کولمبو (ڈیلی اردو/بی بی سی) سری لنکا کے وزیر اعظم مہندا راجا پکشے نے پاکستان کے شہر سیالکوٹ میں ایک سری لنکن شہری کو توہین مذہب کے الزام میں مشتعل ہجوم کی جانب سے تشدد کے بعد قتل کیے جانے کے واقعے پر ردعمل دیتے ہوئے کہا ہے کہ ’انھیں یقین ہے کہ وزیر اعظم عمران خان اپنے عہد کو پورا کرتے ہوئے اس واقعے میں ملوث تمام ملزمان کو انصاف کے کٹہرے میں لائیں گے۔‘
سری لنکا کے وزیر اعظم نے ٹوئٹر پر اپنی ایک ٹویٹ میں لکھا کہ ’پاکستان میں شدت پسند مشتعل ہجوم کی جانب سے پریا نتھا دیاودھنہ پر بہیمانہ اور جان لیوا حملے پر صدمہ پہنچا۔ متاثرہ شخص کی اہلیہ اور خاندان کے غم میں شریک ہوں۔ سری لنکا اور اس کی عوام کو یقین ہے کہ وزیر اعظم عمران خان اپنے عہد کو پورا کرتے ہوئے واقعے میں ملوث تمام افراد کو انصاف کے کٹہرے میں لائیں گے۔‘
Shocking to see the brutal and fatal attack on Priyantha Diyawadana by extremist mobs in #Pakistan. My heart goes out to his wife and family. #SriLanka and her people are confident that PM @ImranKhanPTI will keep to his commitment to bring all those involved to justice.
— Mahinda Rajapaksa (@PresRajapaksa) December 4, 2021
یاد رہے کہ جمعے کو سیالکوٹ میں ایک مشتعل ہجوم نے توہین مذہب کے الزام میں پریا نتھا کمارا نامی ایک سری لنکن شہری کو تشدد کر کے ہلاک کرنے کے بعد اس کی لاش کو آگ لگا دی تھی۔
https://twitter.com/ShabbirTuri/status/1466689781929111552?t=a1R8VECYsYEglZYMGH1vkA&s=19
جبکہ پاکستان کے وزیراعظم عمران خان نے سیالکوٹ میں سری لنکن شہری کے ساتھ پیش آنے والے واقعے کی شدید مذمت کرتے ہوئے اسے ‘پاکستان کے لیے ایک شرمناک دن’ قرار دیا تھا۔
ایک ٹویٹ میں ان کا کہنا تھا کہا کہ ‘سیالکوٹ میں مشتعل گروہ کا ایک کارخانے پر گھناؤنا حملہ اور سری لنکن مینیجر کا زندہ جلایا جانا پاکستان کے لیے ایک شرمناک دن ہے۔ میں خود تحقیقات کی نگرانی کر رہا ہوں اور دوٹوک انداز میں واضح کر دوں کہ ذمہ داروں کو کڑی سزائیں دی جائیں گی۔ گرفتاریوں کا سلسلہ جاری ہے۔‘
The horrific vigilante attack on factory in Sialkot & the burning alive of Sri Lankan manager is a day of shame for Pakistan. I am overseeing the investigations & let there be no mistake all those responsible will be punished with full severity of the law. Arrests are in progress
— Imran Khan (@ImranKhanPTI) December 3, 2021
پنجاب حکومت کی ابتدائی تحقیقاتی رپورٹ وزیر اعظم کو پیش
دوسری جانب صوبہ پنجاب کے وزیر قانون راجہ بشارت کا کہنا ہے کہ سیالکوٹ واقعے کی ابتدائی تحقیقاتی رپورٹ وزیر اعظم اور وزیر اعلیٰ پنجاب کو پیش کر دی گئی ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ سیالکوٹ واقعہ کی تحقیقات کے لیے فوج کے خفیہ اداروں کے اہلکار پہلے ہی سے قانون نافذ کرنے والے اداروں کی معاونت کر رہے ہیں۔
بی بی سی کے نامہ نگار شہزاد ملک سے بات کرتے ہوئے انھوں نے کہا کہ پاکستان کی فوج کی خفیہ ایجنسی آئی ایس آئی کے علاوہ ملٹری انٹیلیجنس اور سویلین خفیہ ادارے انٹیلیجنس بیورو کے اہلکار بھی تفتیشی ٹیم کا حصہ ہیں۔
انھوں نے کہا کہ اس واقعے کی ابتدائی رپورٹ کے مطابق اب تک ایک سو سے زائد افراد کو حراست میں لیا گیا ہے جن میں سے زیادہ تر وہ لوگ ہیں جو احتجاج میں شامل تھے جبکہ کچھ ایسے افراد بھی حراست میں لیے گیے ہیں جو کہ موقع پر موجود تھے۔
#Sialkot incident has caused great pain & sorrow for every Pakistani. PM @ImranKhanPTI is constantly monitoring the situation. @OfficialDPRPP has arrested almost all the accused under CrPC sections 302, 297, 201, 427, 431, 147, 149 & provisions of Anti-Terrorism Act.
