب شیر علی قندھار پہنچے اور اپنے بیٹے یعقوب خان کو ایران سے مدد لینے واسطے مشہد بھیجا! کابل میں امیر أفضل خان کا فقید المثال استقبال ہوا اور 1867 میں افغانستان کے نئے امیر بن گئے۔ امیر أفضل خان ایک سال کے اندر فوت ہوئے تو اعظم خان کو بھی امیر بننے کا موقع ملا لیکن دونوں بری طرح ناکام ہوئے اور عوام نے مسترد کیا۔

شیر علی خان کے بیٹے یعقوب خان نے اعظم خان کے بیٹے سرور خان کو قندھار میں شکست دی اور کابل کی طرف بڑھے۔ اعظم خان اس بار میدان چھوڑ کر ترکستان کی طرف بھاگ نکلے جہاں انہوں فوج اکٹھا کرنے کی کوشش کی اور پھر سے شکست کھا گئے اور اب فارس (ایران) کی طرف بھاگے جہاں بالآخر وفات پا گئے۔

امیر دوست محمد خان کے وفات کے بعد پانچ سال افغانستان میں شورش اور سول وار رہی لیکن اب شیر علی خان پھر امیر بننے میں کامیاب ہوئے لیکن اس دفعہ امبالہ پہنچے اور انگریز وائسرائے لارڈ میو کے پاؤں پڑ گئے۔ وہاں امیر کو خوش آمدید کہا گیا اور انگریزوں نے دنیا کے سامنے شیر علی خان کو افغان بادشاہ تسلیم کرلیا۔ امیر کافی خوش تھے لیکن ایک بزنس ڈیل کی وجہ سے کچھ ناراض بھی تھے۔

تین سال میں برطانوی افواج کے ساتھ مل کر افغانستان نے ایک بڑی فوج تیار کی اور اپنی رٹ قائم کی تو امیر شیر علی نے دربار میں روسی نمائیندے کو خصوصی اہمیت دینی شروع کر دی۔ برطانوی نمائندے کا کابل میں داخلہ منع کیا تو برطانوی وائسرائے آگ بگولہ ہو گئے اور قندھار، پیواڑ اور خیبر کے راستوں افغانستان میں اپنی فوجیں داخل کرنا شروع کی اور یوں وادئ کرم ایک بار پھر میدان جنگ بن گیا۔

امیر شیر علی خان روس کی طرف بھاگتے ہوئے مزار شریف میں انتقال کرگئے اور اس کے بیٹے نئے امیر یعقوب خان نے مئی 1878 کو گندمک کے مقام پر میجر کیویگنری کے سامنے ہتھیار ڈال دیئے اور ایک معاہدے کے تحت جنگ منسوخ کرکے سالانہ 60,000 پاؤنڈ سبسڈی کے ذلت آمیز شرائط پر دستخط کیے، اور آدھے ملک کے ساتھ افغانستان کی آزادی، عزت و تکریم بھی انگریزوں کے حوالے کی۔

میر غلام محمد غبار لکھتے ہیں: “نادر شاہ درانی کے پردادا سلطان محمد طلائی سکھوں کے نوکر تھے تو پشاور سکھوں کو فروخت کر دیا جو کہ اس وقت افغانستان کا حصہ تھا جبکہ سلطان محمد طلائی کے بیٹے یحیی طلائی نے امیر یعقوب کو انگریزوں کے سامنے ہتھیار ڈالنے پر مجبور کیا۔ یحی طلائی امیر یعقوب کے داماد بھی تھے”۔

تاریخ نویس افغان حکمرانوں کے کرتوت قبائل کے کھاتے میں ڈالنے پہ بضد کیوں نظر آتے ہیں

