18

روس اپنے ہی سائنسدانوں کے خلاف غداری کے مقدمات کیوں قائم کر رہا ہے؟

ماسکو (ڈیلی اردو/بی بی سی) روسی صدر ولادیمیر پوتن اکثر فخریہ انداز میں کہتے ہیں کہ ان کا ملک ہائپر سونک ہتھیار بنانے کی دوڑ میں دُنیا میں سب سے آگے ہے۔

ایک ہائپرسونک میزائل آواز کی رفتار سے بھی پانچ گُنا تیز اپنے ہدف کی طرف سفر کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔

لیکن ہائپرسونک ٹیکنالوجی پر کام کرنے والے متعدد روسی سائنس دانوں پر حالیہ برسوں میں نہ صرف غداری کے مقدمات قائم کیے گئے ہیں بلکہ کچھ کو قید خانوں میں بھی ڈالا گیا ہے۔

انسانی حقوق کے لیے کام کرنے والی تںطیمیں سائنس دانوں کے خلاف اس کریک ڈاؤن کو ایک جذباتی عمل قرار دے رہی ہیں۔

گرفتار کیے گئے سائنس دانوں میں سے زیادہ تر افراد عمر رسیدہ ہیں اور ان میں سے تین وفات بھی پا چکے ہیں۔ ان افراد میں سے ایک سائنس دان سرطان کا شکار تھے لیکن انھیں پھر بھی گرفتار کیا گیا، اور کچھ دنوں بعد وہ وفات پا گئے۔

اپریل 2023 میں ولادیسلیو گالکن نامی 68 سالہ ماہرِ فزکس کے جنوبی روس کے علاقے ٹومسک میں واقع گھر پر چھاپہ مارا گیا تھا۔

ان کے رشتے داروں کا کہنا ہے کہ مسلح نقاب پوش افراد صبح چار بجے ان کے گھر میں داخل ہوئے، ان کی الماریوں کی تلاشی لی اور کچھ دستاویزات جن پر سائنسی فارمولے لکھے تھے اپنے قبضے میں لے لیے۔

گالکن کی اہلیہ تتیانا کو اپنے شوہر کے ساتھ شطرنج کھیلنا پسند ہے اور وہ کہتی ہیں کہ انھوں نے اپنے پوتے اور پوتیوں کو بتایا کہ ان کے دادا کسی کاروباری دورے پر گئے ہوئے ہیں۔

ان کا کہنا ہے کہ روسی خفیہ ادارے ایف ایس بی نے انھیں ان کے شوہر کے کیس کے حوالے سے کچھ بھی کہنے سے منع کیا تھا۔

سنہ 2015 سے لے کر روس میں اب تک تقریباً 12 ایسے سائنسدانوں کو گرفتار کیا گیا ہے جو ہائپرسونک ٹیکنالوجی پر کام کر رہے تھے یا ان اداروں کے ساتھ منسلک تھے جو اس ٹیکنالوجی پر کام کرتے ہیں۔

ان تمام افراد پر سنگین غداری کے الزامات کے عائد کیے گئے تھے، جس کا مطلب یہ بھی ہو سکتا ہے کہ ان پر ریاستی راز دیگر ممالک کو فراہم کرنے کا شبہ کیا جا رہا ہے۔

روس میں غداری کے مقدمات پر سماعت بند کمروں میں یعنی خفیہ انداز میں کی جاتی ہے، اسی لیے حتمی طور پر یہ جاننا مشکل ہے کہ ان سائنسدانوں پر کیا الزامات عائد کیے گئے ہیں۔

کریملن کا کہنا ہے کہ ’الزامات انتہائی سنگین‘ ہیں اور وہ اس موضوع پر اس سے زیادہ تبصرہ نہیں کر سکتے کیونکہ اس معاملے پر اس کے خفیہ ادارے بھی کام کر رہے ہیں۔