— Muhammad Basharat Raja (@RajaBasharatLAW) December 4, 2021
سیالکوٹ پولیس کے ایک اہلکار کے مطابق جن افراد کو حراست میں لیا گیا ہے ان میں سے ایک درجن کے قریب وہ افراد بھی شامل ہیں جنھیں کچھ عرصہ قبل تحریک لبیک کے احتجاجی دھرنے سے پہلے خدشہ نقص امن کے تحت حراست میں لیا گیا تھا۔
صوبائی وزیر قانون راجہ بشارت کا کہنا تھا کہ زیر حراست افراد کے ابتدائی بیانات کی روشنی میں ان افراد کی گرفتاری کے لیے چھاپے مارے جارہے ہیں جنہوں نے ہجوم کو سری لنکا کے شہری کو تشدد کرنے پر آمادہ کیا۔
انھوں نے کہا کہ حراست میں لیے جانے والے افراد کے بیانات قلمبند کیے جا رہے ہیں اور اس کے ساتھ ساتھ ان کے بیانات کی روشنی میں ان سے پوچھ گچھ بھی کی جا رہی ہے۔
ایک سوال کے جواب میں صوبائی وزیر قانون کا کہنا تھا کہ اس معاملے میں مقامی پولیس کی طرف سے کوئی کوتاہی نہیں برتی گئی اور اطلاع ملنے کے 20 منٹ کے بعد پولیس حکام جائے حادثہ پر پہنچ گئے تھے۔
ایک سوال کے جواب میں راجہ بشارت کا کہنا تھا کہ تشدد سے ہلاک ہونے والے سری لنکا کے شہری کی لاش ان کے وطن بھجوانے کے لیے وفاقی وزارت داخلہ سے رابطہ کیا گیا ہے۔
انھوں نے مزید کہا کہ ان کی معلومات کے مطابق وزارت داخلہ کے حکام نے وزارت خارجہ سے رابطہ کیا ہے اور انھیں اس ضمن میں سری لنکا کے ہائی کمیشن سے رابطہ رکھنے اور ان سے مقتول کی لاش کو سری لنکا بھیجنے کے بارے میں بات چیت کرنے کے بارے میں کہا گیا ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ واقعہ کے محرکات میں توہین مذہب کے ساتھ انتظامی پہلوؤں کا جائزہ بھی لیا جا رہا ہے۔
صوبائی وزیر قانون کے مطابق سیالکوٹ اور گردونواح میں گرجا گھروں اور غیر ملکی فیکٹری ورکرز کی سکیورٹی سخت کر دی گئی ہے۔
ابتدائی تحقیقاتی رپورٹ میں مزید کیا ہے؟
پنجاب حکومت کی ابتدائی تحقیقاتی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ فیکٹری مینیجر کے ڈسپلن اور کام لینے کی وجہ سے کچھ ملازمین فیکٹری مینیجر سے نالاں تھے۔ رپورٹ کے مطابق مشتعل ہجوم کی جانب سے سری لنکن شہری پر تشدد کا واقعہ صبح 11بجے کے قریب شروع ہوا۔ واقعے کے وقت فیکٹری مالکان غائب ہو گئے تھے۔
رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ کچھ غیر ملکی کمپنیوں کے وفد نے فیکٹری کا دورہ کرنا تھا۔ سری لنکن فیکٹری مینجر نے مشینوں کی مکمل صفائی کاحکم دیتے ہوئے مشینوں سے مذہبی سٹکرز اتارنے کا کہا تھا۔ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ مبینہ طور پر جب فیکٹری ملازمین نے سٹکر نہیں ہٹایا تو مینیجر نے خود ہٹا دیا۔