آپ اندازہ کریں! افغان بادشاہ اور انکے بیٹے اور داماد و رشتہ دار خود انگریزوں کی گود میں بیٹھتے رہے، کبھی پشاور و پنجاب سے سکھ رنجیت سنگھ کے ساتھ مل کر کابل پر حملہ آور ہوتے ہیں اور کبھی ایرانیوں کے ساتھ مل کر ہرات و قندھار تباہ و برباد کر دیتے ہیں۔ کبھی روس کے ہمنوا ہوتے ہیں تو کبھی امریکی چھتری تلے بیٹھ جاتے ہیں مگر تاریخ نویس افغان حکمرانوں کے کرتوت قبائل کے کھاتے میں ڈالنے پہ بضد کیوں نظر آتے ہیں۔

دوسری افغان جنگ 80-1878 ختم ہوئی تو وادئ کرم میں افغانستان کا کوئی گورنر نہیں رہا۔ 26 دسمبر 1878 کو میجر جنرل رابرٹس نے وادئ کرم کے تمام قبائل سے خطاب کیا اور چلتے بنے۔ خطاب میں مذہبی معاملات اور سماجی معاملات میں مداخلت نہ کرنے کی یقین دہانی کرائی۔ اس کے علاوہ ایک مولوی کو برطانوی راج کے خلاف اکسانے پر علاقہ بدر اور دوسرے کو گرفتار کرنے کی خبر دی۔ انگریز جنرل کے تقریر سے لگتا ہے کہ وادئ کرم کے طوری۔بنگش سمیت منگل، مقبل، زازی پاڑہ چمکنی سارے قبائل موجود تھے، طوری۔بنگش قبائل کا خاص ذکر ہے جنہوں احمد زئی میں موجود افغان گورنر کی چھاؤنی جلائی۔ اس تقریر کے بعد جنرل رابرٹس خوست کی طرف گئے اور وادئ میں کوئی مداخلت نہ کرنے کی پالیسی اپناتے ہوئے وادئ کرم کو آزاد چھوڑ دیا۔

گندمک میں سرنڈر کے زخم ابھی تازہ تھے کہ امیر عبدالرحمن نے ڈیورنڈ لائن ایگریمنٹ پر دستخط کردیئے اور ایک انگریز کو مکمل اختیار دیا کہ وہ جہاں سے گزرے وہاں ہندوستان اور افغانستان کا بارڈر ہو گا۔ امیر عبدالرحمن کی شیعہ دشمنی اتنی شدید تھی کہ ڈیورنڈ لائن پر کرم کو دم خنزیر کہا کرتے تھے اور خوشی کا اظہار کیا کرتے تھے کہ دم ہمارے ہاتھ سے نکل گئی۔

اب وادئ کرم مکمل آزاد ریاست بن چکی تھی اور طوری۔بنگش قبائل نے حکومت کرنے کے لئے اپنے دو گورنر منتخب کئے جو ایک سید، جناب سید گل بادشاہ صاحب اور ایک میاں مرید جناب محمد نور خان صاحب تھے۔

وادئ کرم کی حالت ایک جنگل کی طرح تھی، جہاں ہر طرف لاقانونیت تھی۔ طوری قبائل آپس میں بھی لڑ رہے تھے اور ارد گرد بسے سنی قبائل بھی وادئی کرم پر حملہ آور ہوئے۔ طوری قبائل بھی ٹل اور کوہاٹ تک دیگر قبائل پر حملے کرتے رہے۔ لامتناہی جنگوں کا سلسلہ شروع ہو چکا تھا اور سرور خان المعروف “چکئی” سنی قبائیل کو اکٹھا کرکے لوئر وادئ پر حملے کرکے طوری بنگش قبائل کے علاقوں پر قبضہ کرکے اپر کرم کی طرف بڑھ رہے تھے۔

