نئی دہلی (ڈیلی اردو/بی بی سی) ابھی انڈیا کے مختلف حصوں میں ہندو مسلم مذہبی کشیدگی کی فضا تھمی نہیں تھی کہ دارالحکومت دلی کے شمال مغربی مسلم اکثریتی علاقے جہانگیر پوری میں تشدد اور ہنگامے پھوٹ پڑے ہیں۔
Stone pelting to Sword Welding – dangerous scenes unfold from North West Delhi's Jahangirpuri. 1 policeman injured in Hanuman Jayanti Shobha Yatra Violence in the national capital.#DelhiViolence @pradip103 pic.twitter.com/Tei2P6Sw9L
— Jan Ki Baat (@jankibaat1) April 16, 2022
انڈیا کی خبر رساں ایجنسی پی ٹی آئی کے مطابق ہنگامے اور تشدد کا یہ واقعہ سنیچر کے روز ہندوؤں کے بھگوان ہنومان کی یوم پیدائش کے جلوس کے دوران اس وقت ہوا جب جلوس پر پتھراؤ کیا گیا۔
پولیس کے مطابق جلوس پر پتھراؤ کرنے والے 14 افراد کو حراست میں لے لیا گیا ہے تاہم پولیس نے ان کی شناخت ظاہر نہیں کی۔
Now Att@ck on Shobha Yatra in Delhi's Jahangirpuri on Hindu Festival of #HanumanJayanti Same Pattern – St0nes Pelted, Sw0rds weilded. Several injured. WHY ARE HINDUS BEING TARGETTED?? PERPETRATORS MUST BE PUNISHED #JahangeerPuri #Jahangirpuri pic.twitter.com/uMHTJ4mja1
— Rosy (@rose_k01) April 16, 2022
پولیس کے مطابق اس ہنگامے میں پولیس اہلکاروں سمیت نو افراد زخمی ہوئے ہیں اور مشتعل مظاہرین نے چند گاڑیوں کو بھی نذر آتش کیا۔
Delhi: Several people injured after a clash between two groups in the Jahangirpuri area. Union Home Minister @AmitShah speaks to Delhi Commissioner of Police and Special Commissioner of Police(Law & Order), directs them to take necessary action. pic.twitter.com/CnnODVxt3g
— DD News (@DDNewslive) April 16, 2022
خبر رساں ایجنسی پی ٹی آئی نے اطلاع دی ہے کہ وزیر داخلہ امت شاہ نے دلی پولیس کے اعلیٰ حکام سے بات کرنے کے بعد ضروری اقدامات کرنے کی ہدایات دی ہیں۔
Union Home Minister Amit Shah speaks to top Delhi Police officers, directs them to take necessary action in wake of Jahangirpuri violence
— Press Trust of India (@PTI_News) April 16, 2022
نئی دہلی کے پولیس کمشنر راکیش استھانہ کا کہنا ہے کہ حالات اب قابو میں ہیں اور موقع پر اضافی فورسز تعینات کر دی گئی ہیں۔
انھوں نے کہا کہ ’اس کے ساتھ دلی کے تمام حساس علاقوں میں اضافی نفری تعینات کی گئی ہے۔ دو پولیس اہلکار زخمی ہوئے ہیں۔ ہم ملزمان کے خلاف سخت کارروائی کریں گے۔‘
پولیس کمشنر نے ٹویٹ کرتے ہوئے کہا ہے کہ سینیئر افسران کو فیلڈ میں رہنے اور امن و امان برقرار رکھنے کی ہدایت دی گئی ہے۔
In today's incident in NW District, the situation is under control. Adequate additional force has been deployed in Jahangirpuri & other sensitive areas. Senior officers have been asked to remain in field and closely supervise the law & order situation & undertake patrolling. 1/2
— CP Delhi #DilKiPolice (@CPDelhi) April 16, 2022
انھوں نے لوگوں سے اپیل کی ہے کہ وہ افواہوں اور جھوٹی خبروں پر دھیان نہ دیں۔
دلی کے وزیراعلیٰ کی اپیل
دلی کے وزیر اعلیٰ اروند کیجریوال نے لوگوں سے امن برقرار رکھنے کی اپیل کرتے ہوئے کہا کہ ’جہانگیر پوری میں جلوس پر پتھراؤ کا واقعہ انتہائی قابل مذمت ہے۔ قصورواروں کے خلاف سخت کارروائی کی جانی چاہیے۔ تمام لوگوں سے اپیل ہے کہ ایک دوسرے کا ہاتھ تھام کر امن برقرار رکھیں۔‘
