ریاض (ڈیلی اردو/روئٹرز/اے ایف پی/ایس پی اے) سعودی عرب نے ایک ہی دن میں اکیاسی مجرمان کو سزائے موت دے دی ہے۔ سعودی سلطنت کی حالیہ تاریخ میں ایسا پہلی مرتبہ ہوا ہے کہ ایک ہی دن میں اتنے زیادہ افراد کو موت کے گھاٹ اتارا گیا ہے۔
Saudi Arabia executes 81 people in a single day, the largest known mass execution carried out in the kingdom in its modern history https://t.co/xYxYLOIGOg pic.twitter.com/LiK4iy086f
— Al Jazeera English (@AJEnglish) March 12, 2022
سعودی عرب کی سرکاری پریس ایجنسی نے پھانسیوں کا اعلان کرتے ہوئے کہا ہے، ”ان میں وہ مجرمان شامل تھے، جو مختلف جرائم کے مرتکب ہوئے اور جنہوں نے مردوں، بچوں اور خواتین کو قتل کیا۔‘‘ جاری ہونے والے بیان کے مطابق جن مجرموں کو پھانسی دی گئی ہے، ان میں سے کچھ القاعدہ اور داعش کے رکن تھے جبکہ یمنی حوثی باغیوں کو معاونت فراہم کرنے والوں کو بھی پھانسی دی گئی ہے۔
Saudi Arabia says it has executed 81 prisoners in one day, including those convicted of killings and convicted members of al-Qaida and the Islamic State group. The capital punishment appears to be the largest execution in the kingdom in recent memory. https://t.co/Ff0TpgCAgf
— The Associated Press (@AP) March 12, 2022
سعودی حکومت کی سرکاری خبر رساں ایجنسی ایس پی اے کے مطابق ان افراد میں یمن کے سات اور شام کا ایک شہری بھی شامل تھے جن کو دہشت گردی اور ’گمراہ کن خیالات‘ سمیت مختلف سنگین جرائم پر سزا سنائی جا چکی تھی۔
ان میں ایسے افراد بھی تھے جن پر الزام تھا کہ وہ شدت پسند تنظیم نام نہاد دولت اسلامیہ، القاعدہ اور یمن کے حوثی باغیوں کا ساتھ دیتے رہے ہیں۔
#BREAKING Saudi Arabia executes 81 people in one day for terror offences: state media pic.twitter.com/FLuk8dLWB1
— AFP News Agency (@AFP) March 12, 2022
غیر ملکی خبر رساں ادارے روئٹرز کے مطابق سعودی وزارت داخلہ کی جانب سے ایک بیان میں کہا گیا کہ سزا پانے والوں میں ایسے افراد بھی تھے جنھوں نے شورش زدہ علاقوں کا سفر کیا تاکہ وہ دہشت گرد تنظیموں میں شمولیت اختیار کر سکیں۔
روئٹرز نے سعودی وزارت داخلہ کی جانب سے جاری بیان سے متعلق لکھا ہے کہ یہ واضح نہیں کیا گیا کہ سزا کس طریقے سے دی گئی۔
سعودی پریس ایجنسی کی طرف سے جاری ہونے والے بیان میں مزید کہا گیا ہے، ”ملزمان کو اٹارنی کا حق فراہم کیا گیا تھا اور عدالتی کارروائی کے دوران سعودی قانون کے تحت ان کے حقوق کی مکمل ضمانت فراہم کی گئی تھی۔ ملکی عدالتی نظام نے انہیں متعدد گھناؤنے کام کرنے کا مجرم پایا، ایسے جرائم، جن کے نتیجے میں شہری اور قانون نافذ کرنے والے افسروں کی ایک بڑی تعداد ہلاک ہوئی۔‘‘
جاری ہونے والے بیان میں مزید کہا گیا ہے کہ سعودی حکومت مستقبل میں بھی ایسے سخت اقدامات جاری رکھے گی، ”سعودی سلطنت ملک میں دہشت گردی اور اُن انتہا پسندانہ نظریات کے خلاف ایک سخت اور اٹل موقف اختیار کرتی رہے گی، جن سے پوری دنیا کے امن اور استحکام کو خطرہ ہے۔‘‘
انسانی حقوق کی عالمی تنظیموں کا کہنا ہے کہ سعودی عرب میں سزا پانے والے کئی افراد کو منصفانہ مقدمے کا حق نہیں ملتا۔ سعودی حکومت ان الزامات کی تردید کرتی ہے۔
سعودی عرب میں گزشتہ ایک عشرے میں اتنے بڑے پیمانے پر پھانسیاں سن 2016 میں دی گئی تھیں۔ اس وقت ایک ہی دن میں 47 افراد کو تختہ دار پر چڑھا دیا گیا تھا۔ ان میں وہ شیعہ رہنما بھی شامل تھا، جنہوں نے ملک میں احتجاجی ریلیوں کا انعقاد کیا تھا۔ تب ایران اور سعودی عرب کے سفارتی تعلقات انتہائی کشیدہ ہو گئے تھے اور تہران میں سعودی سفارت خانے پر حملہ کر دیا گیا تھا۔ سعودی عرب اور ایران کے تب سے سفارتی تعلقات منقطع چلے آ رہے ہیں۔
اس کے بعد سن 2019ء میں ایک ساتھ 37 افراد کو پھانسیاں دی گئیں تھیں۔ تب ان افراد پر دہشت گردی کے الزامات عائد کیے گئے تھے اور ان میں سے زیادہ تر کا تعلق سعودی عرب کی اقلیتی شیعہ کمیونٹی سے تھا۔
گزشتہ سال سعودی عرب میں 69 افراد کو سزائے موت دی گئی تھی۔
واضح رہے کہ سزائے موت دینے کے معاملے میں سعودی عرب کی شرح دنیا بھر میں پانچویں نمبر ہر ہے۔ انسانی حقوق کی عالمی تنظیم ایمنسٹی انٹرنیشنل کے مطابق سب سے زیادہ سزائے موت دینے والے ممالک کی فہرست میں سعودی عرب کے ساتھ چین، ایران، مصر اور عراق شامل ہیں۔