چکئی سرور خان نے عیاری سے پہلے چنارک پر قبضہ کیا اور خوست میں گورنر کے بھائی کو ہٹانے کے مشن پر چلے، وہاں کامیاب ہوکر کابل پہنچے تو اپنے آپ کو کنگ میکر سمجھنے لگے۔
پن چکی (ژرندی گڑئ) چلانے والے جو اجرتی قاتل اور پیشہ ور ڈاکو و رہزن بن گئے تھے۔ اہل سنت پشتون قبائل ان ڈاکوؤں کے گرد جمع ہوئے اور لوئر کرم سے طوری بنگش قبائل کو بےدخل کر کے وہاں گورنر بن گئے۔ انگریزوں نے مصلحت (ڈیوائڈ اینڈ رول) کے تحت آنکھیں بند کیں جبکہ چکئی سرور خان مشن کے پیچھے افغان حکمران عبدالرحمن خان بھی تھے جو وادئ کرم کو واپس کابل کے زیر تسلط لانے کے خواہشمند ہو چکے تھے۔

افغانستان کے جتنے بھی مسائل اور ناکامیاں ہیں ان کے ذمہ دار اس کی نااہل لیڈرشپ اور سیاسی ہٹ دھرمیاں ہیں

سوال اُٹھتا ہے کہ ایسے حالات میں آفریدی قبائل یا وزیر و محسود قبائل اور طوری بنگش قبائل کے پاس کیا آپشن دستیاب تھے؟ وادئ کرم کے افغانستان کے ساتھ حالات گونر اعظم خان سے پہلے بھی ٹھیک نہیں تھے جس کی کئی وجوہات ہیں لیکن یہاں سے وادئ کرم کی افغانستان سے علیحدگی اور ہندوستان میں شامل ہونے کی کہانی شروع ہوتی ہے۔ اس میں قبائلیوں کو دوش دینا زیادتی ہے بلکہ افغانستان کے جتنے بھی مسائل اور ناکامیاں ہیں ان کے ذمہ دار اس کی نااہل لیڈرشپ اور سیاسی ہٹ دھرمیاں ہیں۔

وادئ کرم 1901 سے 2018 تک کرم ایجنسی تھی۔ 1901 سے پہلے وادی کرم کبھی افغانستان تو کبھی ہندوستان کے زیر تسلط رہا اور کبھی شورش کی وجہ سے آزاد حیثیت میں بھی کام چلتا رہا۔ انگریزوں نے وادئ کرم میں طوری لیوی (طوری ملیشیا) کی بنیاد رکھی تو اس سے پہلے خیبر رائفلز میں آفریدی قبائل، وزیرستان سکاؤٹس میں وزیر اور محسود قبائل، اسی طرح باجوڑ اور مہمند میں ملیشیا کھڑے کر دیئے تھے اور سب قبائل ملیشیا میں بھرتی ہو کر انگریزوں کے ساتھ شانہ بشانہ لڑتے رہے اور آج بھی وہ سب ملیشیا قائم و دائم ہیں اور سب قبائل بھی۔ صرف طوری ملیشیا یا کرم ملیشیا کو مورد الزام ٹھہراتے رہنا تاریخی بددیانتی ہے، جس کا ازالہ نہایت ضروری ہے۔ تاریخی حقائق کو مسخ کرنے سے تاریخ نہیں بدلتی۔ قلم کار اور لکھاری اگر تاریخ کے دسترخوان پر حرامخوری شروع کریں تو اقوام کی حالت وہی ہوتی ہے، جو پشتون قوم کی ہے۔

جب سے پشتون اس علاقے میں آباد ہیں طوری بنگش قبائل بھی وادئ کرم پر قابض ہیں اور تین سو سال سے مسلکی تعصب کا نشانہ بنتے آ رہے ہیں۔ اکثر مؤرخین نے انہیں رافضی جیسے الفاظ کے ساتھ تاریخ میں یاد کیا کرکے تعصب برتا ہے جبکہ اہل سنت قبائل پانچ سو سال سے وادئ کرم کے اہل تشیع آبادی کو کافر سمجھ کر قتل کرکے ثواب دارین حاصل کرنے کے چکر میں ایک دوسرے پہ سبقت لینے کی کوشش کرتے رہے ہیں۔

گندمک کے شرمناک سرنڈر سے جھکے ہوئے سر کو غازی امان اللہ خان نے اُٹھانے کی کوشش کی تو حبیب اللہ کلکانی مکار انگریز و عیار مولویوں کے ہاتھوں استعمال ہوئے جبکہ غلجی قبائل، نادرشاہ، سدوزئی اور بارکزئی کی آپس میں رسہ کشی بھی تباہی و بربادی میں حصہ ڈالتی رہی۔

