نیو یارک (ڈیلی اردو/ڈی پی اے، ای پی ڈی، کے این اے) ایمنسٹی انٹرنیشنل نے کہا ہے کہ افغانستان میں ایک سال قبل اقتدار سنبھالنے کے بعد سے طالبان حکومت کے خلاف آواز بلند کرنے والی خواتین کو ڈرایا دھمکایا اور پابند سلاسل کیا جارہا ہے اور انہیں اذیتیں دی جارہی ہیں۔
ایمنسٹی انٹرنیشنل نے بدھ کے روز جاری اپنی رپورٹ میں کہا کہ طالبان نے اقتدار میں آنے کے بعد افغان خواتین اور لڑکیوں کے حقوق “ختم” کر دیے ہیں۔ ان میں تعلیم، ملازمت اور سفر کرنے کے حقوق شامل ہیں جنہیں اس حکومت نے سخت قوانین کے ذریعہ بری طرح کچل دیا ہے۔
Women and girls arrested for ‘moral corruption’. Peaceful protesters harassed, detained, and tortured. A huge increase in child, early and forced marriages. This is what’s happening in Afghanistan less than a year after the Taliban takeover.
Read more ????https://t.co/E66wwT6JQI
— Amnesty International (@amnesty) July 27, 2022
ایمنسٹی انٹرنیشنل کی سکریٹری جنرل ایجنیس کالامارڈ کا کہنا تھا،”ہر ایک چیز، مثلاً وہ اسکول جاتی ہیں یا نہیں، وہ کام کرتی ہیں یا نہیں، کام کرتی ہیں تو کیا کرتی ہیں، وہ گھر سے باہر جاتی ہیں یا نہیں اور اگر جاتی ہیں تو گھر سے کب نکلتی ہیں، پر کنٹرول کیا جارہاہے اور زبردست پابندی ہے۔ افغانستان کی خواتین کے خلاف اس گھٹن بھری کارروئی میں روز بروز اضافہ ہو رہا ہے۔”
Women in Afghanistan who peacefully protest the oppressive rules imposed by the Taliban are being threatened, arrested, detained and tortured. Atefa told @amnesty of the severe beating and psychological torture she suffered ???? pic.twitter.com/SLzfUSHLce
— Amnesty International (@amnesty) July 27, 2022
ایمنسٹی نے اپنی یہ رپورٹ ایک سو سے زائد افغان خواتین اور لڑکیوں سے بات چیت کی بنیاد پر تیار کی ہے۔ اس میں انکشاف کیا گیا ہے کہ جو خواتین ان پابندیوں کے خلاف آواز بلند کرتی ہیں انہیں “دھمکیاں دی جاتی ہیں، گرفتار اور قید کیا جاتا ہے، اذیتیں دی جاتی ہیں اور جبراً لاپتہ کردیا جاتا ہے۔”
خاندان کو ہلاک کر دینے کی دھمکی
انسانی حقوق کے کارکنوں کا کہنا ہے کہ طالبان جب گزشتہ برس اقتدار میں آئے تھے تو انہوں نے خواتین کے حقوق کو برقرار رکھنے کا وعدہ کیا تھا۔ لیکن یہ وعدے جلد ہی ہوا ہوگئے اور انہوں نے خواتین کے خلاف منظم جبر کی پالیسی شروع کردی۔
رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ جو کوئی بھی ان جانبدارانہ رویے کے خلاف آواز بلند کرتا ہے، طالبان اسے ہراساں کرتے ہیں، اسے جبراً گرفتار کرلیا جاتا ہے اور جسمانی اور نفسیاتی اذیتیں دی جاتی ہیں۔
طالبان کی قید میں ڈالی جانے والی ایک خاتون نے بتایا، “طالبان گارڈ میرے کمرے میں آتے اور مجھے میرے خاندان کی تصویریں دکھاتے۔ وہ مسلسل دھمکیاں دیتے کہ ‘ہم ان سب کو مار دیں گے اور تم کچھ بھی نہیں کرسکو گی۔'”
ایک دوسری خاتون نے بتایا،”ہمیں ہمارے چھاتیوں اور پیروں کے درمیان پیٹا جاتا تھا۔ وہ ایسا اس لیے کرتے تھے تاکہ ہم اس زیادتی کے نشانات دنیا کو دکھا نہ سکیں۔”
عوامی مقامات پر محرم کے بغیر نظر آنے والی خواتین کو بھی زبردستی گرفتار کرلیا جاتا ہے اور انہیں اذیتیں دی جاتی ہیں۔
گھریلو اور صنفی تشدد کا شکار ہونے والی خواتین نے بتایا کہ انہیں پناہ گاہوں، جس کا وجود ہی نہیں ہے، کے بجائے قید خانوں میں ڈال دیا گیا۔ یہاں خواتین کو قید تنہائی میں رکھا جاتا ہے، انہیں مارا پیٹا جاتا ہے اور مختلف طرح کی اذیتیں دی جاتی ہیں اور غیر انسانی حالات میں رہنے کے لیے مجبور کیا جاتا ہے۔
ایمنسٹی انٹرنیشنل جرمنی کی ڈپٹی سکریٹری جنرل جولیا ڈکرو کا کہنا تھا،”افغانستان میں خواتین کے خلاف بلا روک ٹو ک زیادتیوں کا سلسلہ ہر روز بڑھتا ہی جارہا ہے۔ اگر بین الاقوامی برادری نے اسے روکنے کے لیے کوئی قدم نہیں اٹھایا تو افغانستان میں لاکھوں خواتین اور لڑکیوں کا مستقبل تاریک ہوجائے گا۔”