کراچی میں فرقہ وارانہ ٹارگٹ کلنگ میں ملوث کالعدم زینبیون بریگیڈ کے دو دہشت گرد گرفتار

کراچی + اسلام آباد (بیورو رپورٹ/ش ح ط) کاؤنٹر ٹیررزم ڈیپارٹمنٹ (سی ٹی ڈی) سندھ نے صوبائی حکومت کراچی میں فرقہ وارانہ ٹارگٹ کلنگ میں ملوث ایرانی حمایت یافتہ کالعدم تنظیم زینبیون بریگیڈ کے دو دہشت گردوں کو گرفتار کرلیا۔

سی ٹی ڈی کے ڈپٹی انسپکٹر جنرل آصف اعجاز شیخ نے جمعرات کو پریس کانفرنس میں بتایا کہ گرفتار ملزمان وقار عباس اور حسین اکبر کا تعلق کالعدم عسکری تنظیم زینبیون بریگیڈ سے ہے۔

سی ٹی ڈی ہیڈ کوارٹرز میں بات کرتے ہوئے ڈی آئی جی آصف اعجاز شیخ نے کہا کراچی میں گذشتہ کچھ عرصے کے دوران ٹارگٹ کلنگ کے واقعات میں اچانک اضافہ ہوگیا تھا۔ قتل کے واقعات بظاہر ڈکیتی کے دوران مزاحمت کے لگ رہے تھے۔ جانچ کی تو معلوم ہوا کہ کراچی میں ایک مذہبی جماعت کے کارکنان کو ان کے فرقے کی بنیاد پر ٹارگٹ کیا گیا۔‘

آصف اعجاز شیخ کے مطابق: ’گرفتار ملزمان ایک ایسے نیٹ ورک کا حصہ ہیں، جنہیں بیرون ملک میں موجود ان کا ماسٹر مائنڈ سید حسین موسوی عرف مسلم چلاتا ہے۔ یہ ماسٹر مائنڈ اس نیٹ ورک کو ٹارگٹ کلنگ کی ہدایت دینے کے ساتھ فنڈنگ اور دیگر سہولت کاری فراہم کرتا ہے۔

’ہمیں تفتیش کے دوران معلوم ہوا ہے اس نیٹ ورک کے دو گروپ ہیں۔ ایک گروپ میں 21 دہشت گرد ہیں، جو ماسٹر مائنڈ کی جانب سے ٹارگٹ کلنگ کے لیے ملنے والے افراد کی مکمل ریکی کرکے تمام تفصیلات اس کو بھیجتے ہیں اور ماسٹر مائنڈ چار ارکان پر مشتمل ٹارگٹ کلنگ کرنے والے گروپ کو تصاویر اور دیگر معلومات بھیجتا ہے۔‘

آصف اعجاز شیخ کے مطابق گرفتار ملزمان سے اسلحہ، موٹر سائیکل اور ریکی لسٹ برآمد ہوئی۔ گرفتار ملزمان نے ٹارگٹ کلنگ کے 15 سے زائد افراد کی ریکی مکمل کرکے تفصیل اپنے ماسٹر مائنڈ کو بھیجی تھی۔

ڈی آئی جی سی ٹی ڈی آصف اعجازشیخ کے مطابق زینبیون بریگیڈ کا ماسٹر مائنڈ سید حسین موسوی عرف مسلم جو کہ اس وقت ہمسایہ ملک ایران میں مقیم ہے۔

’ملزمان نے دوران تفتیش اہل سنت والجماعت سے وابستہ اراکین سمیت 13 افراد کو ہلاک اور 11 کو زخمی کرنے کا اعتراف کیا ہے، ملزمان کا تعلق گلگت بلتستان سے ہے۔‘

گرفتار ملزمان نے مزید انکشاف کیا کہ ان کی تین ٹیمیں ٹارگٹ کلنگ میں ملوث ہیں، گرفتار ملزمان نے جن افراد کو ٹارگٹ کیا ان میں شیر محمد، قیصر فارقی، عدنان، معراج، حمد اسامہ، محمد سلیم، حبیب الرحمان، شعیب، سیف الرحمان، محمد ایوب، عبدالباری، سعد فاروقی اور محمد یامین الدین شامل ہیں۔

انھوں نے بتایا کہ اس نیٹ ورک کے سہولت کاری میں ملوث اور ریکی کرنے والوں میں سید صہیب عباس عرف وقار گلگتی، حیدر گلگتی، حیدر عرف راجو، عابد، اختر بوٹ والا، کمیل بخاری، عباس عرف مرتضیٰ عرف مصطفیٰ، مجتبیٰ، کوڈ نام گولڈ عرف گولڈن، سلمان گلگتی، علی عرف پمفلٹ، کوڈ نام موڈ، بلال، بلال گلگتی، فیصل گلگتی، کوڈ نام جھمپر، محمد، راشد، آفاق حیدر رضوی اور کوڈ نیم عثمان شامل ہیں۔ اس نیٹ ورک کی ٹارگٹ کلنگ ٹیم میں شامل ظفر گلگتی، انعام گلگتی، عقیل گلگتی اور محمد علی گلگتی شامل ہیں۔