افغانستان ایک ایسا بدنصیب خطہ أرض ہے جہاں محمود غزنوی، شہاب الدین غوری، میر اویس بابا، احمد شاہ ابدالی اور غازی امان اللہ جیسے دنیا کے عظیم رہنما اور فاتح پیدا ہوئے ہیں وہاں نااہل، نیم مولوی، چور، ڈاکو، رہزنوں کے سرغنہ، جاہل، مطلق، نام نہاد خادمین دین رسول اللہ، امیرالمومنین حبیب اللہ خان کلکانی المعروف بچہ سقہ جیسے لوگ بھی ایوان اقتدار تک پہنچے ہیں۔

امان اللہ کی جدیدیت پسند بیگم کی یورپ میں لی گئی کچھ تصاویر وسیع بنیادوں پر شئر کرکے پروپیگنڈا کیا گیا کہ امان اللہ خان مرتد و زندیق ہو چکے

افغان بادشاہ امان اللہ خان یورپ اور پڑوسی ممالک کے شاندار تاریخی دورے سے واپس آئے تو پورے افغانستان کا بھی دورہ کیا۔ شاہ نے اپنے خسر محمود طرزی کے مرتب کردہ اصلاحات کے نفاذ اعلان کیا۔ ساتھ ہی انگریز سفیر کو بلا کر کہا کہ اب افغانستان کی خارجہ اور مالی پالیسی آزاد ہو گی تو انگریزوں نے امان اللہ خان کو ہٹانے کا پورا پلان بنا لیا۔ امان اللہ کی جدیدیت پسند بیگم کی یورپ میں لی گئی کچھ تصاویر وسیع بنیادوں پر شئر کرکے پروپیگنڈا کیا گیا کہ امان اللہ خان مرتد و زندیق ہو چکے اور مغربی اصلاحات نافذ کرنا چاہتے ہیں۔

یہ پروپیگنڈا افغانستان کیا ہندوستان میں بھی پھیل گیا اور جاہل مولویوں نے مسجدوں کا استعمال کرکے امان اللہ خان کے خلاف بھر پور مہم چلائی اور بچہ سقہ نے اس کا بھرپور فائدہ اُٹھایا۔سیدو حسین اور ملا شور بازار سے ملکر غلجی اور شینواری قبیلے کو اپنا ہمنوا بنا لیا۔ مولویوں نے دھوکے سے امان اللہ کو دستبردار کرکے قندھار پہنچا دیا اور اس کے سادہ لوح بھائی عنایت اللہ خان کو دو ہفتوں کیلئے تخت پر بٹھایا۔ اب کیا تھا، بچہ سقہ کے ساتھ شینواری، منگل، جاجی اور غلجے سمیت دیگر قبائل مل گئے اور ۱۷ جنوری ۱۹۲۹ کو کابل میں داخل ہوکر پایہ تخت پر قبضہ جما لیا اور خادمِ دینِ رسول اللہ کے لقب سے لٹیروں کے ایک سرغنہ حبیب اللہ خان کلکانی افغانستان کے بادشاہ بن گئے۔

جب نادر شاہ نے سفاک بادشاہ اور جعلی امیرالمؤمنین حبیب اللہ کلکانی کے خلاف لشکر کا فیصلہ کیا تاکہ عظیم افغانستان کا قبضہ واپس چھڑائیں تو سویٹرزلینڈ سے پشاور اور پھر پاراچنار آئے اور طوری قبائیل سمیت جاجی، مقبل، منگل اور خوست کے قبائل کر لشکر لیکر کابل پر حملہ کیا۔

افغان بادشاہ امان اللہ اور ملکہ ثریا
انگریزوں کے ایماء پر مولویوں نے پروپیگنڈا شروع کر دیا کہ تیسرے خلیفہ حضرت عثمان کے قتل میں اورکزئی کے اہل تشیع لوگ بھی شامل تھے

