اسلام آباد (ڈیلی اردو) سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے داخلہ کا اجلاس چیئرمین کمیٹی سینیٹر رحمان ملک کی زیر صدارت پارلیمنٹ ہائوس میں منعقد ہوا ۔ قائمہ کمیٹی کے اجلاس میں سی ڈی اے اور میٹر و پولیٹن کارپوریشن اسلام آباد کے انتظامی ، مالی اور لیگل ایشوز ، سینیٹر محمد عثمان خان کاکڑ کے سینیٹ اجلاس میں اٹھائے گئے عوامی اہمیت کے معاملہ برائے گزشتہ 10 برسوں میں لاپتہ افراد کی تفصیلات ، گزشتہ 5 سالوں کے دوران دہشتگردی کے واقعات میں گرفتار کیے گئے افراد کی تعداد ،صوبہ خیبر پختونخواہ کے علاقہ ڈی آئی خان میں ٹارگٹ کلنگ میں11 افراد کی ہلاکت کے علاوہ سینیٹر حاجی مومن خان آفریدی کو دی جانے والی دھمکیوں کے معاملات کا تفصیل سے جائزہ لیا گیا۔
سی ڈی اے اور میٹر و پولیٹن کارپوریشن اسلام آباد کے مابین انتظامی ، مالی اور قانونی مسائل کے حوالے سے قائد ایوان سینیٹ سینیٹر سید شبلی فراز نے کہا کہ سی ڈی اے میونسپل کارپوریشن اور دیگر متعلقہ اسٹیک ہولڈرز کو بلا کر معاملے کا تفصیل سے جائزہ لیا۔
معاملے کو حل کرنے کیلئے سی ڈی اے کو دو خطوط بھی لکھے گئے مگر سی ڈی اے معاملے کے حل میں دلچسپی نہیں رکھتا ۔
سی ڈی اے کے معاملات دن بدن بد سے بدتر ہو رہے ہیں اور وزارت داخلہ نے بھی ان کے مسائل کے حل کیلئے موثر کردار ادا نہیں کیا ۔ جس پر چیئرمین کمیٹی سینیٹ رحمان ملک نے کہا کہ مسئلے کے حل کیلئے وزیراعظم پاکستان کو بھی خط لکھ دیا گیا ہے۔ چیئرمین کمیٹی نے سینیٹر میاں محمد عتیق شیخ کو چیئرمین سی ڈی اے اور میئر اسلام آباد کے ساتھ مل کر معاملات کو حل کرنے کے حوالے سے 3 دن کے اندر رپورٹ تیار کر کے کمیٹی کو فراہم کریں۔
چیئرمین کمیٹی نے کہا کہ اگر معاملات حل نہ ہوئے تو وزیر داخلہ جو وزیراعظم پاکستان ہیں ان سے کمیٹی اجلاس میں معاملے کے حل کیلئے بریفنگ حاصل کی جائے گی ۔ ایڈیشنل سیکرٹری داخلہ نے کمیٹی کو بتایا کہ سی ڈی اے ایک آزاد ادارہ ہے انہیں ڈیکٹیٹ نہیں کر سکتے ۔ وزارت خزانہ اور اسٹبلشمنٹ ڈویژن کو کردار ادا کرنا ہوگا۔ سی ڈی اے میں2015 میں کچھ تقسیم ہوئی اس پر بھی بار بار اعتراضات سامنے آئے۔
سینیٹر محمد جاوید عباسی نے کہا کہ قائمہ کمیٹی آج اپنی رپورٹ تیار کر کے ایوان بالاء میں پیش کرے وہاں بحث کر ا کے مستقل حل نکالا جائے ۔ ممبر اسٹیٹ سی ڈی اے نے کہا کہ سی ڈی اے کے 13 ہزار سٹاف میں سے 8 ہزار ایم سی آئی کو دے دیا ہے اور ملازمین کی مرضی چیک کی جاتی ہے ۔ ہمارا ایک بورڈ ہے مگر ایم سی آئی نے ابھی تک بورڈ نہیں بنایا۔ قائمہ کمیٹی کے اجلاس میں بھارتی جارحیت کے خلاف پاک فضائیہ اور نیوی کی طرف سے دیئے گئے موثر جواب پر پاک فوج کو خراج تحسین پیش کیا گیا اور لائن آف کنڑول پر بھارتی اشتعال انگیزی کے نتیجے میں شہدا ہونے والے کیلئے دعائے مغفرت کی گئی۔
