پاک افغان سرحد پر باڑ لگانے میں شہدا کا خون شامل ہے، یہ مکمل ہو گی اور قائم رہیگی، ڈی جی آئی ایس پی آر

راولپنڈی (ڈیلی اردو/بی بی سی/وی او اے) پاکستانی فوج کے شعبہ تعلقات عامہ کے سربراہ میجر جنرل بابر افتخار کا کہنا ہے کہ پاکستان، افغانستان سرحد پر باڑ کو لگانے میں پاکستانی ’شہدا‘ کا خون شامل ہے، یہ ناصرف مکمل ہو گی بلکہ قائم بھی رہے گی۔

’اس (باڑ) کا مقصد لوگوں کو تقسیم کرنا نہیں، انھیں محفوظ بنانا ہے۔ یہ امن کی باڑ ہے، یہ مکمل ہو گی، اور انشااللہ قائم رہے گی۔‘

بدھ کے روز پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے مسلح افواج کے ترجمان کا مزید کہنا تھا کہ بارڈر مینیجمنٹ کے تحت پاک، افغان سرحد پر باڑ لگانے کا کام تقریباً 94 فیصد مکمل ہو چکا ہے اور دونوں طرف بسنے والے لوگوں کی سکیورٹی، آمدورفت اور تجارت کو ریگولیٹ کرنے کے لیے یہ موجودہ وقت کی اشد ضرورت ہے۔

یاد رہے کہ افغانستان میں طالبان کے برسرِ اقتدار میں آنے کے بعد سوشل میڈیا پر مسلسل ایسی ویڈیوگردش کرتی رہی ہیں جن میں سرحد پر سکیورٹی کے لیے نصب خار دار تاروں کو اکھاڑے ہوئے دیکھا جا سکتا ہے۔

ان ویڈیوز کے بعد افغان طالبان کی جانب سے ایسے بیان بھی سامنے آئے ہیں جن میں کہا گیا ہے کہ وہ اس سرحد (ڈیورنڈ لائن) کو تسلیم نہیں کرتے۔ تاہم بدھ کے روز افغان دفتر خارجہ کے ترجمان عبدالقہار بلخی نے کہا کہ طالبان حکومت مسائل کے حل کے لیے افہام و تفہیم، بات چیت اور پڑوسیوں سے اچھے تعلقات پر یقین رکھتی ہے، اسی لیے اس مسئلے (باڑ اکھاڑنے کے واقعات) کو ‘سفارتی طور’ پر حل کیا جائے گا۔

بدھ کو ڈی جی آئی ایس پی آر کا کہنا تھا کہ افواہوں، غلط فہمیوں، اور سپائلرز کا سدِ باب کرنے کے لیے مقامی طور پر پیش آنے والے اِکا دُکا واقعات (باڑ کو نقصان پہنچانا) کو بردباری اور مکمل احتیاط سے حل کرنا ہے تاکہ بنیادی مقصد، یعنی امن کا حصول ممکن بنایا جا سکے۔

انھوں نے کہا کہ پاکستان اور افغانستان دونوں اطراف حکومتی سطح پر اس حوالے سے مکمل ہم آہنگی پائی جاتی ہے۔

انھوں نے کہا کہ سنہ 2021 میں شمالی وزیرستان میں ایک اہم آپریشن دواتوئی کیا گیا، جس کے نتیجے میں پاکستان افغانستان سرحد پر مکمل ریاستی رٹ بحال ہوئی ہے۔

’یہ ایک ایسا علاقہ تھا جہاں مشکل ترین موسمی حالات اور ناقابلِ رسائی علاقے تھے جو دہشتگردوں کو سرحد کی دونوں جانب نقل و حرکت کی سہولت میسر کرتے تھے اور اسی وجہ سے یہاں باڑ لگانے کا کام بھی مکمل نہیں ہو سکا تھا، جو اب مکمل کر لیا گیا ہے۔‘

انھوں نے کہا کہ اگست 2021 میں افغانستان سے غیر ملکی افواج کے اچانک انخلا اور اس کے نتیجے میں پیدا ہونے والی صورتحال کے براہ راست اثرات پاکستان کی سکیورٹی پر پڑے اور مغربی سرحد کی مینیجمنٹ کے تحت جو کام جاری ہیں وہ معینہ مدت میں پایہ تکمیل کو پہنچیں گے۔

