افغانستان میں امریکی ڈرون حملوں میں پاکستانی سرزمین کے استعمال کا الزام افسوسناک ہے، پاکستان

اسلام آباد (ڈیلی اردو/بی بی سی) پاکستان کا کہنا ہے کہ اسے افغانستان کے قائم مقام وزیرِ دفاع کی جانب سے امریکی ڈرون کارروائیوں کے لیے پاکستان کی فضائی حدود کے استعمال کے الزامات پر شدید تشویش ہے اور اس قسم کے بیانات سفارتی طرزِ عمل کے منافی ہیں۔

اتوار کو افغانستان کے وزیر دفاع مولوی محمد یعقوب مجاہد نے الزام عائد کیا ہے کہ ان کی معلومات کے مطابق امریکی ڈرونز پاکستان کے راستے افغانستان میں داخل ہو رہے ہیں اور اس طرح کے حملوں کے لیے پاکستان کی فضائی حدود استعمال ہو رہی ہے۔

اتوار کی شب ایک بیان میں اس الزام کا جواب دیتے ہوئے دفترِ خارجہ کے ترجمان کا کہنا تھا کہ کسی ثبوت کی غیرموجودگی میں جس کا اعتراف افغان وزیر نے بھی کیا، اس قسم کی قیاس آرائیوں پر مبنی الزام تراشی انتہائی افسوسناک ہے۔

ترجمان کا یہ بھی کہنا تھا کہ پاکستان تمام ریاستوں کی علاقائی سالمیت اور خودمختاری پر یقین رکھتا ہے اور ہر قسم کی دہشت گردی کی مذمت کرتا ہے۔

انھوں نے افغان حکام پر زور بھی دیا کہ وہ افغانستان کی جانب سے کیے گئے اس عالمی وعدے کو پورا کرے کہ وہ اپنی سرزمین کو کسی بھی ملک کے خلاف استعمال نہیں ہونے دے گا۔

گذشتہ برس افغانستان سے امریکی و غیر ملکی افواج کے انخلا کے بعد طالبان نے افغانستان کا کنٹرول سنبھال لیا تھا اور اس کے بعد ملک کا نظم و نسق چلانے کے لیے ایک عبوری حکومت کا اعلان کیا تھا جس میں افغان طالبان کے بانی ملا محمد عمر کے بیٹے مولوی یعقوب کو وزارت دفاع کا قلمدان سونپا گیا۔

اتور کو اپنے چیف آف آرمی سٹاف قاری فصیح الدین فطرت اور وزارت دفاع کے ترجمان مولوی عنایت اللہ خوارزمی کے ہمراہ پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے طالبان حکومت کے وزیر دفاع نے کہا کہ ’ہم پاکستان سے یہ مطالبہ کرتے ہیں کہ اپنی فضائی حدود ہمارے خلاف استعمال نہ ہونے دے۔‘

اگرچہ مولوی محمد یعقوب نے اپنے الزام کے حق میں کوئی ٹھوس شواہد پیش نہیں کیے ہیں تاہم ان کا کہنا تھا کہ ’امریکہ نے انخلا کے وقت ہمارے ریڈار سسٹم کو بھی تباہ کر دیا مگر اس کے باوجود ایسی اطلاعات ہیں کہ امریکہ پاکستان کی فضائی حدود استعمال کر رہا ہے۔‘

خیال رہے کہ کچھ عرصہ قبل ہی القاعدہ کے سربراہ ایمن الظواہری افغان دارالحکومت کابل میں ایک امریکی ڈرون حملے میں مارے گئے تھے۔ امریکی صدر جو بائیڈن نے خود اس ہلاکت کی تصدیق کی تھی۔

اس حملے کے بعد یہ الزامات سامنے آئے کہ اس مقصد کے لیے پاکستان کی فضائی حدود استعمال کی گئی۔ تاہم پاکستان کی حکومت اور فوج نے ان الزامات کی سختی سے تردید کی تھی اور یہ مؤقف دیا تھا کہ پاکستان نے کسی ملک کو بھی اس مقصد کے لیے اپنی فضائی حدود استعمال کرنے کی اجازت نہیں دی ہے۔

پاکستان کے اندر بھی پاکستان کے سابق وزیراعظم عمران خان سمیت اپوزیشن کے سیاسی رہنماؤں نے بھی اس کارروائی کے بعد حکومت اور فوج پر اس حوالے سے تنقید کی تھی اور یہ وضاحت مانگی ہے کہ اس سلسلے میں امریکہ سے کوئی خفیہ معاہدہ ہے تو اس کی تفصیلات سامنے لائی جائیں۔

تاہم ایمن الظواہری کی ہلاکت کے بعد جب پاکستان کے وزیرِ داخلہ رانا ثنااللہ سے ایک پریس کانفرنس کے دوران ڈرون حملے کے متعلق سوال کیا گیا تو انھوں نے کہا کہ پاکستان کی فضائی حدود استعمال نہیں ہوئی ہیں۔ اسی طرح دفتر خارجہ اور پاکستانی فوج کے شعبہ تعلقات عامہ آئی ایس پی آر نے بھی اسی مؤقف کی تائید کی تھی۔

اتوار کو پاکستان تحریکِ انصاف کی رہنما اور سابق وفاقی وزیر شیریں مزاری نے افغان حکام کی پریس کانفرنس کے بعد اس معاملے پر دوبارہ اپنی ایک ٹویٹ میں کہا: ’یہ ایک سنگین الزام ہے۔ ہمارے اپنے شہری ہلاک ہوتے رہے ہیں اور اس سے پہلے (ہم نے) امریکی جنگیں لڑنے کی بھاری معاشی قیمت ادا کی۔

’ہمیں ایسی دوسری جنگ میں نہیں گھسیٹا جا سکتا۔ قوم کو موفا (دفتر خارجہ) اور @OfficialDGISPR (آئی ایس پی آر) سے وضاحت کی ضرورت ہے کہ آیا ہم نے ڈرون اوور فلائٹس کی اجازت دینے کے لیے امریکہ کے ساتھ دوبارہ معاہدہ کیا ہے۔‘

واضح رہے کہ گذشتہ سال افغانستان سے امریکی انخلا کے دوران صدر جو بائیڈن نے عہد کیا تھا کہ ان کی انتظامیہ طالبان کی قیادت والی نئی حکومت کو افغانستان میں دہشت گردوں کی محفوظ پناہ گاہ بنانے کی اجازت نہیں دے گی۔

بائیڈن کے ایک مشیر نے کہا تھا کہ امریکی انخلا کے بعد سے ہی امریکی جاسوس افغانستان پر گہری نظر رکھے ہوئے تھے کہ القاعدہ کے رہنما آہستہ آہستہ ملک میں واپس آ رہے ہیں۔

Share on Social

اپنا تبصرہ بھیجیں