لیکن گرفتار کیے گئے افراد کے ساتھ کام کرنے والے دیگر افراد اور وکلا کا کہنا ہے کہ یہ سائنسدان ہتھیار بنانے کے عمل کا حصہ نہیں تھے، بلکہ کچھ افراد کو صرف غیرملکی محققین کے ساتھ مل کر ریسرچ کا کام کرنے پر گرفتار کیا گیا ہے۔

روس کے ناقدین کا کہنا ہے کہ ایف ایس بی ان کارروائیوں سے یہ تاثر دینا چاہتی ہے کہ غیرملکی جاسوس روسی ہتھیاروں کا راز جاننا چاہتے ہیں۔

ہائپرسونک میزائل نہ صرف انتہائی برق رفتاری سے اپنے ہدف کی طرف سفر کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں بلکہ دوران پرواز کسی بھی دفاعی نظام کو چکمہ دینے کے لیے اپنی سمت بھی تبدیل کر سکتے ہیں۔

روس کا کہنا ہے کہ یوکرین کے خلاف جاری جنگ میں اس نے ہائپرسونک ہتھیاروں کی دو اقسام کنزال اور زرقون کروز میزائل کا استعمال کیا ہے، جنھیں ایک لڑاکا طیارے سے فائر کیا گیا تھا۔

تاہم یوکرین کا کہنا ہے کہ اس کی جانب سے کچھ کنزال میزائلوں کو ہوا میں ہی مار گرایا گیا ہے، جس سے روسی میزائلوں کی صلاحیتوں پر سوال اُٹھ رہے ہیں۔

جب اس ٹیکنالوجی پر کام ہو رہا تھا اور ان ہتھیاروں کو استعمال کرنے کے لیے نصب کیا جا رہا تھا اسی دوران روس میں گرفتاریوں کا سلسلہ بھی جاری رہا۔

اپریل 2023 میں گالکن کی گرفتاری کے بعد انھیں اور ان کے ساتھی سائنسدان ولیری ویگنتسو کو ایک عدالت نے ریمانڈ پر بھیج دیا۔ ان دونوں نے ساتھ مل کر متعدد ریسرچ پیپرز لکھے تھے۔

روس کی سرکاری خبر رساں ایجنسی طاس کے مطابق ویگنتسو کی گرفتاری 2021 میں ایک ایرانی جرنل میں چھپنے والے مضمون کی وجہ سے عمل میں آئی تھی۔

اس مضمون پر گالکن اور ویگنتسو دونوں کے نام تھے اور یہ مضمون برق رفتار جہازوں کے حوالے سے تھا۔

سنہ 2022 کے موسمِ گرما میں ایف ایس بی نے ویگنتسو کے انسٹٹیوٹ سے تعلق رکھنے والے مزید دو ساتھیوں کو گرفتار کیا۔ ان افراد میں انسٹٹیوٹ کے ڈائریکٹر اور لیبارٹری کے سابق سربراہ شامل تھے۔

انسٹٹیوٹ آف ٹھیوریٹیکل اینڈ اپلائڈ میکینکس کے ملازمین کی جانب سے اپنے گرفتار ساتھیوں کی حمایت میں ایک اوپن لیٹر بھی لکھا گیا تھا۔

یہ لیٹر اب انسٹٹیوٹ کی ویب سائٹ سے حذف کردیا گیا ہے۔ اس میں لکھا گیا تھا کہ ان کے گرفتار ساتھی ’بہترین سائنسی نتائج‘ دینے کے لیے جانے جاتے تھے اور وہ ’ہمیشہ اپنے ملک اور اس کے مفادات سے وفادار‘ رہے ہیں۔

لیٹر میں مزید کہا گیا تھا کہ ان کے ساتھیوں کی طرف سے لکھے گئے تمام مواد کا انسٹٹیوٹ کے ایکسپرٹ کمیشن نے معائنہ کیا تھا اور اس میں کوئی بھی خفیہ معلومات شامل نہیں تھی۔