کوئی تاریخ نویس آپ کو طوری قبیلے کے ایسے سینکڑوں مثبت کردار اور پہلوؤں پر قلم اُٹھانے کی زحمت گوارا نظر نہیں آئیں گے۔ غنی خان بابا نے اپنی کتاب دی پٹھان میں غازی امان اللہ خان اور اورکزئی کے شیعہ قبائل کے ساتھ ہونیوالی نہایت درناک داستان لکھی ہے۔ اورکزئی کے زیرک شیعہ قبائل نے غازی امان اللہ خان کا ساتھ دینے کا فیصلہ کیا تو عیار انگریزوں کے ایماء پر مولویوں نے پروپیگنڈا شروع کر دیا کہ تیسرے خلیفہ حضرت عثمان کے قتل میں اورکزئی کے اہل تشیع لوگ بھی شامل تھے۔

پھر کیا تھا آفریدی قبائل نے اورکزئی میں کربلاء برپا کردی۔ مرد خواتین، بچے جو نظر آتے قتل ہوتے رہے، ہزاروں لوگ بےگناہ قتل ہوئے۔ جب انسان ختم ہوئے تو باغات کا رُخ کیا اور میوہ جات کے درخت کاٹے گئے اور آخر میں چنار کے درخت کاٹ کر آفریدی قبائل کے کلیجے ٹھنڈے ہوئے۔ غنی خان بابا نے ذکر نہیں کیا لیکن ایسی آگ وادئ کرم میں لگ چکی تھی اور آس پاس کے سارے اہل سنت قبائل اہل تشیع طوری قبائل پر ٹوٹ پڑے تھے۔ یہ سب اس وقت ہو رہا تھا جب اورکزئی اور وادئ کرم ہندوستان کا حصہ تھے۔

پشتون تاریخ نویس وادئ کرم کے طوری بنگش قبائل کو رافضی لکھتے رہے ہیں۔ حیات افغانی کے مصنف محمد حیات خان (ترجمہ فرہاد ظریفی اور عبداللطیف یاد) کے صفحہ 17 پر رافضی کہتے ہیں مگر صفحہ 340 پر شیعہ مذہب اور اہل سنت جماعت کے دشمن کے طور پر لکھتے پائے گئے ہیں۔ فقہی لہذ سے شیعہ اہل سنت کے بھائی ہیں دشمن بالکل نہیں بلکہ ذاتی دشمنی اور پہاڑ، زمین اور پانی کے جھگڑے مذہبی شکل اختیار کرجاتے ہیں جو وقت کے ساتھ ساتھ کم ہوتے جا رہے ہیں۔

تواریخ خورشید جہان کے صفحہ 126 پر مصنف شیر محمد خان صاحب وادئ کرم کے طوری قبائل کو راضی سید کے زیر اثر بتاتے ہیں۔ د پختون قبیلو شجری کتاب کے مؤلف م ج سیال مومند صاحب صفحہ نمبر 275 پر لکھتے ہیں کہ وادئ کرم کے شیعہ اپنے کو سچا جبکہ دوسرے قبائل کو گمراہ سمجھتے ہیں۔ کیا کسی پشتون لکھاری میں یہ لکھنے کی جرأت بھی ہے کہ ضیاالحق پلان کے تحت افغان مہاجرین کے ساتھ مقامی قبائل نے حالیہ تاریخ 1987 میں وادئ کرم سے اہل تشیع آبادی کو ختم کرنے کی کوشش کی؟

کیا پشتون لکھاریوں میں یہ جرأت ہے کہ 2005 سے لے کر 2012 تک وادئ کرم کے محاصرے کا ذکر کریں جب طوری بنگش کے اہل تشیع قبائل پر وزیرستان سے لیکر اورکزئی، خیبر، باجوڑ اور مہمند سے طالبان کمانڈر حکیم اللہ محسود کی سربراہی میں لشکر آتے رہے اور انہیں صفحہ ہستی سے مٹانے کی کوشش کی گئی؟

