کابل (ڈیلی اردو/ڈوئچے ویلے) کابل میں طالبان کے اقتدار میں آنے کے بعد ہزارہ اقلیتی برادری کو دوبارہ ظلم و ستم اور قتل و غارت گری کے سنگین خدشات اور خوف کا سامنا ہے۔ بعض ہزارہ ملک سے فرار ہونے میں کامیاب ہوگئے جبکہ دیگر خود کو مسلح کر رہے ہیں۔
افغانستان میں امریکی فوج کے انخلا کا مرحلہ ختم ہوا اور طالبان کا دوسرا دور شروع ہو چُکا ہے۔ نسلی اقلیت ہزارہ برادری ماضی میں بھی جبر و تشدد کا شکار رہی اور اب اسے طالبان کے مزید مظالم کا خوف مارے دے رہا ہے۔
ماہ بیگم کئی روز سے کابل میں اپنے رشتے داروں کے ساتھ روپوش ہیں۔ ان کا خاندان شدید خوف کا شکار ہے۔ باہر سڑکوں پر طالبان کے جنگجو گشت کر رہے ہیں۔ وہ گھروں میں گھس کر تلاشی لیتے ہیں۔ ماہ بیگم دو ہفتے سے گھر سے باہر نہیں نکلیں۔ وہ اُس وقت سے بند ہیں جب سے طالبان نے کابل پر حملہ کیا۔ 19 سالہ ماہ بیگم کو ‘پینک اٹیک‘ یا گھبراہٹ کے دورے پڑتے ہیں۔ ڈوئچے ویلے سے گفتگو کرتے ہوئے اُس نے کہا، ” میری زندگی برباد‘‘ ہو گئی ہے۔
ماہ بیگم 2001ء میں پیدا ہوئی تھی۔ اُس وقت طالبان کی پہلی حکومت کا خاتمہ ہوا تھا اور امریکا نے افغانستان پر قبضہ کر لیا تھا۔ بعد میں اُس نے اپنے گھر والوں سے طالبان کے ظلم و تشدد کے بھیانک قصے سنے تھے۔ عوامی سزائے موت، موسیقی کی ممانعت، لاقانونیت کے اُس دور میں خواتین کے ساتھ ہر طرح کا ظلم اور خاص طور پر ہزارہ برادری سے تعلق رکھنے والے اقلیتی گروپ کے ساتھ ہر طرح کا جبر و تشدد۔ ان سب سے عبارت کہانیاں ماہ بیگم سنتی آئی ہے۔
افغانستان کی ہزارہ برادری
افغانستان میں چار سے آٹھ ملین کے درمیان ہزارہ باشندے رہتے ہیں۔ اس نسلی اقلیت کی تاریخ جبر و تشدد سے عبارت ہے۔ ہزارہ برادری اہل تشیع ہے اور کئی دہائیوں سے افغانستان میں سنی اکثریت کے امتیازی سلوک کا نشانہ بنتی آئی ہے۔ 1990ء کی دہائی میں جب طالبان اقتدار میں آئے انہوں نے ہزارہ براداری پر منظم طریقے سے مظالم ڈھانا شروع کر دیے۔ کٹر سُنی انتہا پسند طالبان کے نزدیک ہزارہ ‘کافر‘ ہیں۔ طالبان نے ہزارہ برادری کو قتل و غارت گری کا نشانہ بنانے کے علاوہ ان کو جبری طور پر مذہب کی تبدیلی پر مجبور کیا۔ ان حالات کے پیش نظر جس ہزارہ باشندے کو موقع ملا وہ افغانستان سے فرار ہو گیا۔
The Taliban killed nine former Afghan security forces after they surrendered and handed their weapons to the Taliban in Khedir district of Afghanistan’s Daikundi province plus two civilians, two former local officials said. A local Taliban commander declined to comment.
