اسلام آباد (ڈیلی اردو/بی بی سی) وفاقی وزیر اطلاعات فواد چوہدری کا کہنا ہے کہ وزیر اعظم عمران خان نے عسکری قیادت کی جانب سے سیاسی رہنماؤں کو گذشتہ روز دی جانے والی بریفنگ میں شرکت کرنا تھی لیکن حزب اختلاف کے رہنما شہباز شریف نے سپیکر آفس کو پیغام دیا کہ ’اگر وہ آئیں گے تو ہم واک آؤٹ کر جائیں گے۔‘
جیو نیوز کے پروگرام ’جیو پاکستان‘ میں گفتگو کرتے ہوئے فواد چوہدری نے دعویٰ کیا کہ اس پیغام پر وزیر اعظم نے کہا کہ حزب اختلاف میٹنگ میں شرکت کر لے، وہ (وزیر اعظم) نہیں آئیں گے۔
یاد رہے کہ گذشتہ روز پارلیمنٹ ہاؤس میں ہونے والی اس بریفنگ سے قبل وزیر اعظم عمران خان کی شمولیت کے بارے میں سوالات پوچھے جا رہے تھے لیکن عین موقع پر آگاہ کیا گیا کہ وزیر اعظم اس بریفنگ میں شریک نہیں ہوں گے۔
بریفنگ میں افغانستان، کشمیر اور دیگر سرحدی اور سکیورٹی اُمور پر کھل کر بات کی گئی۔
بریفنگ میں شامل ایک سیاسی رہنما نے بی بی سی کو بتایا کہ ’سیاسی رہنماؤں کو اعتماد میں لیتے ہوئے آگاہ کیا گیا کہ خطے کی بدلتی صورتحال کے پیشِ نظر پاکستان میں خارجہ امور اور قومی سلامتی سے متعلق معاملات پر یکجا ہونے کی ضرورت ہے۔‘
یہ بریفنگ سپیکر اسد قیصر کی صدارت میں پارلیمنٹ ہاؤس میں پارلیمانی کمیٹی برائے قومی سلامتی کے ممبران اور سیاسی رہنماؤں کو ڈائریکٹر جنرل انٹر سروسز انٹیلیجنس (آئی ایس آئی) لیفٹیننٹ جنرل فیض حمید نے دی۔
اس اجلاس میں پاکستان کے آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ بھی شریک تھے۔
اس بریفنگ کے بارے میں صحافیوں کو بتایا گیا تھا کہ اپوزیشن جماعتوں کی جانب سے بجٹ اجلاس میں افغانستان سے متعلق اٹھائے گئےسوالات پر یہ بریفنگ منعقد کی گئی ہے۔
چار گھنٹے سے زیادہ دورانیہ والے اس اجلاس میں جن امور پر بات کی گئی ان میں سرِفہرست موضوعات افغانستان سے امریکی افواج کا انخلا اور انڈیا کے زیرِ انتظام کشمیر کی صورتحال شامل تھے۔
بریفنگ سے پہلے وزیرِ اعظم عمران خان کی شمولیت کے بارے میں سوالات اٹھتے رہے لیکن عین موقع پر پتاچلا کہ وہ اس بریفنگ میں شریک نہیں ہوں گے۔
اس بریفنگ میں شامل ایک سیاسی رہنما نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ پاکستان کی افواج نے ‘خطے کے دیگر ممالک کے تنازعات سے دور رہنے اور چین سے امریکہ کے دباؤ کے باوجود تعلقات مزید بہتر بنانے پر زور دیا۔
بریفنگ میں چین کے ساتھ تعلقات پر بات کرتے ہوئے سیاسی قیادت کو بتایا گیا کہ پاکستان چین کے ساتھ اپنے تعلقات مزید بہتر بنانے پر زور دے گاجبکہ اس دوران پاکستان امریکہ اور چین کے درمیان ہونے والی ‘سرد جنگ’ کا حصہ کسی صورت نہیں بنے گا۔
سیاسی قیادت کو اعتماد میں لیتے ہوئے بتایا گیا کہ ‘پاکستان کو چین اورامریکہ کی جنگ کا حصہ نہیں بننا چاہیے بلکہ دونوں ممالک کے ساتھ اپنے تعلقات بہتر رکھنے پر غور کرنا چاہیے۔’
سیاسی رہنما نے بی بی سی کو بتایا کہ ملٹری قیادت نے طالبان سے بات چیت کا معاملہ سیاستدانوں کے سامنے رکھتے ہوئے بتایا کہ ‘طالبان کے ساتھ بات چیت کسی سمت جاتی دکھائی نہیں دے رہی اور طالبان کی قیادت کسی بھی طریقے سے راضی نہیں ہو رہی ہے، جبکہ افغان طالبان اور تحریکِ طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) ملے ہوئے ہیں یعنی ایک ہیں۔’
اسی طرح افغانستان میں امن کے نفاذ کو یقینی بنانے کے لیے کمیٹی کو بتایا گیا کہ ‘افغانستان میں جو بھی حکومت آئے گی وہ پاکستان کو قبول ہوگی۔ کسی بھی گروہ کو فوقیت نہیں دی جائے گی۔’
یاد رہے کہ اس سے پہلے بھی وزیرِ اعظم عمران خان نے مغربی میڈیا میں جاری ہونے والے اپنے انٹرویوز اور بیانات میں کہا ہے کہ ‘ماضی سے سبق سیکھتے ہوئے، افغان جنگ میں پاکستان کو کسی گروہ کی حمایت نہیں کرنی چاہیے۔’
