سرینگر (ڈیلی اردو/اے ایف پی) بھارت کے زیرِ انتظام کشمیر میں جنگجوؤں کے ساتھ جھڑپ کے دوران 3 فوجی ہلاک ہوگئے۔
#ChinarCorps Cdr & all ranks paid homage to Hav Babulal Haritwal, Sigmn Vala Mahipalsinh Pravinsinh & Rfn Waseem Sarwar who made the supreme sacrifice in the line of duty in Op Halan, #Kulgam in a firefight with terrorists on 04 Aug 23.
Our deepest condolences to the bereaved… pic.twitter.com/EqHHEE2xIs
— Chinar Corps???? – Indian Army (@ChinarcorpsIA) August 6, 2023
تفصیلات کے مطابق پولیس کے مطابق جنوبی وادی ہالان کے جنگلات میں کشمیری جنگجوؤں کی تلاش میں فوج گشت کر رہی تھی کہ جمعہ کی رات گئے جنگجوؤں کے ساتھ جھڑپ کے دوران فائرنگ کے تبادلے میں 3 اہلکار زخمی ہو گئے۔
#ChinarCorps Commander & all ranks pay homage to Hav Babulal Haritwal, Sigmn Vala Mahipalsinh Pravinsinh & Rfn Waseem Sarwar who made the supreme sacrifice in the line of duty in Operation Halan, #Kulgam in a firefight with #terrorists on Aug 4, on Sunday. @ChinarcorpsIA… pic.twitter.com/i0ii4kFbFV
— Rising Kashmir (@RisingKashmir) August 6, 2023
پولیس نے سماجی رابطے کی ویب سائٹ ٹوئٹر پر جاری اپنے بیان میں کہا کہ تینوں زخمی اہلکار بعد میں دم توڑ گئے، کشمیری جنگجوؤں کی تلاش کے لیے سرچ آپریشن جاری تھا۔
#KulgamEncounterUpdate: Three (03) jawans got injured in the #encounter. They are being evacuated to hospital for treatment. Search in the area intensifies. Further details shall follow.@JmuKmrPolice https://t.co/Wq0ND6GSZr
— Kashmir Zone Police (@KashmirPolice) August 4, 2023
اگست 2019 کے بعد سے کشمیریوں اور سرکاری فورسز کے درمیان جھڑپوں میں نمایاں کمی آئی ہے، جب وزیر اعظم نریندر مودی کی حکومت نے مسلم اکثریتی خطے کی محدود خود مختاری کو ختم کر دیا تھا۔
حکومت کی اس توقع کے برعکس کہ یہ اقدام جنگ زدہ خطے میں امن اور ترقی کو یقینی بنائے گا، گزشتہ 4 برسوں کے دوران تقریباً 900 افراد ہلاک ہو چکے ہیں جن میں بھارتی سیکیورٹی فورسز کے 144 اہلکار بھی شامل ہیں۔
سال کے آغاز سے اب تک کم از کم 63 افراد مارے جاچکے ہیں جن میں 9 عام شہری، 16 سرکاری اہلکار اور 38 کشمیری جنگجو شامل ہیں۔
نوجوانوں کی جانب سے ان کشمیری گروپوں میں شمولیت کا سلسلہ جاری ہے جو کئی دہائیوں سے خطے کی آزادی یا اس کے پاکستان کے ساتھ الحاق کا مطالبہ کر رہے ہیں اور اس کے لیے لڑ رہے ہیں۔
بھارت کی اعلیٰ ترین عدالت میں یہ معاملہ اس وقت زیر غور ہے کہ کیا نریندر مودی کی حکومت کی جانب سے وادی کشمیر کی آئینی طور پر دی گئی نیم خودمختارانہ حیثیت کو معطل کرنے کا اقدام قانونی طور پر کام کیا۔
بھارتی حکومت کے اس اقدام کے بعد سے متنازع علاقے میں شہری آزادیوں میں بڑی کمی دیکھی گئی ہے، احتجاج پر پابندیاں ہیں اور صحافیوں کی جانب سے سرکاری طور پر ہراساں کیے جانے کی شکایت ہیں۔
مقامی پیپلز ڈیموکریٹک پارٹی (پی ڈی پی) کے کئی رہنماؤں کو راتوں رات حراست میں لے لیا گیا جب کہ حکام نے انہیں 2019 کے فیصلے کے 4 سال مکمل ہونے کے موقع پر اس کے خلاف احتجاج کی اجازت دینے سے انکار کر دیا۔
پی ڈی پی رہنما محبوبہ مفتی نے ٹوئٹر پر حراست میں لیے گئے پارٹی عہدیدار کی فوٹیج شیئر کرتے ہوئے کہا کہ ملک میں رائے عامہ کو دھوکا دینے کے لیے یہ سب کچھ کیا جا رہا ہے۔
اس موقع پر نظم و نسق برقرار رکھنے کے لیے سری نگر کے تجارتی اضلاع کے آس پاس سیکڑوں پولیس اور نیم فوجی دستوں کو تعینات کیا گیا تھا۔
یکجہتی کے اظہار کے لیے مظاہروں کے دوران سری نگر میں شہر کی دکانیں اکثر بند رہتی ہیں، لیکن شہر کے دکانداروں کی نمائندگی کرنے والی تجارتی انجمنوں کے 2 ارکان نے اپنا نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر ’اے ایف پی‘ کو بتایا کہ پولیس کی جانب سے دکانداروں کو زبانی طور پر ہدایت کی گئی کہ وہ دن بھر دکانیں کھلی رکھیں۔