کابل (ڈیلی اردو/رائٹرز/وی او اے) افغانستان کے دارالحکومت کابل کے ایک ہائی اسکول میں تین زوردار دھماکوں کی اطلاعات ہیں۔
#UPDATE: according to sources, at least 33 students have been killed and wounded in two suicide attacks close to Abdul Rahim Shahid high school in western Kabul. Only 22 of them are listed in Mohammad Ali Jennah hospital. https://t.co/ojdiv2Kz1l
— Elyas Nawandish (@elyas_nawandish) April 19, 2022
افغان سیکیورٹی اور صحت کے حکام کے مطابق دھماکوں میں 30 افراد ہلاک ہوئے ہیں۔
#Breaking: At least 20 children were killed in a "suicide attack" in a school this morning in west #Kabul, Afghanistan. The death toll is likely to rise.
Not sharing gruesome pictures from the scene.#Afghanistan #AfghanistanCrisis pic.twitter.com/RNR7zhVnaj
— Zafar Bashir ظفر بشیر (@zafarbashir_) April 19, 2022
خبر رساں ادارے ‘رائٹرز’ کے مطابق کابل کے کمانڈر کے ترجمان خالد زدران نے کہا ہے کہ ”ایک ہائی اسکول میں تین دھماکے ہوئے ہیں جس میں شیعہ کمیونٹی کے افراد کی ہلاکتیں بھی ہوئی ہیں۔”
بعد ازاں انہوں نے بتایا کہ دھماکوں میں چھ افراد ہلاک اور گیارہ زخمی ہوئے ہیں۔
دھماکے جس مقام پر ہوئے ہیں اس کے اطراف میں رہنے والی آبادی میں زیادہ تر کا تعلق شیعہ ہزارہ برادری سے ہے۔
به اساس آمار ابتدایی در سلسله انفجارهای صبح امروز که در مربوطاتی حوزه ١٨ در دروازه ورودی مکتب شهید عبدالرحیم به وقوع پیوست ۶ از هموطنان شهید و ۱۱ تن دیګر زخمی شدند.
نیروهای امنیتی فعلا در ساحه حضور دارند و درباره وقوع حمله تحقیقات آغاز شده است.
— Khalid Zadran (@khalidzadran01) April 19, 2022
افغانستان میں ماضی میں بھی شیعہ کمیونٹی کو نشانہ بنایا جاتا رہا ہے اور ان پر حملوں کی ذمہ داری شدت پسند تنظیم داعش خراساں کی جانب سے قبول کی جاتی رہی ہے۔ البتہ منگل کو ہونے والے دھماکوں کی ذمہ داری فی الحال کسی نے قبول نہیں کی ہے۔
ادھر ہسپتال کے نرسنگ ڈپارٹمنٹ کے سربراہ نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر ‘رائٹرز’ کو بتایا ہے کہ دھماکوں میں کم از کم چار افراد ہلاک اور 14 زخمی ہوئے ہیں۔
ہزارہ برادری پر ہونے والے گزشتہ حملے کا الزام طالبان پر بھی عائد کیا گیا تھا، ہزارہ برادری ملک کی تقریباً 3 کروڑ 80 لاکھ آبادی کا 10 سے 20 فیصد ہے۔
طالبان حکام کا اصرار ہے کہ ان کی فورسز نے داعش کو شکست دے دی ہے تاہم تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ یہ گروپ افغانستان کی سخت گیر اسلامی حکومت کے لیے چیلنج ہے۔
اقتدار سنبھالنے کے بعد طالبان، داعش کے چھپے ہوئے کارندوں کو پکڑنے کے لیے روزانہ چھاپے مار رہے ہیں، یہ چھاپے زیادہ تر ننگرھار صوبے میں مارے جا رہے ہیں۔
داعش کی جانب سے حال ہی میں افغانستان میں ہونے والے خطرناک دھماکوں کی ذمہ داری قبول کی جاچکی ہے۔
گزشتہ سال مئی میں ہونے والے دھماکے میں 85 افراد ہلاک ہوئے تھے جن میں زیادہ تعداد خواتین طلبہ کی تھی، دشتِ برچی میں واقع اسکول کے قریب ہونے والے دھماکے میں 300 افراد زخمی ہوئے تھے۔
واقعے کی ذمہ داری کسی گروپ کی جانب سے قبول نہیں کی گئی تھی۔
تاہم اکتوبر 2020 میں اسی علاقے میں ایک تعلیمی ادارے پر خودکش حملہ ہوا تھا جس کی ذمہ داری داعش نے قبول کی تھی، دھماکے میں طلبہ سمیت 24 افراد ہلاک ہوئے تھے۔
مئی 2020 میں گروپ پر ہسپتال کے میٹرنٹی وارڈ میں ہونے والے خونی حملے کا الزام لگایا گیا تھا جس میں ماؤں سمیت 25 افراد ہلاک ہوئے تھے۔