سعودی یمن سرحد پر حوثی باغیوں کے حملے میں دو بحرینی فوجی ہلاک

ریاض + صنعا (ڈیلی اردو/ڈی پی اے/نیوز ایجنسیاں) حوثی باغیوں نے ابھی تک اس ڈرون حملے کی ذمہ داری قبول نہیں کی ہے جبکہ سعودی عرب کی قیادت والے اتحاد کا کہنا ہے کہ وہ اس حملے کا جواب دینے کے اپنے حق کو محفوظ رکھتا ہے۔

بحرین کی فوجی کمان نے یمن کے حوثی جنگجوؤں پر سعودی عرب اور یمن کے ساتھ جنوبی سرحد پر ڈرون حملے میں دو بحرینی فوجیوں کو ہلاک کرنے کا الزام عائد کیا ہے۔

بحرین کی فوج نے اپنے ایک بیان میں کہا کہ اس حملے میں بحرین کے متعدد فوجی زخمی بھی ہوئے ہیں۔ اس بیان کو بحرین کی سرکاری نیوز ایجنسی نے پیر کے روز نشر کیا، تاہم زخمی ہونے والے فوجیوں کی صحیح تعداد جاری نہیں کی گئی۔

بحرینی فوج کے بیان میں کہا گیا ہے: ”یہ دہشت گردانہ حملہ حوثیوں نے کیا ہے، جنہوں نے یمن میں متحارب فریقوں کے درمیان فوجی کارروائیوں کو روکنے کے باوجود، سعودی عرب کے ساتھ یمن کی جنوبی سرحد پر بحرین کے گارڈز کی پوزیشن کو نشانہ بنانے کے لیے طیارے بھیجے۔”

جزیرہ نما ملک بحرین سعودی عرب کا قریبی اتحادی ہے اور وہ بھی یمن میں ایرانی حمایت یافتہ حوثی جنگجوؤں کے ساتھ کئی برسوں سے حالت جنگ میں ہے۔

حوثی باغیوں نے فوری طور پر اس حملے کا اعتراف نہیں کیا اور نہ ہی ان کی جانب سے چلائے جانے والے میڈیا اور سوشل میڈیا آپریشنز پر حملے کا کوئی ذکر کیا گیا ہے۔

واضح رہے کہ اس جنگجو گروپ کے مذاکرات کاروں نے حال ہی میں یمن میں تنازع کے خاتمے کی راہ ہموار کرنے کے لیے سعودی عرب کے حکام کے ساتھ بات چیت بھی کی تھی تاکہ مستقل جنگ بندی کے کسی ممکنہ معاہدے پر پہنچا جا سکے۔

ابھی یہ واضح نہیں ہے کہ کیا اس ڈرون حملے میں بحرینی فوجیوں کی ہلاکت سے یہ امن مذاکرات پٹری سے اتر جائیں گے یا پھر بات چیت جاری رہے گی۔

سعودی عرب کے زیرقیادت اتحاد نے حوثی جنگجوؤں کو خبردار کیا ہے کہ ”اس طرح کے بار بار معاندانہ اور اشتعال انگیز اقدامات بحران کے خاتمے اور ایک جامع سیاسی حل تک پہنچنے کے لیے کی جانے والی مثبت کوششوں کے عین برعکس ہیں۔”

اتحاد نے کہا ہے کہ وہ اس کا ”مناسب وقت اور جگہ پر جواب دینے کا اپنا حق محفوظ رکھتا ہے۔”

بین الاقوامی سطح پر تسلیم شدہ یمن کی حکومت نے پیر کے روز ڈرون حملے کی مذمت کی تھی۔ وزیر خارجہ احمد بن مبارک نے کہا کہ انہوں نے بحرین کے چیف ڈپلومیٹ عبداللطیف الزیانی سے فون پر بات کی اور بحرین کے ساتھ تعزیت اور یکجہتی کا اظہار کیا۔

مبصرین کے مطابق یہ حملہ اس بات کا عکاس ہے کہ بات چیت کے باوجود فرنٹ لائن پر معمول کی کشیدگی اب بھی برقرار ہے۔

ایرانی حمایت یافتہ حوثی باغی سن 2015 سے ہی سعودی عرب کے زیرقیادت فوجی اتحاد کے خلاف بر سر پیکار ہیں۔ اس تنازعے میں اب تک لاکھوں افراد ہلاک ہو چکے ہیں اور اس کی وجہ سے یمن کی 80 فیصد آبادی اب انسانی امداد پر منحصر ہے۔

یمن کی جنگ سن 2014 میں شروع ہوئی تھی، جب حوثی باغیوں نے اپنے شمالی گڑھ سے نیچے اتر کر دارالحکومت صنعا اور ملک کے شمال کے بیشتر حصے پر قبضہ کر لیا تھا۔ اس کے جواب میں، سعودی عرب کی قیادت میں اتحاد نے سن 2015 میں بین الاقوامی سطح پر تسلیم شدہ حکومت کو اقتدار میں بحال کرنے کی کوشش کی۔

پھر یہ لڑائی جلد ہی سعودی عرب اور ایران کے درمیان تعطل کی وجہ سے پراکسی جنگ میں بدل گئی، جس سے یمن میں بڑے پیمانے پر بھوک اور بدحالی پھیلتی گئی۔ اس تنازع سے پہلے بھی یمن عرب دنیا کا غریب ترین ملک تھا۔

Share on Social

اپنا تبصرہ بھیجیں