آصف اعجاز شیخ کے مطابق اس وقت بھی زینبیون بریگیڈ کے شدت پسند کراچی سمیت صوبے بھر میں موجود ہیں۔

ڈی آئی جی آصف اعجاز شیخ نے کہا کہ کالعدم تنظیم اہل سنت والجماعت کے ارکان کے ہلاکت کے بعد سی ٹی ڈی انچارج مظہر مشوانی اور ان کی ٹیم کو ایک ٹاسک دیا گیا تھا جنہوں نے ان ہلاکتوں کے پیچھے ’زینبیون‘ گروپ کے ملوث ہونے کا پتا لگایا۔

اس موقع پر سی ٹی ڈی کے سینئر عہدیدار راجا عمر خطاب نے کہا کہ کراچی میں ستمبر 2023 سے فرقہ وارانہ قتل و غارت گری نے سر اٹھایا اور پتا چلا کہ ان ہلاکتوں کے پیچھے ایک گروہ کا ہاتھ ہے جس کے ارکان گلگت سے آتے ہیں اور ٹارگٹ کلنگ کرنے کے بعد واپس لوٹ جاتے ہیں۔

انہوں نے دعویٰ کیا کہ زینبیون بریگیڈ غیر ملکی ایجنسیوں کی طرح کام کرتی ہے، ہم اسے ’فرقہ وارانہ دہشت گردی‘ قرار دیتے ہیں کیونکہ اس میں صرف ایک گروہ ملوث ہے۔

واضح رہے کہ حکومتِ پاکستان نے رواں سال 29 مارچ کو زینبیون بریگیڈ’ نامی تنظیم کو دہشت گرد قرار دیا ہے۔ اس تنظیم پر ایران کی ایما پر پاکستان کے شیعہ نوجوانوں کو شام کی خانہ جنگی میں دھکیلنے کا الزام ہے۔

زینیبیون بریگیڈ پر پاکستان میں فرقہ وارانہ دہشت گردی کی کارروائیوں میں ملوث ہونے کے الزامات بھی لگتے رہے ہیں۔

وزارتِ داخلہ نے مذکورہ تنظیم کو ملک کی سلامتی اور امن و امان کے لیے خطرہ قرار دیا ہے۔

پاکستانی قانون نافذ کرنے والے اداروں کو خدشہ ہے کہ زینبیون بریگیڈ کے پاکستان واپس آنے والے ارکان ملک میں فرقہ وارانہ تشدد کی نئی لہر کو جنم دے سکتے ہیں۔

حالیہ سالوں میں کاؤنٹر ٹیررازم ڈیپارٹمنٹ سندھ (سی ٹی ڈی) نے دہشت گردی کے واقعات میں زینبیون بریگیڈ سے وابستہ متعدد ملزمان کو گرفتار کیا جاچکا ہے۔

رواں برس جنوری میں سی ٹی ڈی سندھ نے 2019 میں مذہبی اسکالر مفتی تقی عثمانی پر ہونے والے قاتلانہ حملے میں ‘دشمن’ انٹیلی جینس ایجنسی کے لیے کام کرنے والے اور زینبیون بریگیڈ سے منسلک ایک اہم دہشت گرد کو کراچی سے گرفتار کیا تھا۔

حکومتِ پاکستان ‘زینبیون بریگیڈ’ سے قبل دو غیر معروف تنظیموں کو پاکستانی شیعہ نوجوانوں کو لڑنے کے لیے بیرونِ ملک خصوصاً شام بھیجنے کے الزامات کے تحت پاپندی عائد کرچکی ہے۔

تنظیم زینبیون بریگیڈ کیسے وجود میں آئی؟

2000 میں شام میں صدر بننے والے بشار الاسد کے خلاف 2011 میں ہونے والے حکومت مخالف اور بےروزگاری، بدعنوانی اور سیاسی پابندیوں کے خلاف پرامن احتجاج نے جلد ہی کھلم کھلا خانہ جنگی کی شکل اختیار کر لی۔ شام کی جنگ کے کچھ عرصے بعد فرقہ واریت میں بٹ گئی اور سیرئن آبزرویٹری فار ہیوم رائٹس کے مطابق اس جنگ میں اب تک تقریباً چار لاکھ سے زائد تصدیق شدہ ہلاکتیں ہو چکی ہیں۔