لیکن اس دوران طالبان کے ساتھ بات چیت ایک بڑا مسئلہ بن کر ابھر رہا ہے۔
30 جون کو تھنک ٹینک انٹرنیشنل کرائسس گروپ کی جانب سے شائع ہونے والی رپورٹ کے مطابق پاکستان کا طالبان پر اثر کم ہو رہا ہے اور یہ دعویٰ پہلی بار نہیں کیا جا رہا ہے۔
اس سے قبل قطر کے دارالحکومت دوحہ میں افغان طالبان سے ملاقات ہو یا پھر افغانستان میں طالبان سے جڑا کوئی بھی معاملہ، یہ بات بارہا امریکہ کی جانب سے براہ ِراست یا دبے لفظوں میں کی گئی ہے کہ پاکستان کا افغان طالبان پر اثر و رسوخ ہونے کی بنیاد پر وہ افغان امن عمل کا ایک اہم حصہ ہیں لیکن اب یہ اثر کم ہوتا دکھائی دے رہا ہے۔
پاکستان کی عسکری قیادت کی جانب سے سیاسی قیادت کو دی جانے والی بریفنگ سے اِن دعووں کو تقویت ملتی ہے جن میں طالبان سے بات چیت میں مشکلات کا ذکر کیا گیا ہے۔
افغانستان سے فوجی انخلا کے بعد پناہ گزینوں کی تعداد بڑھنے اور ان کا رُخ پاکستان کی طرف ہونے کا بھی خدشہ بارہا ظاہر کیا گیا ہے اور یہی بات بریفنگ کے دوران بھی کی گئی۔
جمعرات کے روز ہونے والی پارلیمانی بریفنگ میں بھی فوج کی طرف سے یہ خدشہ ظاہر کیا گیا کہ ‘افغانستان میں خانہ جنگی کی صورت میں پاکستان کو ایک طرف تحریکِ طالبان کے مضبوط ہونے اور دوسری جانب پناہ گزینوں کی تعداد اور ان کا رُخ پاکستان کی طرف ہونے سے خطرہ ہے۔’
فواد چوہدری نے کیا بتایا؟
جیو پاکستان میں گفتگو کرتے ہوئے وفاقی وزیر اطلاعات کا کہنا تھا کہ ‘ہماری کوشش اور دعا ہے کہ افغانستان میں پُرامن اور جامع حکومت بن جائے اور کابل حکومت اور افغان طالبان میں کشیدگی کم ہو جائے۔ ہم کوشش کر رہے ہیں کہ مذاکرات ہوں اور بات آگے بڑھے۔ لیکن اگر مذاکرات نہیں ہوتے، اور بدقسمتی سے تاریخ بھی یہی رہی ہے کہ بندوق نے فیصلہ کیا ہے کہ کابل کی حکمرانی کس کے پاس ہو گی۔‘
انھوں نے کہا کہ اس صورتحال میں پاکستان کا سب سے بڑا مسئلہ یہ ہے کہ تیس لاکھ افغانی پہلے ہی ہمارے پاس ہیں، معشیت کوئی بہت مضبوط نہیں ہے، اس میں اگر 15، 20 لاکھ لوگ اور آ گئے تو بوجھ اور بڑھ جائے گا۔
’اور پھر آپ کو معلوم ہے کہ اتنے لوگ آتے ہیں، آپ نے دیکھا کہ پچھلی دفعہ بھی منشیات کا کلچر، کلاشنکوف کا کلچر، اور یہ ساری چیزیں پھیلتی ہیں۔ اگر وہاں سے لوگ بھاگتے ہیں تو ہم کیسے ان کو اپنے پاس رکھیں گے۔‘
’دوسرا بدقسمتی سے اگر وہاں خانہ جنگی ہوتی ہے تو ظاہر ہے کہ پاکستانیوں کے وہاں قریبی رشتے ہیں، تعلقات ہیں، وہاں قتل و خون ہوتا ہے تو پاکستان پر اثر پڑتا ہے، یہ بڑی پریشان کن بات ہے، دیکھتے ہیں کہ آگے کیا حالات ہوتے ہیں۔‘
انھوں نے کہا کہ طالبان کی ماضی کی حکومت میں جو دو تین ممالک طالبان کے پیچھے تھے ان میں سعودی عرب، متحدہ عرب امارات اور پاکستان تھے۔ ’اس بار تینوں ملک تھوڑی ہچکچاہٹ کا شکار ہیں طالبان کے معاملے پر۔ ہماری خواہش ہے کہ افغانستان میں ایک متفقہ حکومت آئے۔‘
انھوں نے کہا کہ انڈیا نے افغانستان کو ہمیشہ استعمال کیا ہے۔ ’افغانستان کو پورا حق حاصل ہے کہ وہ کسی بھی ملک کے ساتھ اپنے آزادانہ تعلقات رکھے۔‘
فواد چوہدری کے مطابق ہمارا خدشہ صرف وہاں شروع ہوتا ہے کہ جب انڈیا افغانستان کی سرزمین کو پاکستان میں دہشت گردی کے لیے استعمال کرتا ہے۔ ’اب دیکھیں کہ اس وقت پانچ سے سات ہزار تحریک طالبان پاکستان کے دہشت گرد افغانستان میں ہیں۔ ان کو کون پیسے دے رہا ہے، وہ کیسے رہ رہے ہیں وہاں۔ ابھی پاکستان میں جو واقعات پیش آئے، آپ لاہور کے واقعہ کو ہی لے لیجیے، اس کا واضح بلیو پرنٹ ملتا ہے انڈیا سے۔‘
انھوں نے کہا کہ اگر افغانستان میں اس قسم کا قدامات پرست ماحول فروغ پاتا ہے تو پاکستان کے لیے چیلنجز بڑھیں گے۔