— Ezzatullah Mehrdad (@EzzatMehrdad) August 31, 2021
ہزارہ برادری سے تعلق رکھنے والے کئی افراد سے ڈوئچے ویلے نے گذشتہ دنوں میں بات چیت کی۔ ان سب نے یہی بتایا کہ طالبان کی حکومت کے دور میں وہ افغانستان کے اندر اپنا کوئی مستقبل نہیں دیکھتے۔ انہیں مذہبی اور نسلی بنیادوں پر مظالم کا نشانہ کرنا پڑتا ہے۔ یہ کہنا ہے مہدی رسکی کا جو ابھی طالبان کے کابل پر قبضے سے پہلے تک افغانستان کی پارلیمان میں بیٹھا کرتے تھے۔ دیگر افراد طالبان سے خوف اور اپنی پریشانیوں کا اظہار کر رہے ہیں۔ خاص طور سے خواتین کے حقوق کو بہت زیادہ خطرات لاحق ہیں۔
سنی اکثریت والے ملک افغانستان میں ہزارہ شیعہ کمیونٹی کی اکثریت استحصال کا شکار ہے۔ محض بین الاقوامی برادری کو دکھانے کے لیے ایک پروپیگنڈا کے ذریعے طالبان یہ ظاہر کرنا چاہتے ہیں کہ ہزارہ کمیونٹی کی ترقی و خوشحالی پر افغانستان کی معیشت کو آگے بڑھانے کا انحصار ہے۔ ماہرین طالبان کے قول و فعل میں بہت بڑا تضاد دیکھتے ہیں۔
ہزارہ برادری کا قتل عام اور ایک خوفناک پیغام
جولائی کے اوائل میں طالبان نے وسطی افغان شہر غزنی کا کنٹرول حاصل کرتے ہی ہزارہ کمیونٹی کے نو افراد کا سفاکانہ قتل کیا تھا۔ انسانی حقوق کی تنظیم ایمنسٹی انٹر نیشنل نے ان واقعات کے دستاویز پیش کیے ہیں۔
Then, our on-the-ground @Amnesty investigation revealed that the #Taliban were responsible for a brutal massacre of nine Hazara men in Ghazni province…https://t.co/4sqCyzu1rQ
— amnestypress (@amnestypress) August 27, 2021
ایمنسٹی کی رپورٹ کے مطابق 6 ہزارہ باشندوں کو طالبان نے گولی مار کر ہلاک کیا تھا جبکہ 3 کو اذیت رسانی سے مارا گیا تھا۔ ایمنسٹی کی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ قتل کے یہ واقعات طالبان کے ہاتھوں ہزارہ باشندوں کے خون اور ان کے ساتھ تشدد کی ایک چھوٹی سی جھلک ہے۔ افغانستان کے بہت سے علاقوں میں حکمرانوں نے موبائل فون کا رابطہ منقطع کر دیا ہے جس کے سبب کوئی ویڈیو یا تصاویر منظر عام پر نہیں آسکتیں۔
BREAKING: new @Amnesty investigation has found the #Taliban responsible for brutal massacre of Hazara men
We've been on the ground in #Afghanistan in recent days – and have verified torture and killings in Ghazni province https://t.co/Bqm72apHzT
— Sherine Tadros (@SherineT) August 19, 2021
حبیبہ سرابی ہزارہ نسل سے تعلق رکھنے والی ایک خاتون ہیں جو ماضی میں افغانستان کی پہلی خاتون گورنر کی حیثیت سے خدمات انجام دے چکی ہیں اور اس ملک میں خواتین کے امور کی وزیر بھی رہ چکی ہیں۔ حبیبہ سرابی دوحہ مذاکرات میں افغان حکومت کی نمائندگی کرنے والی چار خواتین میں سے ایک ہیں۔ انہوں نے طالبان کے مزید مظالم کے ثبوت اکٹھا کیے ہیں تاہم ڈوئچے ویلے سے بات چیت کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ وہ اس بارے میں کوئی تفصیلات نہیں دیں گی کیونکہ اس سے ان عینی شاہدین کی جان کو شدید خطرات لاحق ہوجائیں گے جنہوں نے انہیں ثبوت دیے ہیں۔
ہزارہ باشندوں کا انخلاء ناممکن
افغانستان کی حالیہ صورتحال کے پیش نظر ماہ بیگم ملک سے فرار ہونا چاہتی ہے۔ اس کے بیرون ملک رشتے داروں نے بہت کوشش کی کہ یہ کسی طرح کابل ایئرپورٹ سے روانہ ہونے والی آخری پروازوں میں سوار ہو سکے لیکن تمام کوششیں ناکام رہیں۔ اگرچہ سول سوسائٹی کے سرگرم افراد، صحافی اور غیر ملکی افواج کے لیے کام کرنے والوں کو خصوصی مدد کا حقدار قرار دیتے ہوئے انخلا کی فہرست میں شامل کیا گیا تھا مگر ابھی تک کسی ایک غیر ملکی حکومت نے بھی ہزارہ باشندوں کو بطور ایک نسلی اقلیتی گروپ کے اس درجے کے ساتھ تسلیم نہیں کیا ہے۔
واٹس ایپ پر پروفائل فوٹو میں ماہ بیگم کا ایک نوجوان مسکراتا چہرہ دکھائی دیتا ہے۔ ہیڈ اسکارف کے بغیر اور اس کے لمبے سیاہ بال بھی نظر آتے ہیں تاہم اس کے رشتہ داروں نے اسے تنبیہ کر دی ہے کہ بحیثیت ایک خاتون انہیں طالبان کی توقعات پر پورا اترتے ہوئے سیاہ برقعے میں خود کو چھپانا ہوگا۔ طالبان عورتوں کو صرف جنسی غلام اور بچے پیدا کرنے کا ذریعہ سمجھتے ہیں۔ ماہ بیگم خوف اور بے بسی سے صرف گریہ و زاری ہی کر سکتی ہے اور کچھ نہیں۔