شام میں جنگ چھڑنے کے بعد کئی ممالک کی شدت پسند تنظیموں نے شام کا رخ کیا۔ امریکی سکیورٹی اور کنسلٹنٹ فرم سوفان گروپ کے مطابق 2016 تک شام میں 81 ممالک کی شدت پسند تنظیمیں موجود تھیں۔ البتہ پاکستانی شدت پسند تنظیموں کو شام آنے میں کچھ عرصہ لگا۔

2013 میں شام کے دارالحکومت دمشق میں بی بی زینبؑ کے روضے اور دیگر مقدس مقامات پر حملے کے بعد بی بی زینبؑ کے روضے کی حفاطت کے لیے دو تنظیمیں بنائی گئی، جن میں پاکستانی شدت پسند تنظیم سپاہ محمد کی زینبیون بریگیڈ میں پاکستانیوں کو لیا گیا تاکہ وہ شام جاکر لڑائی میں حصہ لے سکیں۔

2015 میں زینبیون بریگیڈ کی جانب سے سوشل میڈیا پر بھرتیوں کے متعلق جاری مہم میں کہا گیا تھا کہ زینبیون بریگیڈ میں بھرتی ہونے کی عمریں 18 سے 35 سال کے درمیان ہیں۔ بھرتی ہونے والے کو 12 سو امریکی ڈالر ماہوار تنخواہ اور ہر تین ماہ بعد 15 دن کی چھٹیاں ملیں گی۔ ویسے تو بھرتی پاکستان بھر سے کی گئی مگر اکثریت پارا چنار اور سابق فاٹا سے شامل ہوئی۔ جب کہ کچھ بلوچ بھی بھرتے کیے گئے مگر ان کا ابھی تک پتہ نہیں چلا کہ ان کا تعلق پاکستانی بلوچستان سے تھا یا ایرانی بلوچستان سے۔

زینبیون بریگیڈ کے اکثریت رضاکاروں کو دمشق میں ہی رکھا گیا تھا۔ شدت پسندی کے موضوع پر مہارت رکھنے والے تجزیہ نگار اور کراچی کے صحافی روحان احمد نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ زینبیون بریگیڈ میں بھرتی ہونے والوں میں سے چند کا تعلق پہلے سے پاکستان میں کسی شیعہ تنظیم یا گروپ سے تھا۔

ان کا مزید کہنا تھا کہ ’قانون نافذ کرنے والے ادارے اس تنظیم کے حوالے سے زیادہ کھل کر بات نہیں کرتے کیونکہ زینبیون کا نام جب بھی آتا ہے اس کے ساتھ پڑوسی ملک ایران کا نام بھی سامنے ہے، انہیں اس بات کا خیال بھی رکھنا پڑتا ہے کہ کہیں ان کے بیانات سے پاکستان کے ایران سے تعلقات پر برا اثر نہ پڑے۔‘

اس کے علاوہ شام میں لڑنے کے لیے افغانستان کے رضاکاروں کا فاطمیون بریگیڈ نامی گروپ بنایا گیا۔ ایرانی پاسداران انقلاب اور قدس فورس نے ایران میں موجود 30 لاکھ سے زائد افغان تارکین وطن کو فاطمیون بریگیڈ میں بھرتی کیا۔ ایران نے فاطمیون بریگیڈ میں بھرتی ہونے والے افغانوں کو ایرانی شہریت دینے کا اعلان کیا تھا، جبکہ پاسداران انقلاب اور قدس فورس نے رضاکاروں کو 1100 امریکی ڈالر ماہانہ تنخواہ دی۔

زینبیون بریگیڈ اور فاطمیون بریگیڈ شیعہ مکتبہ فکر سے تعلق رکھنے والے رضاکاروں کے ملیشیا گروہ ہیں۔

انسداد دہشت گردی کے محکمے سی ٹی ڈی کے ڈی آئی جی عمر شاہد نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ زینبیون بریگیڈ کے پاکستانی اور فاطمیون بریگیڈ کے افغان رضاکار ایرانی پاسداران انقلاب کے بازو قدس فورس کی معرفت شام میں شدت پسند لڑائی لڑنے گئے۔

ان کے مطابق: ’زینبیون بریگیڈ میں پاکستان سے ہرقسم کے شیعہ بشمول اردو بولنے والے شیعہ، پاراچنار اور گلگت کے شیعہ بھی گئے۔ شام جا کر لڑائی میں حصہ لینے پاکستان سے کتنے لوگ گئے، اس کی درست تعداد بتانا مشکل ہے، کیوں کہ کچھ لوگ غیر قانونی طریقے سے گئے تو کچھ لوگ مذہبی زیارتوں پر گئے اور وہاں سے ہی شام چلے گئے۔ میرا اندازہ ہے کہ دو ہزار سے آٹھ ہزار افراد پاکستان سے شام گئے ہیں۔‘