چیئرمین کمیٹی نے کہا کہ پاک بھارت کشیدگی کے دوران آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ کا بہترین ڈاکٹرائن سامنے آیا۔ سینیٹ قائمہ کمیٹی برائے داخلہ نے پاکستان کیساتھ امتیازی برتاؤ پر فنانشنل ایکشن ٹاسک فورس کیخلاف مذمتی قراردا منظور کی۔چیئرمین کمیٹی نے کہا کہ فنانشنل ایکشن ٹاسک فورس کا بھارت کو رعایت دینے پر تخفظات ہیں۔ ادارہ بھارت کو پاکستان پر ترجیح دے رہا ہے جو قابل مذمت ہے۔
سینیٹ قائمہ کمیٹی برائے داخلہ نے فنانشنل ایکشن ٹاسک فورس کا بھارت کو ایشیاء سربراہ بنانے پر سخت احتجاج کا اظہار کیا ۔سینیٹر رحمان ملک نے کہا کہ فنانشنل ایکشن ٹاسک فورس میں بھارت کیخلاف پہلے سے درخواست موجود ہے۔ فنانشنل ایکشن ٹاسک فورس نے منی لانڈرنگ کی الزامات کی بنیاد پر پاکستان کیخلاف کیس کھلا ہے مگر بھارت کیخلاف منی لانڈرنگ و ٹیرر فنانسنگ کے شواہد کے باوجود کیس نہیں کھولا گیا۔
میں نے فنانشنل ایکشن ٹاسک فورس کے صدر کو بھارت اور مودی کیخلاف تمام شواہد کیساتھ خط لکھا تھامگرفنانشنل ایکشن ٹاسک فورس کے صدر نے بھارت اور وزیراعظم مودی کیخلاف کیس کھلنے سے معذرت کر دی۔ اگر مودی اور بھارت کیخلاف فنانشنل ایکشن ٹاسک فورس کیس نہیں کھل سکتا تو پاکستان کیخلاف کیوں ۔ انہوں نے کہا کہ اگر بھارت کیخلاف کیس نہیں کھل سکتا تو پاکستان کیخلاف بھی کیس بند کیا جائے اور کہا کہ کیا بھارت نے کلبوشن یادو کے ذریعے افغانستان و پاکستان میں ٹیرر فنانسنگ نہیں کر رہا ہے۔
قائمہ کمیٹی کے اجلاس میں سینیٹر عثمان کاکڑ کی طرف سے لاپتہ افراد کا معاملہ زیر بحث لایا گیا ۔سینیٹر محمد عثمان خان کاکڑ نے کہا کہ جو معلومات فراہم کی گئیں ہیںان سے اتفاق نہیں کرتا ۔ فاٹا سے بے شمار لوگ لاپتہ ، گرفتار اور ہلاک کیے گئے مگر جو رپورٹ فراہم کی گئی ہے وہ معلومات درست نہیں ہے ۔ جس پر چیئرمین کمیٹی سینیٹر رحمان ملک نے کہا کہ جو معزز سینیٹر نے تفصیلات طلب کی تھیں ان کے جوابات فراہم کر دیئے گئے ہیں مزید جو اعتراضات ہیں وہ کمیٹی کو فراہم کر دیں آئندہ اجلاس میں ایجنڈے میں شامل کر لیا جائے گا۔
انہوں نے کہا کہ دہشت گردی میں اب تک سب سے زیادہ لوگ پنجاب سے تحویل میں لئے گئے ہیں۔ جس پرہوم سیکرٹری پنجاب نے کہا کہ صوبہ پنجاب میں زیادہ تر لوگ جنوبی پنجاب کے قبائلی علاقوں سے تحویل میں لئے گئے ہیں۔ زیادہ تر لوگوں کا تعلق دہشت گرد تنظیموں سے ہے۔ سینیٹر رحمان ملک نے کہا کہ لاپتہ افراد کمیشن کو سوموٹو پاورز ہونے چائیے کیونکہ کمیشن صرف کمپلنٹ پر کام کر رہی ہے۔
انہوں نے کہا کہ اس کمیشن کا قیام2011 میں ہوا تھا اور 6 ماہ بعد اس کو توسیع دی جاتی ہے کوشش کی جائے کہ اس کمیشن کو مستقل کیا جائے ۔سینیٹر محمد عثمان خان کاکڑ نے کہا کہ میں نے سینٹ ہاوس میں 2018 میں ایک سوال جمع کروایا تھا۔ کہ پاکستان میں کتنے لوگ دہشتگردی میں گرفتار ہیں۔تمام صوبوں کے حوالے سے معلومات دی گئیں ہیں، کے پی اور فاٹا کے حوالے سے فراہم نہیں کی گئیں۔
انہوں نے کہا کہ لاپتہ افراد کے حوالے سے 2100 لوگ کی تمام معلومات میرے پاس تصاویر سمیت موجود ہیں۔انہوں نے کہا کہ پی ٹی آئی گورنمنٹ سے اختر مینگل نے حکومت میں شامل ہوتے وقت 5000 لوگوں کی بازیابی کی شرط رکھی۔ موجودہ حکومت کے دور میں 80 لوگ مزید لاپتہ ہوئے ہیں۔سینیٹر کلثوم پروین نے کہا کہ بلوچستان کے دو ڈاکٹر اغوا ء ہوئے جو 6 کروڑ روپے تاوان دے کر رہا ہوئے۔
