کابل (ڈیلی اردو/بی بی سی) افغانستان کے دارالحکومت کابل میں سکھوں کے ایک گرودوارے میں دھماکوں کے نتیجے میں تین ہلاکتوں کی تصدیق ہوئی ہے۔
پولیس کے ترجمان خالد زردان نے تین ہلاکتوں کی تصدیق کی ہے۔ اطلاعات کے مطابق مرنے والوں میں ایک سکھ، جو عبات میں مصروف تھا، ایک طالبان کا اہلکار اور ایک نامعلوم حملہ آور ہلاک ہوا ہے۔
کابل میں موجود بی بی سی کے نامہ نگار مدثر ملک نے بتایا کہ کابل کے مقامی وقت کے مطابق دھماکوں اور فائرنگ کا سلسلہ صبح چھ بجے شروع ہوا اور تقریباً دس بجے تک صورتحال کشیدہ رہی اور فائرنگ ہوتی رہی۔
ان کا کہنا ہے کہ پولیس ذرائع اور مقامی افراد سے موصول ہونے والی معلومات کے مطابق گرودوارے میں کُل آٹھ دھماکے ہوئے ہیں، ہلاک ہونے والوں میں گورودوارے کے اندر موجود دو افراد اور ایک طالب شامل ہیں۔
گرودوارے کے اندر تقریباً 30 تک افراد موجود تھے۔
ان کا کہنا ہے کہ جس مقام کو نشانہ بنایا گیا وہ دراصل ایک کمپاؤنڈ ہے جس میں 20 سے 25 سکھ خاندانوں کی رہائش اور عبادت گاہ ہے۔
نامہ نگار کا کہنا ہے کہ حکام نے بتایا ابھی گرودوارے میں کلیئرنس آپریشن مکمل ہوا ہے۔ تاہم صحافیوں کو ہسپتال یا گرودوارے میں جانے کی اجازت نہیں دی جا رہی۔
مقامی سطح پر موصول ہونے والی اطلاعات کے مطابق کل آٹھ دھماکے ہوئے ہیں اور حملہ آوروں نے خودکش حملے کی کوشش کی لیکن گرودوارے کے باہر موجود موجود سکیورٹی گارڈز نے انھیں روکا اور وہ گاڑی گرودوارے کے دروازے کے پاس ہی پھٹ گئی۔
حملہ آوروں کی کل تعداد نہیں بتائی گئی۔
نامہ نگار کا کہنا ہے کہ جائے وقوعہ سے دھویں کے اٹھتے بادل دکھائی دیے اور مقامی افراد کا کہنا ہے کہ انھوں نے متعدد دھماکوں اور فائرنگ کی آوازیں سنیں۔
دھماکے کی ذمہ داری کسی نے قبول نہیں کی تاہم اس سے قبل سکھوں کی عبادت گاہوں کی کم ازکم دو بار نشانہ بنایا گی اور اس کی ذمہ داری آئی ایس نے قبول کی تھی۔
جائے وقوعہ پر موجود ایک مقامی اہلکار گرنام سنگھ نے خبر رساں ادارے روئٹرز کو بتایا کہ دھماکے کے وقت گرودوارے کے اندر تقریباً 30 افراد موجود تھے۔
انھوں نے کہا کہ ‘ہم نہیں جانتے کہ ان میں سے کتنے زندہ ہیں یا کتنے مر گئے ہیں۔’
گرنام سنگھ نے مزید کہا کہ ‘طالبان ہمیں اندر جانے کی اجازت نہیں دے رہے ہیں، ہم نہیں جانتے کہ کیا کرنا ہے۔’
یہ عمارت دارالحکومت میں سکھوں کا آخری گرودوارہ ہے، اور سکھ برادری کے رہنماؤں نے حال ہی میں اندازہ لگایا ہے کہ مسلمان اکثریتی افغانستان میں اب صرف 140 سکھ رہ گئے ہیں جو کہ پہلے سنہ 1970 کی دہائی میں 100,000 ہوا کرتے تھے۔
خیال رہے کہ یہ بھی اطلاعات ہیں کہ یہ سکھ گھرانے کابل سے نکل کر انڈیا جانے کی کوششیں کر رہے ہیں تاہم انھیں ویزے کے حصول میں مشکلات کا سامنا ہے۔
گذشتہ سال طالبان عسکریت پسندوں کے افغانستان پر کنٹرول کے بعد سے ملک میں ہونے والا یہ تازہ ترین حملہ ہے۔
اپریل میں سنی مسلم عسکریت پسند گروپ دولت اسلامیہ (آئی ایس) کی جانب سے مزار شریف شہر میں شیعہ مسلمانوں کی ایک مسجد پر بم حملے میں 31 افراد ہلاک اور 87 زخمی ہوئے تھے۔
جبکہ دسمبر میں کابل میں ایک فوجی ہسپتال پر دولت اسلامیہ کے حملے میں 20 سے زائد افراد ہلاک اور 16 زخمی ہوئے تھے۔
افغان وزارت داخلہ کے ترجمان کے مطابق گرودوارے پر ممکنہ طور پر کار بم سے حملہ کیا گیا ہے۔
We are deeply concerned at the reports emanating from Kabul about an attack on a sacred Gurudwara in that city.
We are closely monitoring the situation and waiting for further details on the unfolding developments. https://t.co/RFDRyGm6Xi
— Randhir Jaiswal (@MEAIndia) June 18, 2022
انڈیا کی وزارت خارجہ کے ترجمان ارندم باگچی نے اس حملے کے بارے میں کہا ہے کہ انڈیا کو اس گرودوارے پر ہونے والے حملے پر گہری تشویش ہے۔
ان کے مطابق انڈیا اس صورتحال پر نظر رکھے ہوئے ہے اور معلومات حاصل کرنے کا انتظار کر رہا ہے۔