افغان جہاد کے نام پر فساد کس نے کیا جس نے افغانستان کا بیڑہ غرق کیا؟ سوات اور باجوڑ میں جو مولانا صوفی محمد اور مولوی فضل اللہ نے کیا وہ سب کے سامنے ہے، خیبر میں لشکر اسلام اور منگل باغ نے جو نہیں کیا وہ فوجی آپریشن نے کیا۔ اسی طرح شمالی اور جنوبی وزیرستان کس نے کھنڈرات میں تبدیل کئے؟

وادئ کرم کے طوری اور بنگش، جاجی و منگل، جدران و مقبل اور پاڑہ چمکنی سمیت سب قبائل آپس میں زمینی تنازعات، پہاڑوں اور پانی کے جھگڑوں میں عرصہ دراز سے لڑتے آ رہے ہیں۔ پشتونوں کا جینیاتی مسئلہ ہو یا جنگجوانہ روش، یہ مسئلہ سب قبائل میں یکساں موجود ہے۔ ایسے میں وادئ کرم کے طوری بنگش قبائل پر کسی مسلک و مذہب کا لیبل لگا کر ٹارگٹ کرنا تاریخی بددیانتی ہی کہلا سکتی ہے۔

نسلی، مذہبی اور فقہی افراط و تفریط پس پشت ڈالیں اور تنازعات پرامن طور پر حل کرکے آگے بڑھیں

وقت آ پہنچا ہے کہ نئی نسل آبا و اجداد کی ان فاش غلطیوں سے سیکھتے ہوئے آگے بڑھے۔ اگر پشتونوں نے تاریخ میں زندہ رہنا ہے تو جن وجوہات کی وجہ سے تباہی و بربادی سے ہمکنار ہیں ان وجوہات کی بیخ کنی کرنا ضروری ہے۔ سب قبائل کو ایک دوسرے کو برداشت کرنا ہوگا، ایک دوسرے کا احترام کرنا سیکھنا ہو گا اور ایک متفقہ لائحہ عمل اختبار کرنا ہوگا جہاں سے ترقی کی منازل طے کرنا شروع کریں۔

نئی نسل کو نئے جذبے سے جدید دور کے تقاضوں کے مطابق تعلیم و تربیت حاصل کرکے دنیا کے عظیم اقوام کے صف میں کھڑا ہونے کا امتحان درپیش ہے اور اس وقت اس امتحان میں پاس ہوسکتے ہیں جب نسلی، مذہبی اور فقہی افراط و تفریط پس پشت ڈالیں اور تنازعات پرامن طور پر حل کرکے آگے بڑھیں۔

اس مضمون سے آپ اخذ کرسکتے ہیں کہ
1-وادئ کرم طوری قبیلے کا سینکڑوں سال سے مسکن ہے۔
2-درہ کرم بھی درہ خیبر جیسے گزرگاہ رہی ہے جو سینکڑوں بلکہ ہزاروں سال سے جنگجو حکمرانوں کا راستہ ہے۔
3- طوری قبائل بھی دیگر پشتون قبائل طرح ہی ہیں، پشتونوالی میں کسی سے پیچھے نہیں اور ننگ و غیرت اور دفاع میں سب سے مضبوط ہیں۔
4- افغانستان چار سو سالوں سے اگر تباہی کا سامنا کررہا ہے تو اس میں قبائیل سے زیادہ افغان حکمرانوں کا ہاتھ ہے جو ایک دوسرے کو قتل کرتے رہے ہیں فتح حاصل کرنے کیلئے کسی بھی بیرونی قوت کے ساتھ مل کر اپنے بھائی کو دھڑن تختہ کرسکتے ہیں، تو ایسے میں گندمک جیسے معاہدے کا الزام کسی قبیلے کے سر تھوپنا تاریخی بددیانتی ہے۔
5- افغان حکمران انگریز خود لائے اور آدھا افغانستان انگریزوں کے حوالے کیا اس میں کسی قبیلے کو دوش دینا تاریخی بددیانتی ہے۔
6- پشتون (پختون) قبائل سب آپس میں دشمن دشمن ہیں، تو صرف طوری قبیلے کو مسلک یا مذہب کے بنیاد پر نشانہ بنانا تاریخی طور پر درست طرز عمل نہیں۔

