اسلام آباد (ڈیلی اردو/وی او اے) افغان طالبان کے ترجمان ذبیح اللہ مجاہد نے اسلام آباد کے الزامات کی سختی سے تردید کرتے ہوئے پاکستان کی حدود میں دہشت گردی کے واقعات کو افغانستان سے جوڑنے کو حقائق کے خلاف قرار دیا ہے۔
برطانوی نشریاتی ادارے ’بی بی سی‘ کی پشتو سروس سے گفتگو میں طالبان کے ترجمان ذبیح اللہ مجاہد نےکہا کہ دوحہ امن معاہدہ پاکستان کی حکومت کے ساتھ نہیں بلکہ امریکہ کے ساتھ ہوا تھا۔
ښاغلی مجاهد وايي، که د پاکستان حکومت ورسره شواهد شریک کړي، د پاکستاني طالبانو پرضد به ګامونه واخلي او زیاتوي چې په دې اړه یې "پاکستاني لوري ناستې هم کړې دي."https://t.co/pcl1uciWlb
— BBC Pashto (@bbcpashto) July 15, 2023
ذبیح اللہ مجاہد کا کہنا تھا کہ پڑوسی ملک ہونے کے ناطے پاکستان کے ساتھ مکمل تعاون جاری ہے۔
انہوں نے ایک بار پھر کہا کہ اس بات کی قطعی اجازت نہیں دی جائے گی کہ افغانستان کی سر زمین کو استعمال کرتے ہوئے پاکستان کو نقصان پہنچایا جائے۔
ذبیح اللہ مجاہد کا یہ بیان ایک ایسے وقت میں سامنے آیا ہے جب پاکستان کے وزیرِ دفاع خواجہ آصف نے ہفتے کو ایک ٹوئٹ میں کہا تھا کہ افغانستان ہمسایہ اور برادر ملک ہونے کا حق ادا نہیں کر رہا اور نہ ہی دوحہ معاہدے کی پاسداری کر رہا ہے۔
ایک بیان میں خواجہ آصف نےیہ بھی کہا تھا کہ گزشتہ چار یا پانچ دہائیوں سے 50 سے 60 لاکھ افغان باشندوں کو پاکستان میں تمام تر حقوق کے ساتھ پناہ میسر ہے لیکن اس کے برعکس پاکستانیوں کا خون بہانے والے دہشت گردوں کو افغان سرزمین پر پناہ گاہیں میسر ہیں۔
جن لوگوں نے PTI کی حکومت میں اسمبلی میں آکر ممبران کو بریفنگ دی اور افغانستان سے TTP کو پاکستان لا کر بسانے کے فوائد بتاۓ اور پھر جزاروں کو لے آۓ۔ وہ لوگ آج روزانہ شہید ھونے والوں کے وارثوں کو بھی کچھ بتائیں ۔ یہی لوگ تھے جنہوں نے 2018 میں عمران خان کا پراڈکٹ لانچ کیا اور اس…
— Khawaja M. Asif (@KhawajaMAsif) July 15, 2023
اس کے ساتھ ساتھ وزیرِ دفاع خواجہ آصف نے بھی کہا ہے کہیہ صورتِ حال مزید جاری نہیں رہ سکتی، پاکستان اپنی سرزمین اور شہریوں کے تحفظ کے لیے تمام وسائل بروئے کار لاۓگا۔
گزشتہ ہفتے بلوچستان میں دہشت گردی کی کارروائیوں میں 12 سیکیورٹی اہلکاروں کی ہلاکت پر پاکستان کی فوج کی اعلیٰ قیادت نے بھی افغانستان میں تحریکِ طالبان پاکستان کی مبینہ پناہ گاہوں پر تشویش کا اظہار کیا تھا۔
فوج کے شعبۂ تعلقات عامہ (آئی ایس پی آر) نے ایک بیان میں متنبہ کیا تھا کہ اس طرح کے حملے ناقابل برداشت ہیں اور ان کی روک تھام کے لیے مؤثر جوابی کارروائی کی جائے گی۔
بلوچستان کے علاقے ژوب میں فوجی چھاؤنی پر حملے کے بعد پاکستان کی افغانستان میں کارروائی کے امکان پر ذبیح اللہ مجاہد نے کہا کہ پاکستان کو چاہیے کہ فوج، پولیس اور دیگر اداروں کی مدد سے ملک میں ہونے والی کارروائیوں کو روکے۔