جس پر چیئرمین کمیٹی نے آئندہ اجلاس میں آئی جی بلوچستان، ہوم سیکرٹری بلوچستان اور سیکرٹری داخلہ کو طلب کر لیا۔چیئرمین کمیٹی نے جسٹس فضل رحمان کی کارکردگی کو خراج تحسین پیش کیا۔چیئرمین کمیٹی نے کہا کہ جب کمیشن بنایا گیا تھا تو بتایا گیا تھا کہ 20 ہزار افراد پکڑے گئے ہیں ۔ابھی فاٹا میں 691 لوگ پکڑے ہوئے ہیں ۔44 لوگوں کے خلاف چارج شیٹ ہوئی اور 110 لوگوں کو ہلاک کیا گیا ان کی تفصیلات کمیٹی کو فراہم کی جائیں۔
قائمہ کمیٹی نے آئندہ اجلاس میں چاروں صوبوں کے ہوم سیکرٹریز ، چیف سیکرٹریز اور آئی جیز کو طلب کر لیا ۔ قائمہ کمیٹی کو ہوم سیکرٹری پنجاب نے بتایا کہ سانحہ ساہیوال پر جے آئی ٹی کی رپورٹ آئی گئی ہے ۔ایس ایس پی اور ڈی ایس پی کو معطل کر دیا گیا ہے ۔ ڈی آئی جی کو صوبہ بدر کیا گیا ہے اور سی ٹی ڈی کے اہلکاروں کے خلاف قتل کا مقدمہ بھی درج کر لیا گیا ہے۔
انہوں نے کہا کہ آئندہ اجلاس میں قائمہ کمیٹی کو پورے واقعہ کی تفصیلی بریفنگ دی جائے گی ۔ سینیٹر حاجی مومن خان آفریدی کے معاملے کا بھی کمیٹی نے تفصیل سے جائزہ لیا ۔سینیٹر حاجی مومن خان آفریدی نے کہا کہ مجھے بھی افغانستان کے نمبر سے کال آئی ہے اور چندہ مانگا ہے۔ اگر نا دیا گیا تو آگے آپ کو پتا چل جائے گا۔چیئرمین کمیٹی نے آئی جی خیبر پختونخواہ کو معاملے کی انکوائری مردان منتقل کرنے کی سفارش کر دی ۔
قا ئمہ کمیٹی اجلاس میں خیبرپختونخوا پولیس سے ڈی آئی خان میں ٹارگٹ کلنگ پر استفسار کیا گیا ۔چیئرمین کمیٹی نے کہا کہ ہم سب کو اور بالخصوس قائمہ کمیٹی برائے داخلہ کو ڈی آئی خان میں ٹارگٹ کلنگ پر تشویش ہے۔ ڈی آئی خان میں کیوں آئے روز ٹارگٹ کلنگ ہو رہی ہے۔ پولیس کیوں ڈی آئی خان میں عوام کے جان و مال کی حفاظت کرنے میں ناکام ہے۔
خیبر پختونخواہ پولیس کے ایس پی سی ٹی ڈی ڈیرہ اسماعیل خان صابر حسین نے بتایا کہ پولیس نے ایک دہشت گردد مذہبی تنظیم کیخلاف ڈی آئی خان میں کریک ڈاؤن کیا ہے۔ ڈی آئی خان میں فرقہ ورانہ تنظیموں اور دہشت گرد تنظیموں میں گٹھ جوڑ ہے۔ پولیس نے اقبال کالیہ اور اسکے تنظیم کے لوگوں کو حراست میں لیا ہے اور کچھ مارے گئے۔ جس پر چیئرمین کمیٹی نے کہا کہ کمیٹی کے آئندہ اجلاس میں ڈی آئی خان سے تمام مکتبہ فکر کے علماء اور سیاسی نما ئندوں کو بلایا کر معاملے کا جائزہ لیا جائے گا۔
انہوں نے کہا کہ ڈی آئی خان میں فرقہ واریت نہیں دہشت گرد بے گناہ لوگوں کو مار رہے ہیں۔قائمہ کمیٹی کے آج کے اجلاس میں قائد ایوان سینیٹ سینیٹر سید شبلی فراز اور سینیٹرز کلثوم پروین ، محمد جاوید عباسی ،میاں محمد عتیق شیخ ، حاجی مومن خان آفریدی اور محمد عثمان خان کاکڑ کے علاوہ ایڈیشنل چیف سیکرٹری پنجاب فضل اصغر ، ایڈیشنل سیکرٹری داخلہ ، ڈی جی سی ٹی نیکٹا ، میئر اسلام آباد ، چیئرمین سی ڈی اے ، ایڈیشنل آئی جی خیبر پختونخواہ ، ممبرفنانس سی ڈی اے اور دیگر اعلیٰ حکام نے شرکت کی ۔