پولیس نے 24 گھنٹے سے کم وقت میں 13 مرکزی ملزمان کو گرفتار کیا ،118 مشتبہ افراد زیر حراست ہیں آئی جی پنجاب اس آپریشن کی خود نگرانی کر رہے تھے RPO گوجرانولہ اور DPO سیالکوٹ کی نگرانی میں گرینڈ آپریشن کیا گیا اب تک200 سے زائد چھاپے مارے گئے@UsmanAKBuzdar @ImranKhanPTI #Sialkot https://t.co/8VGpLv01nx
— Punjab Police Official (@OfficialDPRPP) December 4, 2021
اس رپورٹ کے مطابق مرکزی ملزمان سمیت اب تک 112 ملزمان گرفتار کیے جا چکے ہیں۔ جبکہ ایسے افراد کو بھی گرفتار کیا گیا ہے جنھوں نے ہجوم کو اشتعال دلایا تھا۔ ابتدائی تحقیقاتی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ پولیس نے مرکزی ملزمان ملزمان کو گرفتاری کے بعد نامعلوم مقام پر منتقل کر دیا تاکہ مزید تحقیقات کی جا سکیں۔
رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ فیکٹری مینیجرز کی معاونت سے واقعہ میں ملوث افراد کی شناخت کی گئی ہے۔
ملزمان کے خلاف دہشتگردی کے دفعات کے تحت مقدمہ درج
پولیس کی مدعیت میں دہشت گردی کی دفعات کے تحت ملزم کے خلاف مقدمہ درج کیا گیا۔ پنجاب پولیس کے ترجمان نے دعویٰ کیا تھا کہ مرکزی ملزم کو مبینہ طور پر ویڈیو میں تشدد کرتے اور اشتعال دلاتے دیکھا جا سکتا ہے۔
In Sialkot incident that led to the death of a Sri Lankan citizen, police has registered the case under CrPC sections 302, 297, 201, 427, 431, 147, 149 and provisions of Anti-Terrorism Act. pic.twitter.com/ci8ImG1MUJ
— Hasaan Khawar (@hasaankhawar) December 3, 2021
پولیس ترجمان کا کہنا تھا کہ کہ انھوں نے 100 سے زائد افراد کو حراست میں لے لیا ہے، ‘جن کے کردار کا تعین سی سی ٹی وی فوٹیج سے کیا جا رہا ہے۔‘
سیالکوٹ واقعہ میں پولیس نے تشدد کرنے اور اشتعال انگیزی میں ملوث ملزمان میں سے ایک مرکزی ملزم فرحان ادریس کو گرفتار کر لیا ہے۔ 100سے زائد افراد کو حراست میں لےلیا ہےآئی جی پنجاب سارے معاملہ کی خود نگرانی کر رہے ہیں باقی ملزمان کی گرفتاری کیلیے چھاپے مارے جارہے ہیں@UsmanAKBuzdar pic.twitter.com/v7YOpQxwXs
— Punjab Police Official (@OfficialDPRPP) December 3, 2021
پولیس کا کہنا تھا کہ دیگر ملزمان کی گرفتاری کے لیے چھاپے مارے جا رہے ہیں۔
اس سے قبل سیالکوٹ پولیس کے ایک اہلکار نے بی بی سی کو بتایا تھا کہ ہلاک ہونے والے شہری کی شناخت پریا نتھا کمارا کے نام سے ہوئی ہے۔ یہ سیالکوٹ کے وزیر آباد روڈ پر واقع ایک نجی فیکڑی میں بحثیت ایکسپورٹ مینیجر کے خدمات انجام دے رہے تھے۔