انھوں نے کہا کہ پاکستان افغانستان سرحد پر پاکستان کی طرف 1200 سے زیادہ پوسٹس ہیں جبکہ دوسری جانب (افغانستان) صرف 377 پوسٹس ہیں۔ ’اس کا مطلب یہ ہے کہ ایک سے دوسری پوسٹ کے درمیان سات سے آٹھ کلومیٹر کا فاصلہ ہے۔ اس کے نتیجے میں دوسری جانب (افغانستان) سے کسی بھی قسم کی تخریبی کارروائی کو چیک کرنا مشکل ہو جاتا ہے۔‘

باڑ اکھاڑنے کی ویڈیوز میں کیا تھا؟

اس حوالے سے مختلف ویڈیوز سوشل میڈیا پر گردش کر رہی ہیں جن میں دو ویڈیوز بظاہر افغانستان کے صوبہ ننگر ہار اور پاکستان کے ضلع مہمند کے ساتھ ملنے والی پاک افغان سرحد کی بتائی گئی ہیں۔

ایک ویڈیو کے بارے میں کہا گیا ہے کہ وہ افغانستان کے صوبہ نیم روز میں پاک افغان سرحد کے قریب بنائی گئی ہے۔ حال ہی میں ایک ایسی ویڈیو بھی سامنے آئی ہے جس میں ٹرک کے ساتھ خار دار تاروں کو اکھاڑا جا رہا ہے۔ یہ ویڈیو رات کے وقت بنائی گئی ہے۔

سوشل میڈیا پر اسی طرح بعض علاقوں کی تصاویر بھی شیئر کی گئی ہیں جن میں خار دار تار کے رول نظر آ رہے ہیں۔ پاکستان کے ضلع مہمند سے ذرائع نے بتایا تھا کہ افغانستان کی جانب سے دو مقامات سے باڑ کو اکھاڑا گیا تھا۔ ایک افغانستان کے صوبہ ننگر ہار میں گوشتی کے علاقے میں جبکہ دوسرا مقام پلوسی کا علاقہ ہے جہاں ایک سرکاری سکول بھی نظر آ رہا ہے۔

افغانستان کی جانب سے شیئر کی گئی ایک ویڈیو میں افغان طالبان بات چیت کر رہے ہیں جس میں وہ کہتے ہیں کہ یہ اپر پلوسی کا علاقہ ہے اور سابق صدر اشرف غنی کے دور میں معاہدہ ہوا تھا اور یہاں گورنمنٹ پرائمری سکول پلوسی مہمند بنایا گیا ہے اور یہ افغانستان کا علاقہ ہے۔

اسی طرح ٹوئٹر پر افغانستان کے مقامی صحافی نے طالبان حکومت کی وزارت دفاع کے ایک ترجمان کی ویڈیو بھی شیئر کی تھی جس میں وہ فارسی زبان میں پاک افغان سرحد پر نصب باڑ کے بارے میں بتا رہے تھے۔ ترجمان نے کہا تھا کہ خار دار تاروں کی تنصیب سے دو قوموں کے درمیان فاصلے بڑھتے ہیں اور یہ باڑ عالمی اور علاقائی اصولوں کے خلاف ہے۔

گذشتہ ہفتے اس حوالے سے جو ویڈیو جاری کی گئی تھیں ان میں باقاعدہ افغانستان کے انٹیلیجنس کے عہدیدار بھی نظر آ رہے تھے۔

ٹوئٹر پر پہلی ویڈیو اور تصاویر میں کچھ افغان سیکیورٹی اہلکار خار دار تاریں اٹھاتے ہوئے نظر آ رہے تھے اور بڑی تعداد میں خار دار تاریں زمین پر پڑی ہوئی تھیں۔ یہ ویڈیو بنانے والے آپس میں کہہ رہے تھے کہ صحیح تاریں لے آؤ تو دوسرا شخص کہتا ہے کہ ساری تاریں لے آئے ہیں۔

افغان صحافی بلال سروری نے اپنی ٹویٹ میں دعویٰ کیا تھا کہ ان خصوصی فورسز کی قیادت طالبان کے انٹیلیجنس چیف ڈاکٹر بشیر کر رہے تھے۔ اس ٹویٹ میں کہا گیا کہ افغان فوجیوں کے مطابق یہ خار دار تاریں افغانستان کی حدود کے اندر لگائی گئی ہیں۔

اس معاملے پر بیانات؟

بدھ کے روز طالبان حکومت کے دفتر خارجہ نے کہا ہے کہ ڈیورنڈ لائن کی سرحد کے کچھ حصوں سے باڑ ہٹانے کے حالیہ واقعات کے بعد افغانستان اور پاکستان کے حکام کو بات چیت کی ضرورت پڑی ہے تاکہ اس نوعیت کے مسائل کا حل تلاش کیا جا سکے۔

