منسک (ڈیلی اردو/رائٹرز/ڈی پی اے) بیلاروس کے صدر کے مطابق انہیں یقین ہے کہ ان کے ملک میں تعینات روسی ٹیکٹیکل جوہری ہتھیار کبھی استعمال نہیں کیے جائیں گے۔ دوسری جانب یوکرین نے بیلاروس کے ساتھ اپنی سرحد کی سکیورٹی مزید بڑھا دی ہے۔
بیلاروس کے صدر آلیکسانڈر لوکاشینکو اور روسی صدر ولادیمیر پوٹن نے تسلیم کیا ہے کہ کچھ ٹیکٹیکل جوہری ہتھیار بیلاروس پہنچ چکے ہیں اور باقی کو سال کے آخر تک وہاں پہنچا دیا جائے گا۔ روسی صدر نے مارچ میں اعلان کیا تھا کہ وہ اپنے قریبی اتحادی اور ہمسایہ ملک بیلاروس میں جوہری ہتھیار نصب کرنے والے ہیں۔
صدر لوکاشینکو نے ملک کے قومی دن کے موقع پر ایک خطاب میں کہا کہ بیلاروس میں ہتھیاروں کی تنصیب ان کا سب سے مضبوط اقدام تھا، ”جس طرح وقت گزرتا جا رہا ہے، میرا یہ یقین مزید پختہ ہوتا جا رہا ہے کہ ان ہتھیاروں کی تنصیب بیلاروس میں ہونی چاہیے اور وہ بھی محفوظ جگہ پر۔‘‘
ان کا اس موقع پر خطاب کرتے ہوئے کہنا تھا، ”مجھے یقین ہے کہ جب تک وہ (ہتھیار) یہاں ہیں ہمیں ان کا استعمال نہیں کرنا پڑے گا اور کوئی دشمن ہماری سرزمین پر قدم نہیں رکھے گا۔‘‘
لوکاشینکو بھی روس کی طرح بارہا مغربی ممالک پر الزام عائد کر چکے ہیں کہ وہ ان کی ریاست کو تباہ کرنے کی کوشش کر رہے ہیں اور یہ کہ ممکنہ جارحیت کو روکنے کے لیے جوہری ہتھیاروں تعیناتی ضروری ہے۔
دریں اثنا روس کے نائب وزیر خارجہ سرگئی ریابکوف نے کہا ہے کہ اس تعیناتی سے سن 1968 کے جوہری عدم پھیلاؤ کے معاہدے کی خلاف ورزی نہیں ہوئی کیونکہ روس کا ان ہتھیاروں پر کنٹرول برقرار ہے۔ ان کا روسی نیوز ایجنسی تاس سے گفتگو کرتے ہوئے کہنا تھا کہ روس کو ان ہتھیاروں کی تعیناتی پر ”مجبور‘‘ کیا گیا ہے۔
سن 1990ء کی دہائی کے وسط سے لے کر آج تک یہ ایسا پہلا واقعہ ہے کہ ماسکو کے جوہری ہتھیار روس کی قومی سرحدوں سے باہر نصب کیے گئے ہیں۔
1991ء میں سوویت یونین کی تقسیم کے بعد، جن تین نو آزاد ریاستوں میں سوویت جوہری ہتھیار نصب کیے گئے تھے، ان میں یوکرین اور قزاقستان کے علاوہ بیلاروس بھی شامل تھا۔
پھر 1992ء میں ان تینوں ریاستوں کی طرف سے یہ تمام جوہری ہتھیار واپس صرف روس میں ہی رکھنے کا فیصلہ کیا گیا تھا اور اس فیصلے پر عمل درآمد 1996ء میں مکمل ہو گیا تھا۔