کابل (ڈیلی اردو/بی بی سی) افغان دارالحکومت کابل کی سڑکوں پر اس وقت ایک احتجاجی مارچ جاری ہے جس میں افغان خواتین اور نوجوان اپنے حقوق کا مطالبہ کرنے کے ساتھ ساتھ پاکستان مخالف نعرے بازی بھی کر رہے ہیں۔
Protest in Kabul – with around 1,000 men and women gathered. Chanting slogans against Pakistan, alleging they supported the Taliban in Panjshir… many mentioning the ISI chiefs visit… some also demanding women’s rights. Taliban fighters present too. pic.twitter.com/iOxDsyDpeR
— Secunder Kermani (@SecKermani) September 7, 2021
احتجاج میں شامل افراد ’اللہ اکبر، ہم ایک آزاد ملک چاہتے ہیں، ہمیں پاکستان کی کٹھ پتلی حکومت نہیں چاہیے، پاکستان افغانستان سے نکلو‘ جیسے نعرے لگا رہے ہیں۔
Kabul right now! Demonstrators in the centre of the Afghan capital #Afghanistan pic.twitter.com/yTUrEv2QAm
— Yalda Hakim (@SkyYaldaHakim) September 7, 2021
یہ مظاہرین صدارتی محل کی جانب جانے کی کوشش کر رہے ہیں تاہم طالبان جنگجو مظاہرین کو منتشر کرنے کے لیے ہوائی فائرنگ کر رہے ہیں۔
Anger mounting on the streets of Kabul, people chanting "freedom" and "death to Pakistan". The demonstrators, many of them women, are in the centre of the Afghan capital #Afghanistan pic.twitter.com/Jg5RDzFsiA
— Yalda Hakim (@SkyYaldaHakim) September 7, 2021
کابل میں طالبان کی جانب سے خواتین پر تشدد بھی کیا گیا
Taliban soldiers beating women infront of Kardan university, Kabul city. pic.twitter.com/KOvLXMo8mw
— BILAL SARWARY (@bsarwary) September 7, 2021
طلوع نیوز کی صحافی زہرہ رحیمی کا دعویٰ ہے کہ طالبان نے احتجاج میں حصہ لینے والے صحافیوں اور کیمرہ مین کو گرفتار کر لیا ہے۔
The Taliban have detained TOLOnews cameraperson Wahid Ahmadi who was filming the protest today in Kabul.#TOLOnews pic.twitter.com/FhwlQk6fcb
— TOLOnews (@TOLOnews) September 7, 2021
طلوع نیوز کے ڈائریکٹر لطف اللہ نجفی زادہ نے ٹویٹ کی کہ میڈیا کے کیمرے ضبط کر لیے گئے ہیں، صحافیوں کو فلم نہ بنانے کے لیے کہا جا رہا ہے اور کچھ کو روکا جا رہا ہے۔ لیکن مظاہرین نے بندوق کی نوک پر کابل میں مارچ جاری رکھا۔
وہ پوچھتے ہیں کہ ’احتجاج کرنے کی آزادی اور احتجاج کے بارے میں خبر دینے کی آزادی کہاں ہے؟‘
سوشل میڈیا پر مظاہرے میں شامل چند صحافیوں کا دعویٰ ہے کہ طالبان نے انھیں روکنے کے لیے مارا پیٹا اور ان کے کیمرے توڑ دیے۔
گذشتہ رات کابل سے سوشل میڈیا پر پوسٹ کی گئی ویڈیوز میں بھی کئی افراد کو ’قومی مزاحمتی محاذ زندہ باد‘ اور پاکستان مخالف نعرے لگاتے سنا جا سکتا ہے۔
“Long Live Afghanistan.”
“Death To Pakistan.”
Among the chants at a protest march in #Kabul tonight.
Courtesy video. pic.twitter.com/eLvNKIxccY
— Frud Bezhan فرود بيژن (@FrudBezhan) September 6, 2021
گذشتہ روز احمد مسعود نے ایک آڈیو پیغام میں افغان عوام سے کہا تھا کہ وہ پورے افغانستان میں طالبان کے خلاف ملگ گیر قومی بغاوت شروع کریں۔
مسعود نے کابل اور مزار شریف میں خواتین کے احتجاج کو اس مزاحمت کی مثالیں قرار دیا تھا۔ انھوں نے افغانستان کے باہر طالبان کے خلاف ہونے والے مظاہروں کی بھی تعریف کی تھی۔
کابل میں حالیہ دنوں میں کئی احتجاجی مظاہرے دیکھنے میں آئے ہیں۔ کچھ افراد نے افغانستان کے پرچم کو اتارنے کے خلاف احتجاج کیا اور حالیہ دنوں میں خواتین نے بھی مختلف شہروں میں اپنے حقوق کے لیے مظاہرے کیے ہیں۔
گذشتہ روز صوبہ بلخ کے دارالحکومت مزار شریف میں خواتین کے ایک گروپ نے اپنے حقوق اور آزادی کا مطالبہ کرنے کے لیے ریلی نکالی تھی۔
مظاہرین نے بلخ کی صوبائی انتظامیہ کی عمارت کے سامنے مظاہرہ کیا اور مطالبہ کیا کہ طالبان اپنی حکومت میں افغان خواتین کے حقوق کا تحفظ کریں۔
ریلی کے شرکا میں سے ایک نے بی بی سی فارسی کو بتایا کہ اگرچہ مارچ پرامن تھا، طالبان کے ارکان نے انھیں اور صحافیوں کو مارنے کی دھمکیاں دیں۔
https://twitter.com/andrewquilty/status/1435146521771749382?s=19