اسلام آباد + پشاور (ڈیلی اردو/بی بی سی) صوبہ خیبر پختونخوا کے قبائلی ضلع کرم کے ہیڈ کوارٹر پاراچنار اور اردگرد کے علاقوں میں ایک ہفتہ قبل زمین کے تنازعے پر شروع ہونے والی پرتشدد جھڑپوں میں حکومتی دعووں کے برعکس کمی نہیں آ سکی ہے اور طبی ذرائع کے مطابق اتوار کو ان جھڑپوں میں مزید چھ افراد کی ہلاکت ہوئی ہے۔
طبی ذرائع کے مطابق چند روز سے جاری ان جھڑپوں میں اب تک 30 افراد ہلاک جبکہ 70 زخمی ہوئے ہیں اور پاراچنار ہسپتال میں اس وقت بھی 25 زخمی موجود ہیں۔
صوبہ خیبر پختونخوا کی نگران حکومت کے وزیرِ اطلاعات فیروز جمال کاکا خیل نے اتوار کو بی بی سی سے بات کرتے ہوئے کہا تھا کہ زمین کے تنازع پر تصادم کے بعد جرگے کے ذریعے مذاکرات کامیاب ہوگئے ہیں اور جلد صورتحال پر قابو پا لیا جائے گا۔
ان کا کہنا تھا کہ ضلع کرم اور پاراچنار میں حالات کو کنٹرول کرنے کے لیے پولیس اور دیگر سکیورٹی حکام کو تعینات کیا گیا تھا تاہم ’مذاکرات اور جرگے کا راستہ کامیاب ہوا۔‘ ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ حالات معمول قابو میں آنے پر موبائل اور انٹرنیٹ سروسز بحال کر دی جائیں گی۔
تاہم میڈیا سیکرٹری انجمن فاروقیہ پاراچنار عطاء اللہ نے صحافی زبیر خان سے بات کرتے ہوئے کہا کہ لوئر کرم اور پاراچنار میں جرگے کے باوجود ابھی تک لڑائی ختم نہیں ہوئی اور اتوار کی شب اور پیر کی صبح بھی متحارب گروپوں نے ایک دوسرے پر حملے کیے ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ ان کے پاس دستیاب معلومات کے مطابق ’لوگ محصور ہیں جبکہ خواتین، بچے اور بزرگ بہت زیادہ متاثر ہیں۔ کچھ علاقوں میں اشیائے خوردونوش کی قلت پیدا ہوچکی ہے جبکہ لڑائی میں زخمی ہونے والوں کو بھی ابتدائی طبی امداد ملنا مشکل ہو رہا ہے۔‘
سابق وفاقی وزیر ساجد طوری نے پیر کو بی بی سی کے نامہ نگار عزیز اللہ خان کو بتایا کہ اتوار کی شب تک جنگ بندی کے لیے کوششیں کی گئیں جن کے نتیجے میں بوشہرہ اور دولت خیل کے علاقوں میں فائرنگ کا سلسلہ رک گیا تھا لیکن اپر کرم کے علاقوں میں کشیدگی برقرار ہے اور بعض علاقوں سے اب بھی فائرنگ کی اطلاعات موصول ہو رہی ہیں۔
مقامی لوگوں کے مطابق زمین کی ملکیت سے شروع ہونے والا جھگڑا اب بظاہر فرقہ وارانہ تصادم میں تبدیل ہو چکا ہے اور سنیچر اور اتوار کی درمیانی شب بلش خیل، خارکلے، بوشہرہ، کنج علیزئی، تری منگل، مقبل اور پاراچنار کے علاقوں میں متحارب گروپوں کے درمیان فائرنگ کا تبادلہ جاری رہا تھا۔
ساجد طوری کا کہنا تھا کہ اس وقت جنگ بندی کے لیے دو علیحدہ علیحدہ کمیٹیاں مذاکرات کر رہی ہیں۔ ’سول انتظامیہ اور اورکزئی قبیلے کے مشران کے کچھ لوگ اس وقت صدہ میں موجود ہیں اور بات چیت ہو رہی ہے جبکہ اورکزئی قبیلے کے کچھ مشران اس وقت میرے ساتھ بھی موجود ہیں‘۔
انھوں نے بھی دعویٰ کیا کہ ’کرم میں حالیہ جھڑپوں میں 20 سے زیادہ افراد ہلاک اور 50 سے زیادہ زخمی ہوئے ہیں تاہم اصل اعدا د و شمار اس وقت معلوم ہو سکیں گی جب علاقے میں مکمل امن قائم ہو جائے اور فائرنگ کا سلسلہ رک جائے‘۔
ضلع کرم میں تین مہینے پہلے بھی مختلف قبائل کے درمیان جھڑپیں ہوئی تھیں جس میں جانی نقصانات ہوئے تھے اور ہھر امن کمیٹیوں کے ذریعے امن قائم کر دیا گیا تھا۔
