افغانستان میں طالبان کی دولت اسلامیہ (داعش) کیخلاف خفیہ جنگ

کابل (ڈیلی اردو/بی بی سی) افغانستان کے شہر جلال آباد کے مضافات میں ہر چند دن بعد لاشیں پھینک دی جاتی ہیں۔ ان لاشوں میں سے کچھ کو گولی مار کر یا پھانسی دے کر جبکہ کچھ کا سر قلم کیا گیا ہوتا ہے۔ بہت سی لاشوں کی جیبوں سے ہاتھ سے لکھے نوٹ ملتے ہیں، جن میں ان افراد پر شدت پسند تنظیم نام نہاد دولت اسلامیہ (آئی ایس) سے تعلق کا الزام لگایا جاتا ہے۔

ان بہیمانہ، ماورائے عدالت قتلوں کی ذمہ داری کوئی قبول نہیں کرتا لیکن بڑے پیمانے پر طالبان کو ان کا ذمہ دار سمجھا جاتا ہے۔

اگست میں کابل کے ہوائی اڈے کے باہر ہونے والے خود کش حملے کی ذمہ داری طالبان کی بڑی حریف آئی ایس نے قبول کی تھی۔ اس حملے میں 150 سے زائد افراد مارے گئے تھے۔

اب یہ دونوں گروپ ایک گھمبیر اور خونی جنگ میں مصروف ہیں اور جلال آباد اس جنگ کی فرنٹ لائن جیسا ہے۔

طالبان کی شورش کے خاتمے کے بعد افغانستان اب زیادہ تر پرامن ہے لیکن جلال آباد میں اب ان پر تقریباً روز ہی حملے ہو رہے ہیں۔ آئی ایس جنھیں مقامی زبان میں ’داعش‘ کہا جاتا ہے، وہی ہتھکنڈے استعمال کر رہی ہے، جو طالبان نے پچھلی حکومت کے خلاف کامیابی کے ساتھ استعمال کیے۔ ان میں سڑک کے کنارے بم نصب کرنا اور چوری چھپے قتل و غارت شامل ہیں۔

آئی ایس طالبان کے زیادہ سخت گیر نہ ہونے کی وجہ سے ان پر ’منکرین‘ ہونے کا الزام لگاتے ہیں جبکہ دوسری جانب طالبان آئی ایس کو ’بدعتی انتہا پسند‘ قرار دیتے ہیں۔

صوبہ ننگرہار میں طالبان کی انٹیلی جنس سروسز کے سربراہ ڈاکٹر بشیر ہیں۔ وہ انتہائی پر تشدد شخصیت کی حیثیت سے معروف ہیں۔ انھوں نے اس سے پہلے ہمسایہ صوبہ کنڑ سے آئی ایس کے ایک چھوٹے سے گڑھ کو نکالنے میں مدد کی تھی۔

ڈاکٹر بشیر سڑک کے کنارے چھوڑی گئی ان لاشوں سے کسی بھی قسم کے تعلق کی تردید کرتے ہیں لیکن فخر سے یہ ضرور کہتے ہیں کہ ان کے آدمیوں نے آئی ایس کے درجنوں ارکان کو گرفتار کیا۔

واضح رہے کہ افغانستان پر طالبان کے قبضے کے دوران مچی افراتفری میں آئی ایس کے بہت سے جنگجو جیل سے فرار ہو گئے تھے۔

ڈاکٹر بشیر اور باقی طالبان قیادت عوامی سطح پر آئی ایس کی جانب سے خطرے کو بہت کم کر کے بتاتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ افغانستان میں جنگ ختم ہو چکی ہے اور وہ ملک میں امن اور سکیورٹی لائی جا رہی ہے۔

ایسی کوئی بھی چیز جو طالبان کے اس بیانیے کو کمزور کرتی ہے، اسے پسند نہیں کیا جاتا۔ ڈاکٹر بشیر تمام ثبوتوں کے باوجود یہ دعویٰ کرتے ہیں کہ داعش کا افغانستان میں باقاعدہ وجود ہی نہیں۔

وہ کہتے ہیں کہ ’داعش نام کا تعلق شام اور عراق سے ہے اور افغانستان میں داعش کے نام سے کوئی شرپسند گروپ نہیں۔‘

وہ ان عسکریت پسندوں کو ’غداروں کا ایک گروہ کہتے ہیں جنہوں نے اسلامی حکومت کے خلاف بغاوت کی۔‘

درحقیقت آئی ایس نہ صرف افغانستان میں باضابطہ طور پر موجود ہے بلکہ اس نے ایک مخصوص شاخ یا ’صوبہ‘ آئی ایس خراسان بھی قائم کیا ہے، جو وسطی ایشیائی خطے کا ایک قدیم نام استعمال کر رہا ہے۔

اس گروپ نے پہلی بار سنہ 2015 میں افغانستان میں قدم جمائے اور اس کے بعد کے برسوں میں کئی خوفناک حملے کیے لیکن افغانستان پر طالبان کے حالیہ قبضے کے بعد سے اس نے ملک کے ان علاقوں میں بھی خودکش حملے شروع کر دیے ہیں، جہاں پہلے کبھی بھی ان کے عسکریت پسند نہیں دیکھے گئے۔