ذبیح اللہ مجاہد کا کہنا تھا کہ پاکستان میں دہشت گردی کی کارروائیوں کے لیے افغانستان کو موردِ الزام ٹہرانا مناسب نہیں ہے۔
طالبان کے ترجمان نے پاکستانی اداروں پر تنقید کرتے ہوئے کہا کہ اکثر جب سیکیورٹی ادارے اپنی ذمہ داری نبھانے میں ناکام ہو جاتے ہیں تو لوگوں کی توجہ ہٹانے کے لیے دوسروں پر ذمہ داری ڈال دی جاتی ہے۔
انہوں نے کہا کہ اگر پھر بھی پاکستان کی حکومت کوئی تجاوز کرتی ہے تو افغانستان کو دفاع کا حق حاصل ہے۔
ذبیح اللہ مجاہد نے کہا کہ افغانستان میں ٹی ٹی پی کا کوئی بھی فعال مرکز نہیں ہے اور نہ ہی سرحد پار دہشت گردی کی کارروائیوں کے لیے افغان سرزمین استعمال کرنے کی اجازت ہے۔
پشاور یونیورسٹی میں شعبہ ابلاغ عامہ سے منسلک پروفیسر ڈاکٹر سید عرفان اشرف کہتےہیں کہ دہشت گردوں کے پاس وہ بنیادی وسائل موجود ہیں جن کی بنیاد پر وہ حساس مقامات پر حملہ آور ہوتے ہیں۔
وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے ڈاکٹر سید عرفان نےکہاکہ افغانستان میں اشرف غنی کی حکومت کے خاتمے کے بعد ٹی ٹی پی کے جنگجوؤں کی جیلوں سے آزادی کے حوالے سے اسلام آباد کو اپنے تحفظات افغان طالبان کے سامنے لانے چاہیے تھے لیکن ایسا نہیں ہو سکا۔
ان کا مزید کہنا تھا کہ ایک ایسے وقت میں جب افغانستان میں اشرف غنی کی حکومت داعش اور طالبان کے خلاف لڑ رہی تھی، ایسے میں ٹی ٹی پی کے جنگجوؤں کا افغانستان میں پناہ لینا آسان نہیں تھا۔اسی طرح 2014 میں پاکستان کی فوج کے آپریشن ضربِ عضب اس بات کا ثبوت ہے کہ کس طرح فوج نے دہشت گردوں کا مکمل صفایا کیا۔
مبصرین کا کہنا ہے کہ افغان طالبان کے اقتدار میں آنے کے حوالے سے پاکستان کے اندازے بھی ایک کے بعد ایک غلط ثابت ہو رہے ہیں۔
انسٹیٹیوٹ آف پالیسی اسٹڈیز سے منسلک دفاعی تجزیہ کار بریگیڈیئر (ر) سید نذیر احمد کا وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے کہنا تھا کہ سرحد سے ملحق علاقوں میں ٹی ٹی پی کے جنگجوؤں کی پناہ گاہیں ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ طالبان حکومت کے پہلے سال پاکستان کے اندر دہشت گردی کے واقعات میں 57 فیصد اور دوسرے سال میں یہ مزید بڑھ کر 79 فیصد تک پہنچ گئے ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ اب دہشت گردی کے واقعات میں نشانہ سیکیورٹی فورسز ہوتی ہیں۔
گزشتہ ماہ ٹی ٹی پی نے بھی اعداد و شمار جاری کیے تھے اور دعویٰ کیا تھا کہ رواں سال کے ابتدائی چھ ماہ کے دوران اس نے 305 حملے کیے۔
بریگیڈیئر (ر) سید نذیر احمد کے بقول ایسے حالات میں جب طالبان سرحد سے متصل باڑ ھ اور بین الاقوامی سرحد کو بھی نہیں مانتے تو ایسے میں پاکستان کو اپنی افغان پالیسی کا از سر نو جائزہ لینا ہو گا۔