افغان دفتر خارجہ کے ترجمان عبدالقہار بلخی کا کہنا ہے کہ طالبان حکومت مسائل کے حل کے لیے افہام و تفہیم، بات چیت اور پڑوسیوں سے اچھے تعلقات پر یقین رکھتی ہے، اسی لیے اس مسئلے کو ’سفارتی طور‘ پر حل کیا جائے گا۔

گذشتہ اتوار کو پاکستان کے وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے ایک پریس کانفرنس کے دوران کہا تھا کہ ’پاکستان پاک افغان سرحد پر طالبان کی جانب سے خار دار تاریں اکھاڑنے کے معاملے پر خاموش نہیں ہے۔‘

ان کا کہنا تھا کہ ’باڑ ہم نے لگائی ہے اور انشا اللہ ہماری کاوش جاری رہے گی۔ افغانستان ہمارا دوست ہمسایہ ملک ہے، ہماری ان کے ساتھ انگیجمنٹ ہے اور ہم انشاللہ سفارتی ذرائع سے جو کچھ الجھنیں آئی ہیں انھیں دور کر لیں گے۔‘

انھوں نے مزید کہا کہ کچھ لوگ اس معاملے کو اچھالنا چاہتے ہیں اور ہم سمجھتے ہیں کہ اسے اچھالنا پاکستان کے مفاد میں نہیں ہے ’لیکن ہم اپنے مفادات کا تحفط کریں گے۔‘

اس سے قبل افغانستان میں وزارت اطلاعات کے محکمے میں موجود عہدیدار بلال کریمی نے بی بی سی کے رابطہ کرنے پر بتایا تھا کہ اس بارے (باڑ اکھاڑنے) میں تاحال کوئی باقاعدہ بیان تو جاری نہیں ہوا، تاہم سرحد پر کچھ چھوٹے واقعات پیش آئے ہیں جنھیں حل کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے اور امارات اسلامی افغانستان کی کوشش ہے کہ افغانستان کی سرزمین کسی بھی ملک کے خلاف استعمال نہ ہو۔

ان کا کہنا تھا کہ ان معاملات کو حل کرنے کی کوشش جاری ہے۔

ڈیورنڈ لائن

پاکستان اور افغانستان کے درمیان سرحد مشکل اور طویل ہے اور حکام کے مطابق اس کی مسلسل نگرانی کرنا ایک مشکل کام ہے اس لیے اس سرحد پر باڑ لگانے سے غیر قانونی طور پر لوگ سرحد عبور نہیں کر سکیں گے۔

پاک افغان سرحد کوئی 2640 کلومیٹر طویل ہے اور اس میں دور تک پھیلے پہاڑی سلسلے شامل ہیں۔ اس باڑ کی تنصیب کے لیے سرکاری ذرائع کے مطابق اربوں روپے مختص کیے گئے تھے اور اس منصوبے کے تحت سرحد پر نگرانی کے لیے سینکڑوں چھوٹے چھوٹے قلعے یا چوکیاں تعمیر کیے جا رہے ہیں اور جدید ریڈار سسٹم کی تنصیب بھی اس منصوبے کا حصہ ہے اور اس کا مقصد ملک کی سرحدوں کو محفوظ بنانا ہے۔

ماضی میں افغان حکام اس منصوبے کی مخالفت کرتے آئے ہیں اور ان کا کہنا تھا کہ جب تک دونوں ممالک کے درمیان سرحد کا تنازع حل نہیں کر لیا جاتا تب تک اس سرحد پر باڑ لگانا صحیح نہیں ہے۔

ڈیورنڈ لائن یا پاکستان افغان سرحد پر یہ تنازع پہلی مرتبہ پیدا نہیں ہوا بلکہ یہ طویل عرصے سے جاری ہے اور دونوں ممالک کا اپنا اپنا موقف ہے۔

بظاہر یہ سرحد تو 1893 میں ایک معاہدے کے بعد قائم کی گئی تھی جب برصغیر میں برطانیہ کی حکمرانی تھی اور اس سرحد کا معاہدہ افغانستان کے بادشاہ امیر عبدالرحمان اور برطانوی عہدیدار موٹیمر ڈیورنڈ کے درمیان طے ہوا تھا اور یہ کہا گیا تھا کہ یہ معاہدہ ایک سو سال کے لیے ہو گا۔

‘ٹی ٹی پی کے خلاف آپریشن جاری ہے’

میجر جنرل بابر افتخار نے بتایا کہ کالعدم تحریکِ طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) سے سیز فائر نو دسمبر کو ختم ہو گیا تھا۔ ٹی ٹی پی کے خلاف آپریشن جاری ہے، ابھی مذاکرات نہیں ہو رہے۔