دنیا بھر میں جیسے شدت پسند تنظیمیں کمزور ہوئی ہیں اسی طرح شام میں القاعدہ سے منسلک سلفی جہادی شدت پسند تنظیم دولتِ اسلامیہ فی عراق والشام (آئی ایس آئی ایس) المعروف داعش اور شام میں جنگ لڑنے والی دیگر تنظیمیں بھی کمزور ہوئی ہے۔ عمر شاہد کے مطابق گذشتہ کچھ عرصے سے پاکستان سے شام جانے والے زینبیون بریگیڈ کے افراد وطن واپس آنا شروع ہو گئے ہیں۔

’ہم زینبیون بریگیڈ کی کراچی سمیت پاکستان میں موجودگی کے بارے میں جانتے ہیں۔ ہم ان کے واپسی پر بھی نظر رکھی ہوئی ہے۔ حالیہ دنوں میں زینبیون بریگیڈ سے وابسطہ چند شدت پسندوں کو گرفتار کیا گیا ہے۔ باقی بچے ہوئے افراد کے لیے بھی چھاپے مارے جارہے ہیں۔‘

اسی طرح بعض سُنی گروپس کے بارے میں بھی یہ مصدقہ اطلاعات ہیں کہ وہ صدر بشار الاسد کے مخالف گرہوں کے ساتھ مل کر وہاں برسر پیکار ہیں۔

ایسی خبریں بھی سامنے آتی رہیں ہیں کہ یہ افراد شام کے علاقے دمشق اور حلب میں داعش کے خلاف برسر پیکار رہے ہیں اور ان میں سے درجنوں کی ہلاکتیں بھی ہوئیں جن کی تدفین ایران میں کی گئی۔ لیکن اس حوالے سے سرکاری طور پر کبھی تصدیق یا تردید نہیں کی گئی۔

سیکیورٹی ماہرین کیا کہتے ہیں

سیکیورٹی ماہرین کا کہنا ہے کہ عسکریت پسندی سے یہ خطہ بُری طرح متاثر ہوا ہے اور پاکستان کو کسی حد تک اب بھی اس عفریت کا سامنا ہے۔ جس کے کئی اندرونی اور بیرونی عوامل ہیں۔ دنیا بھر کی طرح پاکستان بھی اس سے مستثنیٰ نہیں۔ انہوں نے کہا کہ اسے ختم ہونے میں وقت لگتا ہے جس کے لئے مسلسل کوششوں کی ضرورت ہوتی ہے۔

انہوں نے کہا کہ پاکستان میں دیگر طاقتوں کی پراکسی وار کی تاریخ ہی ہے، جس میں بیرونی عناصر مقامی افراد کو استعمال کر کے کسی نہ کسی طرح کے مسائل پیدا کرتے رہتے ہیں اور اس سے کوئی انکار نہیں کر سکتا۔ افغان جنگ کے بعد ہمارے ہاں فرقہ وارانہ تشدد میں مسلسل اضافہ ہوا ہے، اور سیاست میں مذہب کارڈ آنے کے بعد اس کی شدت میں اضافہ ہوا ہے۔

تاہم سابق آئی جی پولیس کے خیال میں یہ خطہ بالخصوص پاکستان فرقہ وارانہ تشدد، عسکریت پسندی کے نکتہ عروج سے شاید گُزر چکا ہے، جس میں ملک میں ایک خانہ جنگی جیسی کیفیت تھی۔ تاہم اب یہ دیکھنا ہے کہ ریاست کس قدر جلد اس مسئلے پر مکمل کنٹرول حاصل کرنے میں کامیاب ہوتی ہے۔

افضل شگری کے مطابق پاکستان میں اب پرتشدد منظم گروہوں کا کافی حد تک خاتمہ کیا جاچکا ہے۔ لیکن بے روزگاری اور غربت سے جیسے معاشی مسائل اور بیرونی مداخلت کی وجہ چیلنجز اب بھی موجود ہیں۔

سابق آئی جی نے کہا کہ دہشت گردی کی وارداتوں میں ملوث افراد کی پاکستان میں بلا روک ٹوک آمد و رفت روکنے کے لئے افغانستان اور ایران کے بارڈر پر باڑ لگائی جا رہی ہے جو کہ کچھ میں سال مکمل ہو جائے گی۔ توقع ہے کہ اس سے کافی حد تک دہشت گردی، تشدد اور دیگر جرائم روکنے میں نمایاں مدد ملے گی۔

Share on Social

اپنا تبصرہ بھیجیں