حالیہ جھڑپوں کے بعد ضلع کرم کے داخلی اور خارجی راستے بند ہیں۔ علاقے میں نیم فوجی دستوں کے اہلکار فرائض انجام دے رہے ہیں جبکہ انٹرنیٹ اور موبائل سروس بھی گزشتہ تین روز سے بند ہے۔ علاقے میں شدید تصادم کے باعث عام لوگ متاثر ہو رہے ہیں۔
’فائرنگ اور دھماکوں سے بچے اور خواتین خوف کے عالم میں ہیں‘
پاراچنار میں موجود ایک متاثرہ شخص نے صحافی زبیر خان کو بتایا کہ صورتحال انتہائی گھمبیر ہے۔ سارے علاقے میں فائرنگ اور دھماکوں کی آوازیں آ رہی ہیں۔ بچے اور خواتین خوف کے عالم میں ہیں۔
’میرے بزرگ والد کی ادوایات ختم ہو چکی ہیں اور ہم باہر جا کر وہ بھی نہیں لاسکتے ہیں۔ کرفیو کا اعلان تو نہیں ہوا ہے مگر ہم باہر نہیں نکل سکتے ہیں۔ تمام مارکیٹیں اور دکانیں بند ہیں۔‘
پاراچنار سے تعلق رکھنے والے پشاور میں مقیم ایک سرکاری ملازم کے مطابق اس وقت لوئر کرم کا تقریباً سارا علاقہ ہی میدان جنگ بنا ہوا ہے۔
’دونوں گروپ ایک دوسرے کی جان کے دشمن ہو چکے ہیں۔ دونوں اطراف سے ایک دوسرے کے گاؤں اور علاقوں پر بھاری اسلحے سے فائرنگ کی جا رہی ہے۔ جس سے عام لوگ بہت متاثر ہو رہے ہیں۔‘
ان کا مزید کہنا تھا کہ ’اس ساری صورتحال میں ہمارے اہل خانہ گھروں میں بند ہو کر رہ گئے ہیں۔ وہ اپنے کمروں سے بر آمدوں تک بھی نہیں آسکتے ہیں کہ فائر کی ہوئی گولیاں ہماری آبادی اور گھروں سے گزر رہی ہیں۔‘
’علاقے کے سارے بازار بند ہیں۔ اکثر گھروں میں ضروری اشیاء خوردونوش بھی ختم ہو چکی ہیں۔ علاقے میں موبائل فون اور انٹرنیٹ بند ہونے سے بھی لوگ انتہائی مشکلات کا شکار ہیں۔‘
ان کا کہنا تھا کہ ’میرے اہل خانہ سمیت کئی لوگ علاقہ چھوڑنا چاہتے ہیں مگر خارجی راستے بند ہونے اور ٹرانسپورٹ کے علاوہ پیٹرول، ڈیزل دستیاب نہ ہونے کی وجہ سے وہ علاقہ بھی نہیں چھوڑ پا رہے ہیں۔ انتظامیہ اور حکومت کو چاہیے کم از کم وہ اتنا تو کرے کہ لوگ اگر علاقہ چھوڑنا چاہتے ہیں تو بحاظت چھوڑ سکیں۔‘
زمین کی ملکیت پر تنازع پرتشدد تصادم میں کیسے بدلا؟
مقامی افراد سے حاصل کردہ معلومات کے مطابق ضلع کرم میں چند ماہ سے کشیدگی جاری ہے۔ اس تصادم کا آغاز زمین کے ایک ٹکڑے کی ملکیت پر تنازعے سے ہوا تھا۔ اس حالیہ تصادم سے پہلے بھی کئی لوگ مارے جا چکے ہیں۔
زمین کی ملکیت پر تنازعے سے متعلق اس وقت ایک جرگہ بھی ہوا اور دونوں گروپوں کے درمیان فائر بندی ہوئی مگر بعدازاں یہ تنازع فرقہ واریت کی طرف بڑھتا گیا۔
جرگے میں ہونے والے معاہدے میں کہا گیا تھا کہ امن وامان کی صورتحال خراب کرنے کی کسی کو بھی اجازت نہیں دی جائے گی اور لوگ حکومت کے ساتھ تعاون کریں گے۔ معاہدے کی خلاف ورزی کی صورت میں 12 کروڑ روپے جرمانے کا فیصلہ بھی کیا گیا تھا۔
حالیہ تصادم کا آغاز ایک گروہ کی جانب سے دوسرے گروہ کے خلاف دھرنوں اور مظاہروں کے بعد ہوا ہے جس میں پہلے ایک مزدور کی ہلاکت ہوئی اور اس کے بعد ایک اور شخص اور پھر گاڑی پر فائرنگ کا واقعہ پیش آیا جس کا الزام دونوں گروپوں نے ایک دوسرے پر عائد کیا۔
ضلع کرم میں فرقہ ورانہ فسادات اور لڑائیوں کی تاریخ طویل ہے۔ برصغیر کی تقسیم کے بعد اس خطے میں تقریباً ہر 10 سال کے بعد بڑے فسادات رونما ہوئے جس میں 1961، 1971، 1987، 1996 اور 2007 شامل ہے۔
سنہ 2007 میں شروع ہونے والے فسادات اپنی تاریخ کے بدترین فسادات کہے جاتے ہیں جو کہ 2010 اور 2011 میں بھی جاری رہے تھے۔
عمومی طور پر ان فسادات کا اختتام بڑے پیمانے پر جانی و مالی نقصانات کے بعد قبائل کے مابین جرگوں کے ذریعے ہی سے ہوا تھا۔