18

داعش میں شامل ہونے والی شمیمہ بیگم اپنی برطانوی شہریت سے محروم

لندن (ڈیلی اردو/وی او اے/رائٹرز) برطانوی نژاد شمیمہ بیگم کے لیے، جو 15 سال کی عمر میں داعش میں شامل ہونے کے لیے شام گئی تھیں، جمعے کو برطانوی شہریت کے خاتمے کے خلاف ان کی تازہ ترین اپیل میں شہریت واپس لینے کے اپنے فیصلے کو برقرار رکھا گیا ہے۔

برطانوی حکومت نے 2019 میں قومی سلامتی سے متعلق خدشات کی بنیاد پر شمیمہ بیگم کو برطانوی شہریت سے اس وقت محروم کر دیا، جب ان کے بارے میں پتہ چلا کہ وہ شام کے ایک حراستی کیمپ میں ہیں۔

شمیمہ کے وکلاء کا، جو اب 24 سال کی ہیں، استدلال تھا کہ یہ فیصلہ غیر قانونی ہے، جزوی طور پر اس لیے کہ برطانوی حکام مناسب طریقے سے اس پہلو پر غور کرنے میں ناکام رہے تھے کہ آیا وہ انسانی اسمگلنگ کا شکار ہوئی تھیں، تاہم فروری 2023 میں ایک نچلی عدالت نے ان کے وکلا کی اس دلیل کو مسترد کر دیا تھا۔

اس کے بعد اکتوبر میں لندن میں اپیل کورٹ میں اس فیصلے کے خلاف کی جانے والی اپیل کو عدالت نے 23 فروری (جمعہ) کو مسترد کر دیا۔

جج سو کار نے کہا کہ یہ دلیل دی جا سکتی ہے کہ شمیمہ بیگم کے کیس میں فیصلہ سخت تھا۔ یہ بھی دلیل دی جا سکتی ہے کہ شمیمہ بیگم اپنی بدقسمتی کی (کہانی) کی خود مصنف ہیں۔

انہوں نے کہا، “لیکن یہ اس عدالت کے لیے نہیں ہے کہ وہ کسی بھی نقطہ نظر سے اتفاق کرے یا اس سے اختلاف کرے۔ ہمارا کام صرف اس بات کا جائزہ لینا ہے کہ آیا محرومی کا فیصلہ غیر قانونی تھا؟”

بقول عدالت کے “ہم نے نتیجہ اخذ کیا ہے کہ ایسا نہیں تھا اور اپیل خارج کر دی گئی ہے۔”

شمیمہ کے وکلاء اور برطانوی حکومت کا موقف

وزارت داخلہ کے ترجمان نے کہا کہ “ہماری ترجیح برطانیہ کی حفاظت اور سلامتی کو برقرار رکھنا ہے اور ہم ایسا کرنے کیلئے کیے جانے والے،کسی بھی فیصلے کا بھرپور دفاع کریں گے۔”

شمیمہ بیگم کے وکلاء نے برطانیہ سے مطالبہ کیا کہ وہ انہیں اور شام میں باقی رہنے والے دیگر افراد کو وطن واپس لے، اور ایسا کرنے سے انکار کو “شرمناک” قرار دیا۔

ان کے ایک وکیل گیرتھ پیئرس نے نامہ نگاروں کو بتایا کہ “دیگر ہر ملک نے اپنے شہریوں کو واپس لے لیا ہے ۔ جن میں فرانس، جرمنی، بیلجیئم، امریکہ، کینیڈا، آسٹریلیا شامل ہیں”۔

انہوں نے کہا اگر مقابلہ کیا جائےتو ہر ملک نے دیکھا ہے کہ اپنے شہریوں کو واپس لینے کے علاوہ کوئی چارہ نہیں ہے۔ بقول ان کے”برطانیہ اب عملی طور پر تنہا کھڑا ہے۔”

انسانی حقوق کی تنظیم رائٹس اینڈ سیکیورٹی انٹرنیشنل کے مطابق، برطانیہ دسمبر 2019 کے بعد سے اب تک 17 افراد کو وطن واپس بھیج چکا ہے۔

بیگم کے ایک اور وکیل ڈینیل فرنر نے کہا: ” میں شمیمہ اور اس کے خاندان سے معذرت خواہ ہوں کہ پانچ سال کی جدو جہد کے بعد بھی اسے برطانوی عدالت میں انصاف نہیں ملا ۔”

اس سے وعدہ کیا کہ جب تک اسے انصاف نہیں مل جاتا اور جب تک وہ بحفاظت گھر واپس نہیں آتی ہم لڑائی بند نہیں کریں گے۔

شمیمہ بیگم کا کیس گرما گرم بحث کا موضوع

جمعہ کا فیصلہ ایک طویل عرصے سے جاری قانونی جنگ کا تازہ ترین باب ہے، پیئرس نے کہا ہے کہ اپیل کی اجازت لینے کے بارے میں فیصلہ کرنے سے پہلے انہں فیصلے کو صحیح طریقے سے پڑھنے کے لیے وقت درکار ہے۔

2020 میں، اپیل کورٹ نے فیصلہ دیا تھا کہ بیگم کو برطانیہ واپس آنے کی اجازت دی جائے تاکہ ان کی شہریت کے خاتمے کو منصفانہ طور پر چیلنج کیا جا سکے۔ لیکن اگلے سال سپریم کورٹ نے اس فیصلے کو کالعدم قرار دے دیا۔

شمیمہ بیگم کا کیس ان لوگوں کے درمیان گرما گرم بحث کا موضوع رہا ہے جو یہ استدلال کرتے ہیں کہ اس نے اپنی مرضی سے دہشت گرد گروپ میں شمولیت اختیار کی تھی اور دوسرے جو کہتے ہیں کہ جب وہ وہاں سے چلی گئیں تو وہ بچی تھی، یا اسے برطانیہ میں کسی بھی مبینہ جرائم کے لیے انصاف کا سامنا کرنا چاہیے۔

شمیمہ نے 2015 میں، 15 سال کی عمر میں لندن چھوڑا، اور اسکول کی دو دوستوں کے ساتھ شام کا سفر کیا، جہاں انہوں نے داعش کے ایک جنگجو سے شادی کی اور تین بچوں کو جنم دیا، جو سب شیر خواری کی عمر میں انتقال کر گئے۔

بیگم 2019 سے الروز کیمپ میں ہزاروں دیگر غیر ملکی خواتین اور بچوں کے ساتھ مقیم ہیں۔

Share on Social

اپنا تبصرہ بھیجیں