کابل (ڈیلی اردو/وی او اے) امریکی محکمۂ خارجہ نے افغانستان سے یکم مئی کو امریکی فوج کے انخلا کا عمل شروع ہونے سے پہلے کابل کے امریکی سفارت خانے میں موجود اپنے عملے میں واضح کمی کا اعلان کیا ہے۔ یہ اعلان ایسے وقت پر کیا گیا ہے، جب افغانستان کے لیے امریکہ کے خصوصی مندوب زلمے خلیل زاد نے کہا ہے کہ افغانستان میں 20 سال تعینات رہنے کے بعد امریکی فوجیوں کے وہاں مزید تعینات رہنے کا کوئی جواز نہیں۔
زلمے خلیل زاد نے منگل کے روز امریکی سینیٹ کی خارجہ تعلقات کی کمیٹی کو بتایا ہے کہ امریکی سفارت خانے کے عملے میں کمی ‘رائٹ سائزنگ’ ہے۔
کمیٹی کے چیئرمین باب میننڈیز کے اس سوال پر کہ کیا عملے میں کمی تشدد میں ممکنہ اضافے کے خدشے کی وجہ سے تو نہیں ہے؟، خلیل زاد کا کہنا تھا کہ عملے میں کمی کرنے میں بہت سے عوامل کارفرما ہیں۔
امریکی خبر رساں ادارے ‘ایسوسی ایٹڈ پریس’ کے مطابق سفارت خانے کے چارج ڈی افیئرز راس ولسن کا کہنا تھا کہ عملے کو واپس بھیجنے کا حکم ، تشدد میں اضافے کے خطرات کی رپورٹوں کی وجہ سے دیا گیا ہے، تاہم اس کا اثر سفارت خانے کے اسٹاف کی قلیل تعداد پر پڑے گا اور جو خدمات فراہم کی جاتی ہیں، ان میں کوئی کمی نہیں آئے گی۔
اے پی کے مطابق، خلیل زاد کا کہنا تھا کہ افغانستان میں 20 سال تک تعینات رہنے کے بعد اب فوج کے وہاں مزید قیام کا جواز نہیں بنتا۔ اس کے ساتھ ہی ان کا کہنا تھا کہ وہ قانون سازوں کی اس تشویش سے اتفاق کرتے ہیں کہ امریکی افواج کے انخلا کے بعد، وہاں خواتین اور اقلیتوں کے حقوق پامال ہو سکتے ہیں۔خلیل زاد کا کہنا تھا کہ ہمیں اس بارے میں تشویش ہونی چاہئیے کہ حقوق متاثر ہو سکتے ہیں۔
جب ان سے پوچھا گیا کہ کیا امریکہ کے پاس کوئی ایسی طاقت یا اختیار ہے جس سے وہ انخلا کے بعد بھی حقوق کے تحفظ کو یقینی بنا سکے۔ اس کے جواب میں خلیل زاد نے بہت محتاط انداز اختیار کرتے ہوئے جواب دیا کہ اگر انہوں نے افغان خواتین اور دیگر کے حقوق کا احترام نہ کیا، تو پھر انہیں امداد اور دیگر سفارتی حمایت فراہم نہیں ہو گی۔
کمیٹی کے سامنے سماعت کے دوران، خلیل زاد نے صدر جو بائیڈن اور انتظامیہ کے دیگر عہدیداروں کے اس عزم کو دہراتے ہوئے کہا کہ امریکہ افغانستان کی ترقی اور انسانی حقوق کے شعبے میں حاصل کردہ ان کامیابیوں سے وابستہ رہے گا، جو سال دوہزار ایک کے بعد حاصل کی گئی ہیں۔
زلمے خلیل زاد کا کہنا تھا کہ انہیں ایسا نہیں لگتا کہ انخلا کے بعد افغان حکومت “فورا” کسی انحطاط کا شکار ہو جائے گی یا ملک میں حاصل ہونے والی ترقی کا پہیہ واپس مڑ جائے گا۔
سوال و جواب کے دوران خلیل زاد کا کہنا تھا کہ اس وقت افغانستان میں امریکی فوجیوں کی تعداد 3 ہزار کے لگ بھگ ہے، اور افغان فوجیوں کی تعداد تقریباً 3 لاکھ ہے جبکہ طالبان کی تعداد اندازا 80 ہزار سے ایک لاکھ تک ہے۔
غیر ملکی افواج کے انخلا کے اعلان پر افغان شہریوں کا ردِعمل
کمیٹی کے چیئرمین باب میننڈیز نے کہا کہ سمجھ میں نہیں آ رہا، 80ہزار کے مقابلے 3 لاکھ کیوں پوری طرح سے اپنا دفاع نہیں کر سکیں گے؟۔
دوسری طرف، امریکی فوج کی سینٹرل کمانڈ کے سربراہ، جنرل فرینک مکینزی نے منگل کے روز کہا ہے کہ امریکی انتظامیہ کابل میں ایک موثر سفارتخانہ رکھنے کی خواہاں ہے۔
واشنگٹن ڈی سی کے ایک تھنک ٹینک، امیریکن اینٹرپرائز انسٹی ٹیوٹ میں افغانستان سے متعلق بات کرتے ہوئے، جینرل مکینزی کا کہنا تھا کہ انتظامیہ کی خواہش ہو گی کہ افغانستان میں سفارتخانہ قائم رہے، تاہم وہاں فوجی موجودگی کم سے کم بلکہ بہت ہی کم ہو گی، صرف اتنی، جو سفارتخانے کی حفاظت کیلئے کافی ہو۔
واضح رہے کہ طالبان کے ساتھ امن مذاکرات تعطل کا شکار ہیں اور رمضان کا مہینہ ختم ہونے تک بات چیت کا کوئی امکان نہیں، جس سے بعض مبصرین یہ خدشات ظاہر کر رہے ہیں کہ غیر ملکی افواج کے انخلا کے بعد افغانستان میں خانہ جنگی کی صورتحال پیدا ہو سکتی ہے۔
کابل میں امریکی سفارتخانے کی حفاظت کا تمام تر دارومدار امریکی فوج پر ہے، اور گزشتہ سال جب سے سابق امریکی انتظامیہ نے اعلان کیا تھا کہ یکم مئی سےافغانستان سے امریکی افواج کا انخلا ہو گا، تب سے سفارتخانے کے عملے میں کمی کی جا رہی ہے۔