صنعا (ڈیلی اردو/رائٹرز/ڈی پی اے/اے پی) سعودی عرب کے ایک وفد نے صنعا میں یمن کے حوثی باغیوں سے مذاکرات کیے ہیں، جس سے خطے میں امن کی نئی امید پیدا ہوئی ہے۔ یہ اس بات کا بھی عکاس ہے کہ عمان کی ثالثی میں ہونے والی بات چیت میں پیش رفت ہوئی ہے۔
یمن میں شیعہ حوثی باغیوں نے عمان اور سعودی عرب کے نمائندوں کے ساتھ ملاقات کے دوران یہ تجویز پیش کی ہے کہ وہ ملک میں جاری خانہ جنگی ختم کرنے کے لیے تیار ہیں۔ واضح رہے کہ عمان کی ثالثی میں ہونے والی بات چیت کے لیے سعودی وفد ہفتے کے روز صنعا پہنچا تھا۔
حوثی باغیوں کے زیر کنٹرول صبا نیوز ایجنسی نے اتوار کے روز اطلاع دی کہ اس ملاقات کے دوران حوثی باغیوں کی سپریم پولیٹیکل کونسل کے سربراہ مہدی المشاط نے ”منصفانہ اور باعزت امن” کے حق میں بات کی ہے۔
یہ دورہ ریاض اور صنعا کے درمیان عمان کی ثالثی میں ہونے والے مذاکرات میں پیش رفت کی بھی نشاندہی کرتا ہے، جو اقوام متحدہ کی امن کی کوششوں کے ساتھ ساتھ ایک علیحدہ امن کی کوشش ہے۔ چین کی ثالثی میں ہونے والے معاہدے کے بعد حریف سعودی عرب اور ایران نے تعلقات کو دوبارہ قائم کرنے پر رضامندی ظاہر کی ہے، جس کے بعد ان مذاکرات میں بھی تیزی آئی ہے۔
سعودی عرب نے ابھی تک ان مذاکرات کے حوالے سے کوئی تبصرہ نہیں کیا ہے۔ البتہ ایک حوثی رہنما محمد البوکیتی نے ٹویٹر پر کہا تھا کہ سعودی اور عمانی حکام ”خطے میں جامع اور دیرپا امن کے حصول کے طریقوں ” پر تبادلہ خیال کریں گے۔
انہوں نے کہا کہ حوثی باغیوں اور سعودی عرب کے درمیان باعزت امن کا حصول ”دونوں فریقوں کی فتح” ہو گی۔ انہوں نے تمام فریقوں پر زور دیا کہ وہ ”پرامن ماحول کو برقرار رکھنے اور ماضی کو بدلنے کی تیاری” کے لیے اقدامات کریں۔
اقوام متحدہ کا رد عمل
یمن کے لیے اقوام متحدہ کے خصوصی ایلچی ہینس گرنڈبرگ نے صنعا میں سعودی اور عمانی مذاکرات سمیت جاری کوششوں کے متعلق کہا کہ جنگ شروع ہونے کے بعد سے پہلی بار یمن دیرپا امن کی جانب حقیقی پیش رفت کے قریب پہنچ گیا ہے۔
انہوں نے نیوز ایجنسی ایسوسی ایٹیڈ پریس سے بات چیت میں کہا: ”یہ ایک وہ لمحہ ہے جس سے فائدہ اٹھانے کے ساتھ ہی اس پر بنیاد استوار کی جا سکتی ہے۔ یہ اقوام متحدہ کے زیر اہتمام ایک جامع سیاسی عمل شروع کرنے کا حقیقی موقع بھی ہے تاکہ تنازعات کو پائیدار طریقے سے ختم کیا جا سکے۔”
بات چیت کن امور پر ہوئی
ذرائع نے خبر رساں ادارے روئٹرز کو بتایا ہے کہ سعودی عرب اور یمن کے باغیوں کے درمیان مذاکرات میں حوثیوں کے زیر کنٹرول بندرگاہوں اور صنعا ایئرپورٹ کو مکمل طور پر دوبارہ کھولنے کا منصوبہ بھی شامل ہے۔
ملاقات کے دوران سرکاری ملازمین کے لیے اجرتوں کی ادائیگی، تعمیر نو کی کوشش اور غیر ملکی افواج کے ملک سے باہر نکلنے کے لیے ٹائم لائن جیسے امور پر بھی بات چیت ہوئی۔
ماہرین کے مطابق یمن میں سیاسی منظر نامہ کافی پیچیدہ ہے، تاہم مذاکرات کے ذریعے مستقل جنگ بندی کا کوئی نہ کوئی راستہ نکالا جا سکتا ہے۔
یمن میں ایرانی حمایت یافتہ حوثی باغیوں اور سعودی حمایت یافتہ حکومت کے مابین ایک عرصے سے لڑائی جاری ہے، جس کے نتیجے میں اس ملک میں ایک انسانی بحران پیدا ہو چکا ہے۔ صنعا میں ہونے والی اس ملاقات سے پہلے سعودی عرب کی جانب سے ایک درجن سے زائد حوثی جنگی قیدیوں کو رہا بھی کیا گیا تھا۔
تجزیہ کاروں کے مطابق چین کی ثالثی میں ہونے والا معاہدہ پورے مشرق وسطیٰ کی صورتحال میں بہتری لا سکتا ہے اور یمن میں جاری امن کوششیں بھی اسی منصوبے کا حصہ ہیں۔ اگر صورتحال ایسی ہی مثبت رہی تو دیگر ملکوں کے حالات میں بھی بہتری آئے گی۔ ایران اور سعودی عرب شام، لبنان اور عراق میں اپنے اپنے اثر و رسوخ کے لیے میدان میں سرگرم رہے ہیں۔ سعودی عرب اور ایران ان ممالک میں ایک دوسرے کے حریف گروپوں کو سپورٹ کرتے ہیں۔