ماسکو + کییف (ڈیلی اردو/بی بی سی) جب رواں برس مئی میں ایک انتہائی جدید روسی ایس ایو-25 طیارے کو یوکرین نے ڈونباس خطے کی فضائی حدود میں مار گرایا گیا تھا، تو اس کے بعد پائلٹ کی ہلاکت سے متعلق متعدد سوالات نے جنم لیا تھا۔
ایک 63 سالہ شخص اس انتہائی جدید طیارے کو کیوں اڑا رہا تھا؟ ایک ایسا ریٹائرڈ آدمی جس نے روسی فوج سے ایک دہائی سے بھی زیادہ عرصہ قبل ریٹائرمنٹ حاصل کی تھی، وہ اس طیارے میں کر کیا رہا تھا؟
ایک اور جگہ ایک روسی جنرل نے گولیوں کے تبادلے میں اپنی جان کیسے گنوا دی؟ اور اس کے بعد ہلاک ہونے والے روسی جنرلز کی تعداد کتنی ہو جاتی ہے؟
اس معمے سے پردہ اٹھانے سے ہمیں روس کی جنگی مشین کی صورتحال اور ایک جنگ کے باعث ہونے والے انسانی نقصان کے بارے میں علم ہوتا ہے، چاہے وہ سب سے سینیئر افسران کا نقصان ہی کیوں نہ ہو۔
’اس بات پر فخر رہے گا کہ ان کے ماتحت کام کیا‘
میجر جنرل کانامات بوتاشیو انتہائی مہارت کے حامل روسی پائلٹ تھے جن کو قدر کی نگاہ سے دیکھا جاتا تھا۔ ان کے رینک، بڑی عمر، اور ریٹائرڈ ہونے کے باوجود وہ اس دن ایک مرتبہ پھر کاک پٹ میں موجود تھے۔
بی بی سی نے ان کے تین سابق ماتحت اہلکاروں سے بات کی ہے جنھوں نے کہا کہ وہ ’سپیشل ملٹری آپریشن‘ (روس کے یوکرین پر حملے) سے ’خود کو دور نہیں رکھ پائے۔‘
بوتاشیو کے ایک سابق ساتھی نے ہمیں بتایا کہ ’وہ ایک بہترین پائلٹ تھے، بہت کم ایسے لوگ ہیں اس دنیا میں جو فضا میں اڑان بھرنے سے متعلق اتنا جنون رکھتے ہیں۔‘
ایک اور افسر نے کہا کہ ’مجھے ہمیشہ اس بات پر فخر رہے گا کہ میں نے ان کے ماتحت کام کیا۔‘
تاہم یہ اس بات کی منطق سمجھنا مشکل تھا کہ بوتاشیو یوکرین میں لڑ رہے تھے، اور اس کی وجہ صرف یہ نہیں تھی کہ ان کی عمر زیادہ تھی۔
میجر جنرل کانامات بوتاشیو روسی فوج میں حاضر سروس بھی نہ تھے، انھیں ایک دہائی قبل نوکری سے نکال دیا گیا تھا۔
ہلاک شدہ جنرلز
بوتاشیو ان متعدد روسی جرنیلوں میں سے ایک ہیں جو اس تنازع کے دوران ہلاک ہوئے ہیں۔ حالانکہ اس حوالے سے درست اعداد و شمار کے حوالے سے متضاد آرا موجود ہیں، جدید جنگوں کے اعتبار سے دیکھا جائے تو کسی بھی جنگ کے ایک جنرل کھو دینا خاصا غیر معمولی سمجھا جاتا ہے۔
اگر موازنہ کیا جائے تو جب امریکی میجر جنرل ہیرلڈ گرین کو ایک افغان فوجی نے سنہ 2014 ہلاک کیا تھا تو وہ 40 برس میں جنگ کے دوران ہلاک ہونے والے پہلے امریکی جنرل بن گئے تھے۔
یوکرین کی جانب سے ایک دعوے میں یہ کہا گیا تھا اب تک 11 روسی جنرلز کو تنازع کے دوران ہلاک کیا گیا تھا۔ تاہم ان میں سے کچھ دعوے تو جلد ہی غلط ثابت ہو گئے تھے اور کم از کم تین ایسے جنرلز جن کو یوکرین نے ہلاک کرنے کا دعویٰ کیا تھا، ان کی جانب سے ویڈیو پیغام کے ذریعے اس خبر کی تردید کی گئی تھی۔
اس وقت مبینہ طور پر آٹھ روسی جنرلز لڑائی کے دوران ہلاک ہوئے ہیں جن میں سے چار کی ہلاکت کی تصدیق ہو چکی ہے جبکہ چار کے بارے میں کچھ وثوق سے نہیں کہا جا سکتا ہے (کیونکہ ان کی ہلاکتوں کی تردید بھی نہیں کی گئی)۔
