کابل (ڈیلی اردو) طالبان نے افغانستان میں طالبان کے خلاف مزاحمت کے آخری گڑھ پنجشیر پر مکمل قبضے کا دعویٰ کیا ہے۔
ٹویٹر پر جاری کردہ بیان میں طالبان کے ترجمان ذبیح الللہ مجاہد نے دعویٰ کیا کہ ’اللہ کی مدد اور ہمارے لوگوں کے تعاون سے ملک میں مکمل سلامتی کی طرف تازہ ترین کوششوں کے نتائج برآمد ہوئے ہیں اور صوبہ پنجشیر امارت اسلامیہ کے مکمل کنٹرول میں آگیا ہے۔‘
د مزدور دښمن وروستۍ ځاله پنجشیر ولایت په بشپړډول فتحه شو https://t.co/uhL42u1JYc pic.twitter.com/3MVMlc74ah
— Zabihullah (..ذبـــــیح الله م ) (@Zabehulah_M33) September 6, 2021
انھوں نے یہ بھی دعویٰ کیا کہ ’صوبے میں موجود کچھ باغی شکست کھا گئے ہیں اور باقی پنجشیر کے مظلوم اور باعزت لوگوں کو آزاد کراتے ہوئے بھاگ گئے۔‘
ذبیح اللہ مجاہد نے اپنے بیان میں مزید کہا کہ ’ہم پنجشیر کے لوگوں کو یقین دلاتے ہیں کہ ان کے ساتھ کسی بھی طرح امتیازی سلوک نہیں کیا جائے گا، وہ سب ہمارے بھائی ہیں، ہم ایک ملک اور ایک مقصد کے لیے مل کر خدمت کریں گے۔‘
دوسری جانب قومی مزاحمتی محاذ نے طالبان کے دعوے کی تردید کرتے ہوئے اسے جھوٹ قرار دیا ہے۔
Taliban’s claim of occupying Panjshir is false. The NRF forces are present in all strategic positions across the valley to continue the fight. We assure the ppl of Afghanistan that the struggle against the Taliban & their partners will continue until justice & freedom prevails.
— National Resistance Front of Afghanistan (@NRFafg) September 6, 2021
ٹویٹر پر جاری کردہ بیان میں قومی مزاحمتی اتحاد کا کہنا ہے کہ این آر ایف فورسز لڑائی جاری رکھنے کے لیے وادی بھر میں تمام سٹریٹجک پوزیشنوں پر موجود ہیں۔ ہم افغانستان کے لوگوں کو یقین دلاتے ہیں کہ طالبان اور ان کے شراکت داروں کے خلاف جدوجہد اس وقت تک جاری رہے گی جب تک انصاف اور آزادی حاصل نہیں ہو سکتی۔
تاہم بی بی سی آزادانہ طور دونوں فریقین کے دعوؤں کی تصدیق نہیں کر سکا۔
سوشل میڈیا پر شئیر کی جانے والی تصاویر اور ویڈیوز میں طالبان جنگجوؤں کو پنجشیر کے گورنر ہاؤس (مقامِ ولایت) کے باہر سلفیاں لیتے اور امارت اسلامیہ کا سفید اور سیاہ جھنڈا لگاتے دیکھا جا سکتا ہے۔
کلچرل کمیشن، امارت اسلامیہ افغانستان کے چیف احمد اللہ متقی نے بھی گورنر ہاؤس کے باہر کھڑے طالبان کی تصویر شئیر کی ہے۔
افغانستان کے صوبے پنجشیر پر کنٹرول کے لیے طالبان جنگجوؤں اور مقامی ملیشیا کے درمیان لڑائی اب بھی جاری ہے۔ اطلاعات کے مطابق پانچ ستمبر اتوار کے روز طالبان وادی میں کافی اندر تک داخل ہونے میں کامیاب ہوتے دکھائی دیے۔
افغانستان کا یہی ایک صوبہ ہے جہاں پر اب تک طالبان کا کنٹرول نہیں ہوسکا ہے۔ سابق جنگی سردار احمد شاہ مسعود کے بیٹے احمد مسعود پنجشیر کے مقامی رہنما ہیں، جو طالبان سے نبرد آزما قومی مزاحمتی محاذ کی قیادت کر رہے۔ انہوں نے طالبان کے سامنے ہتھیار ڈالنے کے بجائے مقابلہ کرنے کا فیصلہ کیا تھا۔
اس علاقے میں گزشتہ چند روز سے شدید لڑائی ہورہی ہے۔ جس میں اب تک سینکڑوں افراد کی ہلاکت کی اطلاعات ہیں اور سینکڑوں مقامی خاندان بے گھر ہو چکے ہیں۔
پنجشیر میں طالبان اور ان سے برسرپیکار قومی مزاحمتی فوج کے مابین لڑائی میں تیزی آ گئی ہے اور اتوار کو ہونے والی جھڑپوں میں مزاحمتی محاذ کے دو اہم رہنما اور ایک اہم طالبان کمانڈر ہلاک ہوئِے ہیں۔
قومی مزاحمتی فوج کی جانب سے بتایا گیا ہے کہ این آر ایف کے ترجمان فہیم دشتی کے علاوہ جنرل عبدالودود زارا طالبان سے لڑائی میں مارے گئے ہیں۔
اطلاعات کے مطابق مارے جانے والے کمانڈر جنرل عبدالودود شمالی مزاحمتی فوج کے لیڈر احمد مسعود کے قریبی رشتہ دار بھی تھے۔
اطلاعات کے مطابق ابتدا میں اس لڑائی میں طالبان کو بھی شدید نقصان اٹھانا پڑا تھا جس کے بعد سے طالبان بھاری ہتھیاروں کا استعمال کر رہے ہیں۔ اس دوران احمد مسعود نے مذہبی رہنماؤں کی اس تجویز کا خیر مقدم کیا ہے جس میں لڑائی کے بجائے بات چیت کے ذریعے مسئلے کے حل کی بات کہی گئی ہے۔
انہوں نے اس کا اعلان فیس بک پر اپنی ایک پوسٹ میں کیا ہے اور کہا، ”این آر ایف موجودہ مسائل کو حل کرنے، لڑائی کو فوری طور پر ختم کرنے اور اصولی طور پر مذاکرات جاری رکھنے پر متفق ہے۔” ان کا مزید کہنا تھا، ”دیرپا امن تک پہنچنے کے لیے، این آر ایف اس شرط پر لڑائی بند کرنے کے لیے تیار ہے کہ طالبان پنجشیر اور اندراب پر اپنے حملے اور فوجی نقل و حرکت بند کر دیں۔”
اس دوران امریکا کے ایک اعلی فوجی کمانڈر مارک ملی نے افغانستان میں خانہ جنگی کے خدشات کے لیے متنبہ کیا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ چونکہ طالبان اپنی طاقت کو مزید مستحکم کرنے کی جد و جہد کر رہے ہیں اس لیے، ”کم از کم ایک وسیع خانہ جنگی کا اچھا خاصا خدشہ ہے۔”
فاکس نیوز سے بات چیت کرتے ہوئے جنرل ملی نے کہا، ”اس کی وجہ سے ایسی صورت حال پیدا ہو گی جس سے القاعدہ کے دوبارہ پنپنے اور داعش کے مزید بڑھنے کا امکان ہے۔”