اس ماہ کے دوران آئی ایس نے شمالی شہر قندوز اور طالبان کے گڑھ قندھار میں شیعہ برادری کی مسجدوں پر حملے کیے ہیں تاہم ڈاکٹر بشیر کا اصرار ہے کہ تشویش کی کوئی بات نہیں۔

وہ کہتے ہیں ’ہم دنیا کو کہتے ہیں کہ پریشان نہ ہوں۔ اگر غداروں کا ایک چھوٹا سا گروپ ابھر آیا ہے اور ایسے حملے کرتا ہے تو خدا کی مرضی سے جیسے ہم نے 52 ممالک کے اتحاد کو شکست دی ہم انھیں بھی شکست دیں گے۔‘

ڈاکٹر بشیر نے مزید کہا کہ ’دو دہائی تک شورش کی جنگ لڑنے کے بعد ہمارے لیے گوریلا جنگ روکنا آسان ہے۔‘

لیکن برسوں جاری رہنے والی خونریزی سے تھکے افغا شہریوں، ہمسایہ ممالک اور مغرب کی جانب سے آئی ایس کے قدم پھیلانے کے خدشات کا اظہار کیا جاتا رہا ہے۔

امریکی حکام نے خبردار کیا ہے کہ افغانستان میں موجود آئی ایس چھ ماہ سے ایک سال کے عرصے کے اندر اندر بیرون ملک حملے کرنے کی صلاحیت پیدا کر سکتی ہے۔

اس وقت افغانستان کے کسی علاقے پر آئی ایس کا قبضہ نہیں تاہم طالبان کے حملوں اور امریکی حمایت یافتہ افغان فوج کے فضائی حملوں سے پہلے یہ گروپ صوبہ ننگرہار اور کنڑ میں اپنے اڈے قائم کرنے میں کامیاب ہو گیا تھا۔

ستر ہزار طالبان کے مقابلے میں آئی ایس کے پاس صرف چند ہزار جنگجو ہیں، جو اب امریکی ہتھیاروں سے لیس ہیں۔

لیکن یہ خدشہ موجود ہے کہ اگر مستقبل میں اس گروپ کے اندر حریف دھڑے پیدا ہوتے ہیں تو آئی ایس ناراض طالبان کے ساتھ ساتھ کچھ دوسرے وسطی ایشیائی اور پاکستانی غیر ملکی جنگجوؤں کو بھی بھرتی کر سکتا ہے۔

امریکہ آئی ایس کو نشانہ بنانے کے لیے افغانستان کے باہر سے حملوں کو جاری رکھنے کی امید رکھتا ہے۔ دوسری جانب طالبان باغیوں سے تنہا مقابلہ کرنے کے قابل ہونے کے بارے میں پرجوش ہیں۔

آئی ایس کے بہت سے لوگ اپنے گروپ کو چھوڑ کر طالبان اور پاکستانی طالبان میں شامل ہو گئے ہیں۔

طالبان کے ایک نمائندے نے مجھے مسکراتے ہوئے بتایا کہ ’ہم انھیں بہت اچھے طریقے سے جانتے ہیں اور وہ ہمیں بہت اچھے طریقے سے جانتے ہیں۔‘

حالیہ دنوں میں آئی ایس کے کئی اراکین نے ننگرہار میں ڈاکٹر بشیر کی فورسز کے سامنے ہتھیار ڈالے ہیں۔

طالبان کے ایک سابق رکن نے ہمیں بتاتا کہ وہ آئی ایس میں جانے کے بعد مایوسی کا شکار ہو گئے تھے۔

انھوں نے ہمیں بتایا کہ ’طالبان کا واحد مقصد افغانستان میں ’اسلامی امارت‘ قائم کرنا ہے جبکہ آئی ایس کے عالمی عزائم ہیں۔‘

’آئی ایس سب کو، پوری دنیا کو دھمکیاں دے گی۔ وہ پوری دنیا میں اپنی حکمرانی چاہتے ہیں لیکن وہ اتنے طاقتور بھی نہیں کہ افغانستان کا کنٹرول سنبھال سکیں۔‘

بہت سے افغان شہری آئی ایس کے حملوں میں اضافے کو ملک میں ایک ’نئے کھیل‘ کا آغاز قرار دیتے ہیں لیکن جلال آباد میں صرف طالبان ہی کو نشانہ نہیں بنایا جا رہا۔

سماجی کارکن عبدالرحمن ماون رواں ماہ کے شروع میں ایک شادی کی تقریب سے واپس اپنے گھر جا رہے تھے جب مسلح افراد نے ان کی گاڑی پر فائرنگ کر دی۔

ان کے دو بیٹے، جن کی عمریں 10 اور 12 سال تھیں، کار میں چھپ گئے جب ان کے والد کو گولی مار کر ہلاک کر دیا گیا۔ آئی ایس نے ایک مختصر بیان میں اس حملے کی ذمہ داری قبول کی تھی۔

عبدالرحمن کے بھائی شاد نور مایوسی کا شکار ہیں۔ انھوں نے کہا کہ ’جب طالبان نے اقتدار سنبھالا تو ہم بہت خوش اور پر امید تھے کہ بدعنوانی، قتل اور دھماکوں کا خاتمہ ہو جائے گا۔‘

’لیکن اب ہم محسوس کر رہے ہیں کہ داعش کے نام سے ایک نیا رجحان ہم پر مسلط کیا جا رہا ہے۔‘

Share on Social

اپنا تبصرہ بھیجیں