بوتاشیو کے علاوہ دیگر تین جنرل جن کی ہلاکت کی تصدیق ہوئی ہے ان میں:
میجر جنرل اینڈرے سوخوویٹسکی کو مبینہ طور پر یکم مارچ کو ہلاک کیا گیا تھا۔ ایک ریٹائرڈ روسی فوجی افسر نے ٹویٹ کیا تھا کہ سوخوویٹسکی کو ایک یوکرین کے سنائپر نے ہوستومل کے علاقے ہلاک کیا تھا جو دارالحکومت کیئو سے زیادہ دور نہیں ہے۔
میجر جنرل ولادیمیر فرولوو کو یوکرینی فوج نے مبینہ طور پر 16 اپریل کو ہلاک کیا تھا اور ان کی ہلاکت کی تصدیق اس وقت ہوئی تھی جب ان کے جنازے کا نوٹس روسی شہر سینٹ پیٹرسبرگ میں سامنے آیا۔ ان کی ہلاکت کی تفصیلات تاحال سامنے نہیں آئیں۔
پانچ جون کو روس کے سرکاری میڈیا سے منسلک ایک صحافی نے ٹیلی گرام میسنجر پر پوسٹ کیا کہ میجر جنرل رومن کوٹوزوو کو ڈونباس میں یوکرینی فوج کے خلاف حملے کے دوران ہلاک کر دیا گیا ہے۔
ہمیں یہ کیوں معلوم نہیں ہے کہ کتنے روسی جنرل ہلاک ہوئے ہیں؟
اس کا سادہ سا جواب تو یہ ہے کہ یوکرین کے پاس اس کا کوئی جواب نہیں ہے اور روس اس بارے میں کچھ بتائے گا نہیں۔
روس کے لیے فوجی ہلاکتیں امن کے دنوں میں بھی ایک ریاستی راز ہوا کرتی ہیں اور روس کی جانب سے 25 مارچ کے بعد سے یوکرین میں روسی فوجیوں کی ہلاکتوں کے اعداد و شمار کو اپ ڈیٹ نہیں کیا گیا ہے۔ اس وقت یہ بتایا گیا تھا کہ جنگ کے پہلے ماہ کے دوران 1351 روسی فوجی مارے گئے ہیں۔
ایک جاری تحقیقاتی پراجیکٹ کے دوران آزادانہ ذرائع کے استعمال اور روسی فوجیوں کے خاندانوں سے بات کرنے کے بعد بی بی سی نے تین ہزار پانچ سو روسی فوجی ہلاکتوں کی ایک فہرست تیار کی ہے جس میں ان کے نام اور رینک بھی درج ہیں اور اس سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ اصل اعداد و شمار اس سے کہیں زیادہ ہیں۔
ہماری تحقیق سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ ہلاک ہونے والا ہر پانچواں روسی فوجی درمیانے یا سینیئر عہدوں پر فائض افسر تھا۔
اس سب سے ہمیں کیا معلوم ہوتا ہے؟
سینیئر عہدوں پر فائض افسران کی ہلاکتوں کی تعداد خاصی حیران کن ہے لیکن پھر روسی فوج میں ایک بڑی تعداد میں سینیئر افسران موجود ہیں جن میں 1300 جرنیل ہیں حالانکہ ان میں سے اکثر کی موجودگی کسی جنگ میں درکار نہیں ہو گی۔
دوسرے افراد اتنے خوش قسمت نہیں رہے اور ایک نمایاں تعداد میں جنرلز کو غلط وقت پر غلط جگہ ہونے کا خمیازہ بھگتنا پڑا۔
اس کی وجہ یہ بھی ہے کہ سینیئر عہدوں پر فائض روسی افسران سے ایسے کام اور فیصلے کرنے کی توقع کی جاتی ہے جو دیگر ممالک کی افواج میں نچلے عہدوں پر فائص افسران کے حصے میں آتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ وہ میدانِ جنگ کے توقع سے بھی زیادہ قریب آ جاتے ہیں۔
مغربی فوجی حکام نے یہ دعویٰ کیا ہے کہ روسی فوجیوں میں مورال گرنے کے باعث فوج کو مجبوراً اپنے اعلٰی افسران کو اگلے مورچوں پر بھیجنا پڑا ہے تاکہ فوجیوں کی حوصلہ افزائی ہو سکے۔