سیالکوٹ میں ہسپتال ذرائع کا کہنا تھا کہ ان کے پاس ایک انتہائی بری طرح جلی ہوئی لاش لائی گئی تھی۔
پاکستانی فوج کے سربراہ جنرل قمر جاوید باجوہ نے بھی اس واقعے کی شدید مذمت کرتے ہوئے اسے انتہائی شرمناک واقعہ قرار دیا ہے اور کہا ہے کہ ایسے ماورائے عدالت اقدام قطعاً ناقابل قبول ہیں۔
آئی ایس پی آر کے مطابق آرمی چیف نے کہا ہے کہ اس گھناؤنے جرم کے مرتکب افراد کو کیفر کردار تک پہنچانے کے لیے سول ایڈمنسٹریشن کو ہر ممکن مدد فراہم کی جائے۔
اس سے قبل وزیر اعلیٰ پنجاب کے فوکل پرسن اظہر مشوانی نے ٹویٹ کی تھی کہ ’سیالکوٹ واقعے میں ملوث 50 درندوں کو گرفتار کر لیا گیا ہے۔ آر پی او اور کمشنر گوجرانوالہ سیالکوٹ میں ہیں اور انکوائری کر رہے ہیں۔
Around 50 beasts involved in #Sialkot incident have been arrested so far.
RPO and Commissioner Gujranwala are in Sialkot and conducting inquiry.
Inquiry will be finalized in 48 hours.CCTV footages and NADRA's face recognition techniques will be used to arrest all the culprits.
— Azhar Mashwani (@MashwaniAzhar) December 3, 2021
ان کے مطابق تحقیقاتی رپورٹ 48 گھنٹے میں مکمل کر لی جائے گی۔ سی سی ٹی وی فوٹیج اور نادار کے پاس چہرے شناخت کرنے والی ٹیکنالوجی کی مدد سے واقعے کے تمام ذمہ داران کو پکڑا جائے گا۔’
سیالکوٹ میں ہونے والے انسانیت سوز واقعے کے تمام مرکزی ملزمان گرفتار: آئی جی پنجاب پولیس اور معاون خصوصی وزیر اعلیٰ پنجاب برائے اطلاعات حسان خاور کی پریس کانفرنس۔https://t.co/rWLk3movqr
— Government of Punjab (@GovtofPunjabPK) December 4, 2021
سیالکوٹ واقعے کے بعد سوشل میڈیا پر کئی ویڈیوز شیئر کی گئی تھیں جن کے بارے میں دعویٰ کیا گیا کہ وہ سیالکوٹ وزیر آباد روڈ کی ہیں۔ ان ویڈیوز میں ایک شخص کی جلی ہوئی لاش کو دیکھا جاسکتا ہے اور کچھ ویڈیوز میں دیکھا جاسکتا ہے کہ ایک شخص کو جلایا جا رہا ہے۔
واقعے کے عینی شاید محمد بشیر کے مطابق صبح ہی سے فیکڑی کے اندر یہ افواہیں گرم تھیں کہ پریا نتھا کمارا نے توہین مذہب کی ہے۔ ’یہ افواہ بہت تیزی سے پوری فیکڑی کے اندر پھیل گئی تھی، جس کے بعد فیکڑی ملازمین کی بڑی تعداد نے پہلے باہر نکل کر احتجاج کیا تھا۔‘
ان کا کہنا تھا کہ احتجاج کے دوران ہی لوگ بڑی تعداد میں دوبارہ فیکڑی کے اندر داخل ہوئے اور پریا نتھا کمارا پر نہ صرف تشدد کیا بلکہ انھیں آگ بھی لگا دی۔