ایوگینی سمرنوو روس میں انسانی حقوق کے لیے کام کرنے والی تنظیم فرسٹ ڈویژن سے منسلک ایک وکیل ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ ’ہائپرسونک ٹیکنالوجی ایک ایسا موضوع بن چکا ہے جس کے سبب لوگوں کو جیلوں میں قید کیا جا رہا ہے۔‘

ایوگینی ماضی میں گرفتار کیے گئے سائنسدانوں اور غداری کے الزام میں زیرِ حراست دیگر افراد کا عدالتوں میں دفاع کر چکے ہیں لیکن 2021 میں انھیں خود کو لاحق خطرات کے سبب روس سے پراگ منتقل ہونا پڑا۔

وہ کہتے ہیں کہ گرفتار کیے گئے ایک درجن سائنسدانوں میں سے کوئی ایک بھی دفاعی شعبے سے منسلک نہیں تھا، بلکہ وہ ہائپرسونک ٹیکنالوجی سے جُڑے سائنسی سوالات پر تحقیق کر رہے تھے۔

’یہ معاملہ راکٹ بنانے کا نہیں تھا بلکہ فزکس کی تحقیق کا ہے۔‘ تاہم وہ کہتے ہیں کہ ہو سکتا ہے بعد میں ان کی تحقیق کو ہتھیار بنانے والوں نے استعمال کیا ہو۔

ان گرفتاریوں کا سلسلہ کچھ سالوں پہلے ولادیمیر لیپیجن کی گرفتاری سے شروع ہوا تھا۔ 83 سالہ سائنس دان کو 2016 میں گرفتار کیا گیا تھا اور پھر انھیں چار سال بعد رہا کیا گیا۔

انھوں نے تقریباً 46 برس روس کی خلائی ایجنسی سے منسلک ریسرچ انسٹٹیوٹ میں ملازمت کی تھی۔

لیپیجن کو ایک چینی ساتھی کو ایروڈائنامک کیلکولیشن سافٹ ویئر بھیجنے پر سزا سُنائی گئی تھی۔ وہ کہتے ہیں کہ انھوں نے سافٹ ویئر کا ابتدائی ورژن اپنے انسٹٹیوٹ کی ایما پر بھیجا تھا تاکہ بعد میں پورا سافٹ ویئر پیکج فروخت کیا جا سکے۔

وہ کہتے ہیں کہ ان کی جانب سے بھیجے گئے سافٹ ویئر پیکج میں کوئی بھی خفیہ معلومات شامل نہیں تھی بلکہ صرف وہ معلومات تھی جو پہلے بھی ’متعدد مرتبہ چھپ چکی ہے۔‘

لیپیجن نے بی بی سی کو بتایا کہ جن افراد کو ہائپرسونک ٹیکنالوجی کے حوالے سے گرفتار کیا گیا ہے ان کا ہتھیار بنانے کے عمل سے ’کوئی تعلق نہیں تھا۔‘

دمتری کولکر سائبیریا میں واقع انسٹٹیوٹ آف لیزر فزکس سے منسلک تھے اور انھیں 2022 میں اس وقت گرفتار کیا گیا تھا جب وہ سرطان کا علاج کروا رہے تھے۔

ان کے خاندان کا کہنا ہے کہ ان کی گرفتاری چین میں دیے گئے لیکچرز کی وجہ سے عمل میں آئی تھی۔ ان کا یہ بھی کہنا ہے کہ ان لیکچرز کو ایف ایس بی کی طرف سے پہلے چیک کیا گیا تھا اور چین کے دورے پر روسی ایجنسی کا ایک ایجنٹ بھی دمتری کے ساتھ گیا تھا۔

گرفتاری کے دو دن بعد دمتری 54 سال کی عمر میں چل بسے تھے۔

گرفتار کیے گیے ایک سائنسدان کے ساتھی نے بی بی سی کو نام نہ ظاہر کرنے کی شرط پر بتایا کہ ’ہمارا نظام خود ایک تنازع کا شکار ہے۔‘

