کابل (ڈیلی اردو) طالبان نے کئی روز کے مذاکرات کے بعد پنجشیر وادی پر حملہ کردیا۔ پنجشیر کے پہاڑی علاقے میں طالبان اور قومی مزاحمتی اتحاد کے درمیان شدید لڑائی جاری ہے۔
وادی پنجشیر طالبان کے خلاف مزاحمت کا آخری گڑھ ہے اور اس کے علاوہ وہ تقریباً پورے افغانستان پر کنٹرول حاصل کرچکے ہیں۔
افغان ٹی وی چینل طلوع نیوز نے قومی مزاحمتی محاذ کے سربراہ احمد مسعود کے قریبی ذرائع کے حوالے سے دعویٰ کیا ہے کہ طالبان کی جانب سے پنجشیر کی ایک چوکی پر حملہ کیا گیا تھا جو مزاحمتی قوتوں نے ناکام بنادیا۔
ذرائع کا کہنا ہے کہ طالبان اور مزاحمتی فورسز کے درمیان وقفے وقفے سے لڑائی کا سلسلہ جاری ہے۔
دوسری جانب طالبان کے ترجمان ذبیح اللہ مجاہد کا کہنا ہے کہ انہیں اس لڑائی کے بارے میں کچھ نہیں پتہ، وہ وادی پنجشیر میں رابطہ کرنے کی کوشش کر رہے ہیں لیکن رابطہ نہیں ہو پا رہا کیونکہ وہاں موبائل سروس بند ہے۔
اس سے قبل امریکی میڈیا نے یہ خبر دی تھی کہ پنجشیر کے معاملے پر طالبان اور مزاحمتی محاذ کے درمیان مذاکرات کا سلسلہ جاری ہے ۔ فریقین میں ڈیڈ لاک نہیں ہے لیکن مذاکرات کی رفتار سست ہے۔
خیال رہے کہ طالبان پنجشیر وادی کے علاوہ پورے افغانستان پر قبضہ کرچکے ہیں۔ یہاں شمالی اتحاد کے سابق جنگجو احمد شاہ مسعود کے صاحبزادے احمد مسعود کی قیادت میں قومی مزاحمتی محاذ نے طالبان کے خلاف مزاحمت کا اعلان کر رکھا ہے۔ افغانستان کے سابق نائب صدر اور خود ساختہ صدر امراللہ صالح بھی وادی پنجشیر میں موجود ہیں۔
یاد رہے کہ احمد شاہ مسعود، جنھیں ’پنجشیر کا شیر‘ کہا جاتا ہے، کو گیارہ ستمبر سے دو دن پہلے القاعدہ کے دو خودکش حملہ آوروں نے ایک حملے میں ہلاک کیا تھا۔
احمد شاہ مسعود کے 32 سالہ بیٹے احمد مسعود نے قومی مزاحمتی فرنٹ (این آر ایف) کے نام سے ایک طالبان مخالف اتحاد قائم کیا ہے۔
احمد مسعود نے پچھلے ہفتے واشنگٹن پوسٹ کو بتایا تھا کہ وہ طالبان کے خلاف مزاحمت کے آخری گڑھ پنجشیر کا ہر صورت میں دفاع کریں گے۔ گزشتہ دنوں احمد مسعود نے اعلان کیا تھا کہ طالبان کے سامنے ہتھیار ڈالنے کے بجائے مرنا پسند کروں گا۔
افغان صوبہ پنجشیر اب بھی ناقابل تسخیر ہے اور طالبان بھی اب تک وہاں داخل نہیں ہوسکے ہیں۔ پنجشیر اس سے قبل پروان صوبے کا حصہ تھا جسے 2004 میں الگ صوبے کا درجہ دیا گیا۔
پنجشیر صوبے کا دارالحکومت بازارک ہے، یہ سابق جہادی کمانڈر اور سابق وزیر دفاع احمد شاہ مسعود کا آبائی شہر ہے۔
80 کی دہائی (1979-1989) میں جب سوویت یونین نے افغانستان پر یلغار کر رکھی تھی تو پنجشیر وادی اس وقت بھی مزاحمت کا مرکز تھی اور پنجشیر کے جنگجوؤں نے متعدد مرتبہ سوویت اور افغان فوجوں کی جانب سے کیے جانے والے حملوں کو ناکام بنایا تھا۔
اور پھر طالبان کے پہلے دورِ حکومت (1996-2001) میں اسی خطے سے طالبان کے خلاف بھرپور مزاحمت ہوئی اور پورے افغانستان پر قبضہ کر لینے اور اپنی حکومت قائم کرنے کے باوجود طالبان کبھی بھی پنجشیر وادی پر اپنا قبضہ جمانے میں کامیاب نہیں ہوئے۔