پشاور (مانیٹرنگ ڈیسک) مردان میں یونیورسٹی کے احاطے میں انتہا پسند ہجوم کے ہاتھوں قتل کر دیے جانے والے مشال خان کی بہن نے نیویارک سے بائیو میڈیکل انجینئرنگ میں ڈگری حاصل کی ہے، ستوریہ منے اس کامیابی کواپنے بھائی کے نام کیا۔
ستوریہ نے ٹوئٹر پر گریجویشن کی تقریب کی تصاویر پوسٹ کرتے ہوئے بتایا کہ انہوں نے اسٹیٹ یونیورسٹی آف نیو یارک – یونیورسٹی آف بفیلو سے بایومیڈیکل انجینئرنگ میں گریجویشن کیا ہے۔ بفیلو امریکی ریاست نیویارک کا دوسرا سب سے بڑا شہر ہے۔
Graduated from The State University of Newyork – "University at Buffalo" with a Degree in "Biomedical Engineering". I have also completed my "Student Engagement Ambassador's Internship" and "Peer Mentorship". I dedicate my degree to "Mashal Khan" the Martyr of Knowledge". pic.twitter.com/wenFWRVYSC
— Storiya Khan Mashal???? (@StoriyaM) May 23, 2023
ستوریہ نے اپنی کامیابی شیئرکرتے ہوئے مزید لکھا کہ، ’میں اپنی ڈگری شہید علم مشال خان کے نام کرتی ہوں‘۔
سوات میں لڑکیوں کی تعلیم کے لیے آواز اٹھانے والی نوبل انعام یافتہ ملالہ یوسفزئی کے والد ضیاء الدین یوسفزئی نے بھی اپنے آفیشل ٹوئٹر اکاؤنٹ پر تصاویر شیئرکرتے ہوئے ستوریہ خان مشال کومبارکباد دی۔
ضیاء الدین یوسفزئی نے اپنی ٹویٹ میں لکھا، ’ آئیں اس کہانی کی خوشی منائیں، مشال خان شہید کی بہن جنہوں نے مشکلات کا سامنا کرتے ہوئے اسٹیٹ یونیورسٹی آف بفیلو سے بائیو میڈیکل انجینئرنگ میں گریجویشن کیا ہے’۔
Let's celebrate the story of @StoriyaM , sister of Mashal Khan Shaheed, who in the face of adversity has graduated with a degree in BioMedical Engineering from State University Of Buffalo @UBuffalo !
Her resilient spirit and dedication to education are an inspiration to all. She… pic.twitter.com/t06LQiC0Qr— Ziauddin Yousafzai (@ZiauddinY) May 23, 2023
انہوں نے مشال خان کی بہن کی حصول علم کیلئے کی جانے والی جدو جد کو سراہتے ہوئے لکھا کہ ان کا جذبہ اور لگن سبھی کے لئے ایک تحریک ہے۔ ستوریہ ننے اپنی کامیابی مشال خان اور تعلیم کے حق کے لیے لڑنے والی تمام افغان لڑکیوں کے نام کی ہے۔
مشال خان کون تھے؟
مشال خان مردان کی عبدالولی خان یونیورسٹی میں شعبہ ابلاغیات کے طالبعلم تھے جنھیں سال 2017 میں مشتعل ہجوم نے انتہائی تشدد کے بعد ہلاک کر دیا گیا تھا۔
مشال خان کے قتل میں 61 افراد کو ایف آئی آر میں نامزد کیا گیا تھا جن میں سے 57 ملزمان کو گرفتار کرکے سماعت شروع کر دی گئی تھی۔ ان میں زیادہ تر عبدالولی خان یونیورسٹی کے طلبہ اور یونیورسٹی کے ملازمین شامل تھے۔
مشال خان پر یہ الزام عائد کیا گیا تھا کہ وہ توہین مذہب کے مرتکب ہوئے لیکن اس بارے میں قائم تحقیقاتی ٹیم کی رپورٹ کے مطابق ایسے کوئی شواہد نہیں ملے تھے۔
پولیس کی جانب سے مشال خان قتل کیس میں گرفتار 57 ملزمان میں سے عدالت نے مرکزی ملزم عمران کو سزائے موت، پانچ کو 25 سال قید جبکہ 25 ملزمان کو چار سال قید کی سزا سنائی تھی۔ جبکہ باقی 26 ملزمان کو بری کر دیا گیا تھا۔
چار سال قید کی سزا پانے والے ملزمان کو پشاور ہائی کورٹ نے ضمانت پر رہا کرنے کے احکامات جاری کیے تھے۔
انسداد دہشت گردی کی عدالت نے 26 ملزمان کو بری کردیا جبکہ 25 ملزمان کو 3 سال قید کی سزا سنائی۔
خیبرپختونخوا حکومت اور مشال خان کے والد کی جانب سے متعدد اپیلیں دائر کی گئی تھیں جن میں 28 ملزمان کی بریت کو کالعدم قرار دینے، 3 سال قید کی سزا پانے والے 25 مجرموں اور عمر قید کی سزا والے 7 دیگر مجرموں کی سزاؤں میں اضافے کا مطالبہ کیا گیا تھا۔
جنوری 2022 میں سپریم کورٹ آف پاکستان نے مشال قتل کیس میں ملوث مجرموں کی سزاؤں میں اضافے کے لیے خیبر پختونخوا حکومت کی اپیلوں کو سماعت کیلئے منظور کیا۔