اُنہوں نے انکشاف کیا کہ ٹی ٹی پی سے مذاکرات افغانستان میں طالبان حکومت کی درخواست پر شروع کیے گئے تھے۔

افواجِ پاکستان کے ترجمان نے مزید بتایا کہ پاکستان میں دولتِ اسلامیہ (داعش) کا کوئی وجود نہیں ہے۔

انہوں نے کہا کہ افغانستان میں حکومت کی تبدیلی کے بعد ٹی ٹی پی کو بتایا گیا کہ پاکستان کے خلاف افغان سرزمین استعمال نہیں ہو گی جس کے بعد افغان حکومت کے کہنے پر مذاکرات کیے گئے کہ ان مسائل کو حل کیا جائے۔

میجر جنرل بابر افتحار نے دعویٰ کیا کہ ٹی ٹی پی کے اندر بھی بعض اختلافات ہیں اور ان کی بعض باتیں ایسی ہیں جنہیں کسی صورت تسلیم نہیں کیا جا سکتا، لہذا اس وقت ان کے خلاف آپریشنز کا سلسلہ جاری ہے۔

میجر جنرل بابر افتخار نے ایک سوال کے جواب میں کہا کہ کچھ عرصے سے پاکستان کے مختلف اداروں اور شخصیات کے خلاف منظم مہم چلائی جا رہی ہے جس کا مقصد حکومت، عوام، اداروں اور افواج کے درمیان خلیج پیدا کرنا اور اداروں پر عوام کے اعتماد کو ٹھیس پہنچانا ہے۔

انہوں نے کہا کہ ہم ایسی تمام سرگرمیوں کے حوالے سے آگاہ ہیں بلکہ ان کے لنکس کو بھی جانتے ہیں جو ملک میں اور بیرون ملک بیٹھے یہ کام کر رہے ہیں۔

‘نواز شریف کے ساتھ ڈیل کی خبریں بے بنیاد ہیں’

نواز شریف سے ڈیل کی باتوں سے متعلق سوال کے جواب میں ڈی جی آئی ایس پی آر نے کہا کہ نواز شریف کے حوالے سے محض قیاس آرائیاں کی جا رہی ہیں۔ اگر کوئی ڈیل کی بات کر رہا ہے تو اس سے پوچھیں تفصیلات بھی بتائے۔ ان کے پاس ثبوت کیا ہیں، کون ڈیل کر رہا ہے، کیا محرکات ہیں، درحقیقت ایسا کچھ بھی نہیں ہے۔

بابر افتحار کا کہنا تھا کہ فوج اور حکومت کے تعلقات بہترین ہیں۔ فوج حکومت کے ماتحت ادارہ ہے اور اسی کے احکامات پر عمل کرتا ہے۔

ترجمان کا مزید کہنا تھا کہ کچھ عرصے سے اداروں کے خلاف مہم چلائی جا رہی ہے جس کا مقصد حکومت اور فوج کے درمیان خلیج پیدا کرنا ہے، تاہم ایسے عناصر سے آگاہ ہیں۔

‘گزارش ہے کہ اسٹیبلشمنٹ کو بحث سے باہر رکھیں’
اسلام آباد میں وائس آف امریکہ کے نمائندے عاصم علی رانا کے مطابق پریس کانفرنس میں ایک سوال کے جواب میں میجر جنرل بابر افتخار نے کہا کہ آرمی چیف کی مدتِ ملازمت سے متعلق بے بنیاد قیاس آرائی بھی نہ کی جائے۔ اس طرح کی قیاس آرائیوں میں نہ شامل ہوا جائے اور نہ ہی انہیں ہوا دی جائے۔

انہوں نے کہا کہ شام کو ٹی وی پروگرام میں باتیں ہوتی ہیں، اسٹیبلشمنٹ نے یہ کر دیا وہ کر دیا۔ گزارش ہے کہ اسٹیبلشمنٹ کو اس بحث سے باہر رکھیں۔ پاکستان کے اندر بہت زیادہ اہم ایشوز ہیں جن میں تعلیم، صحت اور دیگر شعبے ہیں۔ ہم آپ سے بار بار کہہ رہے ہیں کہ ہمیں ان باتوں سے الگ رکھیں۔ افواجِ پاکستان کی طاقت عوام ہے، اس رشتے ميں دراڑ ڈالنے کی تمام کوششيں ناکام ہوں گی۔

Share on Social

اپنا تبصرہ بھیجیں