‏حوالہ جات:
۱- الکامل فی التاریخ۔ ابن اثیر۔ جلد ۱۰ صفحہ ۳۰۸ سن ۶۰۲۔ مطبوعہ بیروت۔
۲- تاریخ فرشتہ۔
۳- تاریخ نامہ ہرات: سیف بن محمد بن یعقوب ہروی صفحہ 196
۴- تزک بابری (اردو) کے صفحہ نمبر ۳۳ اور ۳۴
۵- تزک بابری انگریزی ترجمے کے صفحہ 220، اور 229 سے لیکر 235 تک
۶- ځاځی د جہاد پہ بھیر کی۔ عوض الدین صدیقی۔ صفحہ ۲،۳
۷- پښتانه د تاریخ په رڼا کی۔ سید بہادر شاہ ظفر کاکاخیل
۸- پختون قبیلو شجری کتاب کے مؤلف م ج سیال مومند صاحب صفحہ نمبر 275
۹- تواریخ خورشید جہان کے صفحہ 126
۱۰- حیات افغانی: مصنف محمد حیات خان (ترجمہ فرہاد ظریفی اور عبداللطیف یاد) صفحہ 17، 340
۱۱- اکبر نامہ ابو الفضل
۱۲: کابل میں چار بادشاہ: سید شاہ بخاری
۱۳- افغانستان د تاریخ پہ تګلوري کې۔ میر غلام محمد غبار
14: Address of Major-General Roberts to the Chiefs of Kurram on the 26th of December 1878. George Edward and William spottiswwode, printer.
15: India’s north-west Frontier by Sir William Barton, page 103 onward.
16: Among the wild tribe of Afghan frontier by T. L Pennel, page 277 onwards
17: the lights and sheds of Hill life, travels in the Hills of Kullu & Kuram in the NWFP region (Circa-1890), chapter and 3 pages 190 onwards.
18: Photo: the lights and sheds of Hill life
19: Notes on Afghanistan & parts of Baluchistan By Maj H.G. Raverty
20: Epoutastuart Elphinstone: An account of the kingdom of Cabul
21: Journal of the royal Asiatic society. Vol 17
22: Ghani khan: The Pathan (Eng page 48, 49)
23: Ghani Khan: The Pathan (Pashto Translation page 82, 83 & 84)
24: The Pathan Sir Olaf Caroe
25: Edward Thomas: the chronicle of the Pathan kings of Delhi
26: The Chronicles of the Pathan kings of Delhi by Edward Thomas, page 25 onwards.
27: Afghanistan in the course of history: Mir Ghulam Muhammad Ghobar (page 28)


نوٹ: احمد طوری نے یہ تحریر رشید یوسفزئی کے مضمون معاہدہ گندمک: افغان تاريخ کا ایک سیاہ باب میں بیان کئے گئے ایک نکتے ‘قابل ذکر امر یہ ہے کہ تمام پشتونوں کے برعکس کرم کے طوری اور بنگش قبائل انگریزوں کے وفادار تھے’ کے جواب میں لکھی ہے۔ سان اردو تخلیقی سماج کی بنت میں مکالمے کو ایک بنیادی جزو سمجھتے ہوئے صحتمند بحث کو خوش آمدید کہتا ہے اور ادارتی معیارات پہ پورا اترنے والے ہر جواب کو شائع کرنے کیلئے تیار ہے۔

احمد طوری (فرضی نام) ایک سوشل ایکٹوسٹ ہیں جو سیاسی امور، سماجی و معاشرتی مسائل، تاریخ اور پشتون علاقوں کے معاہدات پر گہری نظر رکھتے ہیں۔

Share on Social

اپنا تبصرہ بھیجیں