ریسکیو اہلکار مقتول کو بچانے میں ناکام کیوں ہوئے؟
ریسیکو 1122 کے ایک اہلکار نے بی بی سی کو بتایا کہ انھیں تقریباً 11:35 منٹ پر وزیر روڈ پر ہنگامہ آرائی کی کال موصول ہوئی تھی، جس کے چند ہی منٹ بعد ٹیم موقع پر پہنچ چکی تھی۔
وہ کہتے ہیں کہ جب ہم وہاں پہنچے تو اس وقت تک پولیس کی نفری کم تھی جبکہ مقتول کو فیکڑی کے اندر تشدد کا نشانہ بنایا گیا۔
امدادی اہلکار کے مطابق ‘ہم لوگ وردی میں تھے۔ لوگ مشتعل تھے۔ ہمارے لیے ممکن نہیں تھا کہ ہم متاثرہ شخص کو کسی بھی طرح کوئی مدد فراہم کرسکیں اور نہ ہی یہ ممکن تھا کہ کوئی مداخلت کریں۔
اس دوران وہ لوگ متاثرہ شخص کو تشدد کرتے ہوئے روڈ پر لے آئے تھے۔’
امدادی کارکن کے مطابق جب متاثرہ شخص کو روڈ پر لایا گیا تو اس وقت تک وہ ہلاک ہوچکا تھا۔
مشتعل لوگوں نے اس شخص کو روڈ پر لا کر نذر آتش کیا اور نعرے بازی کرتے رہے۔ اس دوران پولیس نے مداخلت کرنے کی کوشش کی مگر پولیس کی نفری بہت کم تھی جبکہ مشتعل عوام بہت بڑی تعداد میں تھے۔
امدادی کارکن کے مطابق ‘تقریباً ساڑھے بارہ بجے کے قریب ہم لوگ جلی ہوئی لاش کو ہسپتال پہنچانے میں کامیاب ہوئے۔’
موقعے کے ایک اور عینی شاید کے مطابق فیکڑی ملازمین کا احتجاج بہت دیر تک جاری رہا تھا اور اس احتجاج میں اردگرد کے علاقوں کے لوگ بھی بڑی تعداد میں شامل ہو گئے۔
‘احتجاج میں کئی لوگوں نے اشتعال انگیز تقاریر کیں تھیں۔ اس دوران مظاہرین میں سے کسی نے کہا کہ چلو خود قصہ صاف کرتے ہیں تو اس کے بعد ڈنڈوں، لاٹھیوں اور اسلحہ سے لیس لوگ فیکڑی کے اندر داخل ہو گئے تھے۔’
سیالکوٹ سے مقامی صحافی یاسر رضا کے مطابق فیکڑی کے اندر صبح ہی سے یہ افواہیں گرم تھیں کہ توہین مذہب کی گئی ہے، ‘جس کے بعد نہ صرف فیکڑی کے اندر سے حالات کشیدہ ہونے کی اطلاعات آرہی تھیں بلکہ ارد گرد کے علاقے کے لوگ بھی مشتعل تھے۔’
یاسر رضا کے مطابق جمعے کی دوپہر گیارہ، بارہ بجے کے قریب وزیر آباد روڈ پر بڑے احتجاج کی اطلاعات موصول ہوئی تھیں۔
‘اس کے ساتھ ہی ایسی اطلاعات ملنا شروع ہوئیں کہ فیکڑی کے غیر ملکی مینیجر کو جلا دیا گیا ہے۔ اس واقعے کی تصدیق ہمیں وہاں کے مقامی لوگوں کے علاوہ فیکڑی ملازمین نے بھی کی۔’
یاسر رضا کے مطابق ہنگامہ آرائی اور کشیدہ حالات کی اطلاعات صبح سے تھیں مگر موقع پر مناسب حفاظتی اقدامات نہیں کیے جا سکے۔ اسی طرح جوں جوں وقت گزرا مظاہرین کی تعداد میں اضافہ ہوتا چلا گیا تھا۔ مگر اس وقت بھی صورتحال کو سنبھالا نہیں گیا۔‘