وہ کہتے ہیں کہ سائنسدانوں سے توقع کی جاتی ہے کہ وہ اپنے مضامین غیرملکی جریدوں میں چھپوائیں اور غیرملکی محققین کے ساتھ مل کر کام کریں، لیکن ’ایف ایس بی سمجھتی ہے کہ غیرملکی سائنسدانوں سے رابطے اور غیرملکی جرنلز کے لیے لکھنا ملک سے غداری ہے۔‘

انسٹٹیوٹ آف ٹھیوریٹیکل اینڈ اپلائڈ میکینکس کے سائنسدانوں کے احساسات بھی ایسے ہی ہیں۔ انھوں نے اپنے اوپن لیٹر میں لکھا تھا کہ: ’ہمیں سمجھ نہیں آتا کہ ہم اپنا کام کیسے جاری رکھیں۔‘

’جس کام پر ہمیں آج انعامات سے نوازا جاتا ہے، کل وہ ہی کام ہمارے لیے قانونی کارروائی کا سبب بھی بن سکتا ہے۔‘

انھوں نے خبردار کیا کہ سائنسدان اب کچھ ریسرچ کے موضوعات سے دور بھاگنے لگے ہیں اور متعدد نوجوان ملازمین اب سائنس کے شعبے کو ہی خیرباد کہہ رہے ہیں۔

انسٹٹیوٹ آف ٹھیوریٹیکل اینڈ اپلائڈ میکینکس کی طرف لکھا گیا یہ خط گرفتار کیے گئے سائنسدانوں کی حمایت کی ایک ایسی مثال ہے جو شاید ماضی میں کبھی دیکھنے میں نہ آئی ہو۔ گرفتار کیے گئے دیگر سائنسدانوں کے اداروں نے اس معاملے پر خاموشی اختیار کر رکھی ہے۔

روسی وکیل ایوگینی کہتے ہیں کہ گرفتار کیے گئے دیگر دو سائنسدانوں کے خلاف تحقیقات کا آغاز اس لیے ہوا تھا کیونکہ وہ ایک یورپی پراجیکٹ پر کام کر رہے تھے جس کا مقصد سویلین افراد کے لیے ہائپرسونک جہاز بنانا تھا۔

سنہ 2012 میں شروع ہونے والا یہ پراجیکٹ یورپین سپیس ایجنسی کا تھا جو اب مکمل ہو چکا ہے۔

سپیس ایجنسی نے بی بی سی کو بتایا کہ اس پراجیکٹ کے لیے تکنیکی معلومات کا تبادلہ روسی اور یورپی فریقین کے درمیان طے ہونے والے معاہدوں کے تحت کیا گیا تھا۔

اس پراجیکٹ کے لیے کام کرنے والے دونوں سائنسدانوں کو 12 برس قید کی سزا سنائی گئی تھی، تاہم روسی سپریم کورٹ نے ان میں سے ایک سائنسدان کے خلاف مقدمے کو دوبارہ سننے کا حکم دیا ہے۔

روس میں سائنسدانوں کی دیگر گرفتاریاں ایک ایسی تحقیق کی وجہ سے ہوئیں جس کا مقصد زمین کے ماحول میں داخل ہونے والی خلائی گاڑیوں سے متعلق ایروڈائنامکس کی جانچ پڑتال کرنا تھا۔

اس پراجیکٹ پر سرمایہ یورپین یونین کی سکیم کے تحت لگایا گیا تھا اور اس پر بیلجیئم کے وون کرمان انسٹٹیوٹ آف فلوئڈ ڈائنامکس کے تحت کام کیا جا رہا تھا۔

وکٹر کدریاوتسو نامی سائنسدان کی بیوہ اولگا کہتی ہیں کہ ان کے شوہر نے ایک کون نُما شے وون کرمان انسٹٹیوٹ آف فلوئڈ ڈائنامکس بھیجی تھی اور ایف ایس بی کے تفتیش کاروں کو اس کون کی شکل کسی میزائل جیسی لگی۔

