تل ابیب (ڈیلی اردو) اسرائیلی افواج نے کہا ہے کہ انھوں نے غزہ میں حماس کے سربراہ اسماعیل ہنیہ کے گھر پر حملہ کیا ہے۔
ایکس پر اسرائیلی فوج نے کہا ہے کہ انھوں بدھ کی رات کو لڑاکا طیاروں سے حماس کے سربراہ کے گھر کو نشانہ بنایا ہے۔
Overnight, IDF fighter jets struck the residence of Ismail Haniyeh, the Head of Hamas’ Political Bureau.
The residence was used as terrorist infrastructure and a meeting point for Hamas’ senior leaders to direct terrorist attacks against Israel. pic.twitter.com/kljYYN6O0U
— Israel Defense Forces (@IDF) November 16, 2023
اسرائیلی فوج کا کہنا ہے کہ اسماعیل ہنیہ کا گھر دہشتگردانہ کارروائیوں کے انفراسٹرکچر کے طور پر استعمال ہو رہا تھا اور یہاں حماس کے سینیئر رہنماؤں کے اجلاس بھی ہوتے تھے۔
اسماعیل ہنیہ کے بارے میں خیال کیا جاتا ہے کہ وہ حماس کے تمام امور کے سربراہ ہیں۔ عام طور پر انھیں سیاسی سربراہ کہا جاتا ہے۔ انھیں سنہ 2017 میں حماس کے سیاسی شعبے کا سربراہ منتخب کیا گیا تھا۔
وہ گذشتہ کئی برسوں سے قطر میں ہی رہ رہے ہیں۔
وہ 1980 کی دہائی میں حماس کے سرگرم رہنما تھے اور تین سال کے لیے اسرائیل نے انھیں قید بھی رکھا۔
غزہ واپس آنے سے قبل انھوں نے ایک برس باہر ہی گزارا۔ سنہ 1997 میں وہ حماس کے مذہبی شعبے کے سربراہ منتخب ہو گئے۔
اسماعیل ہنیہ سنہ 2006 میں فسلطین کے وزیراعظم منتخب ہوئے۔ انھوں نے صدر محمود عباس کے ساتھ کام کیا۔ انھیں صرف ایک سال بعد اس عہدے سے برطرف کر دیا گیا۔ ان کی برطرفی کی وجہ حماس کی طرف سے غزہ کی پٹی سے خونریز جھڑپوں کے بعد صدر محمود عباس کی فتح پارٹی کو بے دخل کرنا بنی۔
اسماعیل ہنیہ نے اپنی برطرفی کو غیرآئینی قرار دیا۔ انھوں نے اس بات پر زور دیا کہ ان کی حکومت فلسطین کے لوگوں کو تنہا نہیں چھوڑے گی اور اپنی ذمہ داریاں ادا کرتی رہے گی۔ اپنی برطرفی کے باوجود حماس غزہ پر حکومت کر رہی ہے۔
اسرائیلی حکومت کے مطابق حماس کے سات اکتوبر کے حملے میں 1200 لوگ ہلاک ہوئے تھے جبکہ عسکریت پسند تنظیم حماس نے، جسے امریکہ نے دہشت گرد گروہ قرار دیا ہے، 240ے قریب لوگوں کو یرغمال بنا لیا تھا۔
دوسری طرف غزہ میں اسرائیلی کارروائیاں جاری ہیں اور اب تک حماس کے زیر انتطام وزارت صحت کے مطابق 11, 500 سے زیادہ لوگ ہلاک ہو چکے ہیں جبکہ ناکہ بندی کے باعث لوگوں کو خوراک اور ادویات کی قلت کا سامنا ہے۔ اس کے علاوہ لوگوں کی ایک بڑی تعداد لڑائی میں اپنا گھر بار چھوڑنے پرمجبور ہوئی ہے۔