مواصلاتی آلات کی قلت کو بھی ان افسران کی زندگیاں خطرے میں ڈالنے کا ذمہ دار ٹھہرایا جا رہا ہے، مبینہ طور پر انھیں مجبوراً روایتی فون استعمال کرنے پڑتے ہیں جس کے باعث وہ براہ راست لڑائی کے مزید قریب آ جاتے ہیں اور آپریشنل سکیورٹی متاثر ہوتی ہے۔
اس کے علاوہ امریکی میڈیا کی رپورٹس کے مطابق یوکرینی فوج کے خفیہ ادارے کے افسران جان بوجھ کر روس کے اعلٰی افسران کو سنائپر فائر یار آرٹلری کے ذریعے نشانہ بنا رہے ہیں اور امریکہ کی جانب سے یوکرینی فوج کو ان کے ٹھکانے کے بارے میں نشاندہی کی گئی ہے۔
بلا اجازت پروازیں
تاہم یہ سب بوتاشیو کے لیے مکمل طور پر کتابی باتیں ہوتیں اگر وہ ریٹائرمنٹ کی زندگی ہی گزارتے رہتے۔ تو پھر وہ کیسے اس جنگ کا حصہ بن گئے؟
بوتاشیو کا کریئر اتنا سادہ نہیں رہا۔ سنہ 2012 میں انھیں فوج سے اس وقت برطرف کر دیا گیا تھا جب ان کا ایک ایسا طیارہ گر کر تباہ ہو گیا تھا جسے انھیں اڑانے کی اجازت نہیں تھی۔
انھوں نے روسی فوجی ٹیکنالوجی کے سر کا تاج سمجھے جانے والے ایس یو 27 جدید لڑاکا طیارے کاکنٹرول سنبھالا تھا۔ روسی فوج میں کسی بھی طیارے کو اڑانے کے لیے کئی گھنٹوں کی خصوصی ٹریننگ درکار ہوتی ہے۔
بوتاشیو کو ایس یو 27 اڑانے کی اجازت نہیں تھی لیکن انھوں نے کسی طرح اس تک رسائی حاصل کر لی۔ دورانِ پرواز وہ طیارے کا کنٹرول کھو بیٹھے لیکن وہ اور ان کے ساتھی نے کامیابی کے ساتھ ایجیکٹ کر لیا۔
وہ اس ’حادثے‘ میں تو بچ گئے لیکن انھیں معلوم تھا کہ انھیں اس کی قیمت ادا کرنی پڑے گی۔
جس بات کے باعث معاملات مزید خراب ہوئے وہ یہ تھی کہ یہ پہلی مرتبہ نہیں تھا کہ انھوں نے ایک ایسا طیارہ اڑایا تھا جو انھیں نہیں اڑانا چاہیے تھا۔
سنہ 2011 میں وہ ایس یو 34 کے کاک پٹ میں گھس گئے تھے حالانکہ اسے چلانے کا لائسنس ان کے پاس نہیں تھا، اور اس مربتہ یہ ایک بمبار طیارہ تھا، اور وہ اسے ایک تفریحی سفر کے لیے اڑا کر لے گئے۔
ادھار واپس کرنے کا وقت
سنہ 2012 میں ایک عدالت نے یہ فیصلہ سنایا تھا کہ بوتاشیو کو طیارہ کریش کرنے کے عوض 75 ہزار ڈالر ریاست کو ادا کرنے ہوں گے، حالانکہ طیارے کی اصل رقم لاکھوں ڈالرز میں تھی۔ جب گذشتہ ماہ ان کی ہلاکت ہوئی تو ایک آزادانہ ریاستی ڈیٹا بیس کے مطابق انھیں اب بھی اس کی آدھی رقم ادا کرنی تھی۔
بوتاشیو کو ان کے عہدے سے برطرف کر دیا گیا تھا اور بعد میں میں ڈوساف نامی ریاستی رضاکارانہ ادارے کے لیے کام کرنے لگے تھے جو سنہ 1950 سے سرگرم ہے۔ اس کے روسی فوج اور نیوی کے ساتھ روابط ہیں اور یہ نوجوانوں کے فوج کی جانب سے راغب کرنے کا ذریعہ بھی ہے۔
ان کی پینشن 360 ڈالر ماہانہ کے قریب تھی، اور یہ ظاہر ہے اس ادھار کو واپس کرنے کے لیے کافی نہیں ہونی تھی۔
اس آمدن کے ساتھ انھیں روسی ریاست کو یہ رقم واپس کرنے میں مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا اور یہ دعویٰ بھی کیا جا رہا ہے کہ جس دوران ان کی ہلاکت ہوئی وہ ایک نجی فوجی کمپنی کے ساتھ کام کر رہے تھے۔
روسی حکام اس دعوے کی تردید کرتی ہیں کہ ایسی کسی نجی کمپنی کے روسی ریاست کے ساتھ روابط ہیں۔