بیلجیئم میں قائم انسٹٹیوٹ کا کہنا ہے کہ یہ پراجیکٹ سنہ 2011 سے 2013 تک جاری رہا اور یہ ’واضح طور پر ایک غیر عسکری‘ پروگرام تھا۔

انسٹٹیوٹ کا کہنا ہے کہ وکٹر کدریاوتسو کی ٹیم کی جانب سے گئے مواد میں کوئی بھی خفیہ معلومات شامل نہیں تھی۔

انسانی حقوق کے لیے کام کرنے والی تنظیموں کو ان گرفتاریوں کے پیچھے ایک پیٹرن نظر آتا ہے۔

روسی وکیل ایوگینی کہتے ہیں کہ نجی گفتگو کے دوران ایف ایس بی کے افسران ان کے سامنے اقرار کر چکے ہیں کہ ہائپرسونک ٹیکنالوجی کے راز شیئر کیے جانے سے متعلق مقدمات کو دوبارہ ’اعلیٰ حکام کی خواہشات کو پورا کرنے کے لیے‘ کھولا جا رہا ہے۔

ایوگینی کا ماننا ہے کہ روسی صدر ولادمیر کی ’انا کو تسکین‘ پہنچانے کے لیے ایف ایس بی یہ تاثر قائم کرنا چاہتی ہے کہ غیرملکی جاسوس روسی میزائلوں کے راز چُرانے کی کوشش کر رہے ہیں۔

یہ تمام کیسز ایک ایسے وقت میں سامنے آئے ہیں جب روس میں غداری کے مقدمات بھی بڑھتے ہوئے نظر آ رہے ہیں۔

روسی سیاسی قیدیوں کے حقوق کے لیے کام کرنے والے ادارے میموریل ہیومن رائٹس سینٹر سے منسلک سرگے ڈیویڈس کہتے ہیں کہ ملک میں ایک ’جاسوسی کے مقابلے اور تنہائی‘ کا سا ماحول بنایا گیا ہے، یوکرین کے خلاف جنگ شروع ہونے کے بعد ان کارروائیوں میں تیزی دیکھنے میں آئی ہے۔

ڈیویڈس کی تنظیم پر روس نے پابندی عائد کردی تھی اور اب وہ لتھوینیا منتقل ہو گئے ہیں۔ ان کا خیال ہے کہ ایف ایس بی اپنی کارکردگی کو بڑھا چڑھا کر پیش کرنے اور ’اعداد و شمار میں اضافہ کرنے کے لیے ایسے بوگس مقدمات بنا رہی ہے۔‘

ان کا ماننا ہے کہ سائنسدانوں کی گرفتاریوں کے پیچھے دیگر عوامل بھی کارفرما ہوسکتے ہیں، جن میں ریاستی ٹھیکوں کا حصول بھی شامل ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ ایسا بھی ہوسکتا ہے کہ ان گرفتاریوں کے ذریعے کریملن کی جانب سے یہ پیغام دیا جا رہا ہو کہ وہ سائنسدانوں کے کام سے مطمئن نہیں۔

ایوگینی کہتے ہیں کہ ایف ایس بی کی جانب سے گرفتار کیے گئے افراد کو نرمی برتنے کی پیشکش بھی کی جاتی ہے، اس شرط پر کہ وہ اپنے جرم کا اقرار کرلیں اور دیگر افراد کو بھی ان مقدمات میں شامل کرنے پر راضی ہوجائیں۔

ولادیمیر کدریاوتسو کی بیوہ اولگا کا کہنا ہے کہ ایف ایس بی کی جانب سے ان کے شوہر کو ایک ڈیل کی پیشکش کی گئی تھی اور کہا گیا تھا کہ وہ اپنے جرم کا اقرار کرلیں اور کسی اور کو پھنسا دیں۔

انھوں نے ایسا کرنے سے انکار کردیا اور 2021 میں پھیپھڑوں کے کینسر کے سبب 77 برس کی عمر میں وفات پا گئے۔