میڈیا سے بات کرتے ہوئے وزیر اعلیٰ اروند کیجریوال نے کہا کہ ’میں لوگوں سے کہنا چاہتا ہوں کہ انھیں امن برقرار رکھنا ہو گا کیونکہ اس کے بغیر ملک ترقی نہیں کر سکتا۔ یہ دلی میں ایجنسیوں، پولیس اور مرکزی حکومت کی ذمہ داری ہے تو پھر دلی میں مرکزی حکومت امن قائم رکھے۔‘
Spoke to Hon’ble LG. He assured that all steps are being taken to ensure peace and that guilty will not be spared. https://t.co/AMXEatbsub
— Arvind Kejriwal (@ArvindKejriwal) April 16, 2022
پرامن ماحول بنانے کی کوششیں کی جا رہی ہیں
دلی میں لا اینڈ آرڈر کے خصوصی پولیس کمشنر دیپیندر پاٹھک نے جہانگیر پوری میں رہنے والے لوگوں سے امن برقرار رکھنے کی اپیل کی ہے۔
یہ بھی کہا گیا ہے کہ حالات پر قابو پانے کے لیے اضافی پولیس فورس تعینات ہے۔ انھوں نے کہا کہ جلوس کے دوران دو گروپوں میں تصادم ہوا اور معاملے کی تحقیقات جاری ہے۔
دیپندر پاٹھک نے بتایا کہ زخمیوں کا اندازہ لگایا جا رہا ہے اور لوگوں سے بات کر کے پر امن ماحول بنانے کی کوشش کی جا رہی ہے۔
ایک پولیس افسر نے پی ٹی آئی کو بتایا کہ ’یہ ایک روایتی جلوس تھا اور پولیس اہلکار بھی جلوس کے ساتھ تھے۔ کشال سنیما کے قریب پہنچتے ہی دونوں برادریوں کے درمیان تصادم شروع ہو گیا اور وہاں موجود پولیس اہلکار بھی زخمی ہو گئے۔‘
اس معاملے میں مختلف پارٹیوں کے لیڈروں کا ردعمل سامنے آ رہا ہے۔ بی جے پی ایم پی منوج تیواری نے قصورواروں کو سخت سزا دینے کا مطالبہ کیا ہے۔
اس واقعے کی مذمت کرتے ہوئے دلی کانگریس نے لوگوں سے امن و امان برقرار رکھنے کی اپیل کی ہے۔
دوسری جانب سوشل میڈیا پر منافرت بھرے پیغامات کی بھرمار دیکھی جا سکتی ہے۔ ایک صارف نے لکھا کہ دلی میں سنہ 1984 کے بعد سے کوئی فرقہ وارانہ فساد نہیں ہوا لیکن امت شاہ کو ملک کا وزیر داخلہ بنے ابھی تین سال ہوئے ہیں اور دلی میں دو بار فسادات ہو چکے ہیں۔
اس سے قبل انڈیا کی ریاست مدھیہ پردیش میں دس اپریل کو ہندو تہوار رام نوامی پر پھوٹنے والے فسادات کے بعد وہاں متعدد مسلمانوں کے مکانات اور دکانوں کو مسمار کیا گیا۔
انڈیا کے سوشل میڈیا پر اس حوالے سے متعدد پریشان کن تصاویر شیئر کی جا رہی ہیں جس میں بڑے بڑے پیلے رنگ کے بلڈوزر گھروں کو مسمار کر رہے ہیں اور ان گھروں کے مکین بے بسی سے نم آنکھوں کے ساتھ یہ سب کچھ کھڑے دیکھ رہے ہیں۔
ان واقعات اور تصاویر نے انڈیا میں غم و غصے کی بحث کو جنم دیا ہے اور ناقدین اسے وزیر اعظم نریندر مودی کی حکمران جماعت بی جے پی، جو مدھیہ پردیش میں بھی برسراقتدار ہے، کی طرف سے انڈیا کے 200 ملین مسلمانوں کو نشانہ بنانے کی کوشش قرار دے رہے ہیں۔
حزب اختلاف کی 13 پارٹیوں کا مشترکہ بیان
دریں اثنا انڈین میڈیا کے مطابق حزب اختلاف کے رہنماؤں نے ایک مشترکہ بیان جاری کیا ہے جس میں انڈیا میں نفرت انگیز تقاریر کے بڑھتے ہوئے واقعات پر تشویش کا اظہار کیا گیا ہے اور کہا گیا ہے کہ اس طرح کے بیانات دینے والوں کو ’سرکاری سرپرستی حاصل ہے‘ اور ان کے خلاف کوئی موثر کارروائی نہیں کی جا رہی ہے۔
اس پر دستخط کرنے والوں میں حزب اختلاف کی 13 پارٹیوں کے سربراہان شامل ہیں جن میں کانگریس کی صدر سونیا گاندھی کے علاوہ ترنمول کانگریس کی رہنما اور مغربی بنگال کی وزیر اعلی ممتا بنرجی اور جموں کشمیر کے سابق وزیر اعلی فاروق عبداللہ قابل ذکر ہیں۔
اس میں کہا گیا ہے کہ کھانے، پینے، لباس، عقائد، تہوار اور زبان وغیرہ کی بنیاد پر حکمراں جماعت کی جانب سے دانستہ طور پر معاشرے میں تقسیم پیدا کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ انھوں نے ایسے ماحول میں وزیر اعظم کی خاموشی پر سوالات اٹھائے ہیں۔