ایف ایس بی کے ریٹائرڈ افسر جنرل الیگزینڈر میخائلوو کہتے ہیں کہ ایف ایس بی کو ’ہر صورت میں یقنی بنانا ہوگا کہ عسکری ٹیکنالوجی ایک راز ہی رہے۔‘

تاہم ان کا یہ بھی کہنا ہے کہ سنگین سزائیں (14 برس قید) سنانے سے قبل بلا شک و شبے کے یہ ثابت کرنا بھی ضروری ہے کہ یہ سزائیں سنانے کے لیے موجود ثبوت کافی ہیں۔

خیال رہے انسٹٹیوٹ آف ٹھیوریٹیکل اینڈ اپلائڈ میکینکس سے منسلک سائنسدان اناتولی مسلوو کو ایسے ہی مقدمے میں 14 برس قید کی سزا سنائی گئی تھی۔

جنرل میخائلوو کا کہنا ہے کہ روس میں بڑھتے ہوئے غداری کے مقدمات کا سبب 1990 کی دہائی میں دی جانے والی آزادیاں اور جمہوریت ہے۔

ان کا کہنا ہے کہ ان آزادیوں کے سبب سویت یونین کے دور میں بنائی گئی اقدار کو نقصان پہنچا، اس دور میں ریاستی راز رکھنے والوں کی ’جامع جانچ پڑتال‘ کی جاتی تھی اور لوگ ان رازوں کو افشاں کرنے سے متعلق اپنی ’ذمہ داریوں کو سمجھتے تھے۔‘

جنرل میخائلوو کا کہنا ہے کہ: ’کچھ لوگ بس زیادہ بولنے کے عادی تھے اور پھر اسی دوران معلومات لیک ہو گئی۔‘

انسٹٹیوٹ آف ٹھیوریٹیکل اینڈ اپلائڈ میکینکس کے سائنسدان گالکن کو گرفتار ہوئے اب ایک برس سے زیادہ کا عرصہ گزر چکا ہے۔ ان کے اہلخانہ کا کہنا ہے کہ انھیں تین ماہ قیدِ تنہائی میں بھی رکھا گیا۔

ان کی اہلیہ تتیانا کا کہنا ہے کہ وہ اپنے شوہر سے فون پر بات تو کرسکتی ہیں لیکن ان کے درمیان ایک شیشے کی دیوار موجود ہوتی ہے۔

ان کا کہنا ہے کہ ’میں سوچ رہی ہوں کہ حکام کو کہوں کہ مجھے بھی اس مرکز میں قید کردیا جائے، جہاں مقدمات شروع ہونے سے پہلے لوگوں کو رکھا جاتا ہے۔‘

وہ کہتی ہیں ایسا کرنا کوئی مشکل نہیں ہوگا کیونکہ حکام کا ذرا سا شک آپ کو ایسے قید خانے میں پہنچا سکتا ہے۔

روس میں گرفتار کیے جانے والے مزید سائنسدان

انسٹٹیوٹ آف ٹھیوریٹیکل اینڈ اپلائڈ میکینکس کے ڈائریکٹر الیگزینڈر شپلیوک کو 2022 میں گرفتار کیا گیا تھا اور ان کے خلاف مقدمے پر سماعت تاحال شروع نہیں ہو سکی ہے۔

الیگزینڈر کرانوو سینٹ پیٹرزبرگ سائینٹفک ریسرچ انٹرپرائز فار ہائپرسونک سسٹمز کے سابق ڈائریکٹر ہیں۔ انھیں 2021 میں گرفتار کیا گیا تھا اور اپریل 2024 میں انھں سات برس قید کی سزا سُنائی گئی تھی۔

رومن کولیو وکٹر کدریاوتسو کے ساتھ کام کرتے تھے۔ انھیں 2020 میں سات سال قید کی سزا سُنائی گئی تھی، وہ 2022 میں وفات پا چکے ہیں۔

Share on Social

اپنا تبصرہ بھیجیں