ریاض (ڈیلی اردو/ڈی پی اے/اے ایف پی) رواں برس ہلاک ہونے والے عازمین میں سب سے زیادہ 658 مصر، جبکہ 183 انڈونیشیا اور 58 پاکستان سے تھے۔ زیادہ تر اموات کی وجہ سعودی عرب میں شدید گرم موسم کو قرار دیا گیا ہے۔
اس سال حج کی ادائیگی کے دوران سعودی عرب میں مرنے والے افراد کی تعداد ایک ہزار سے تجاوز کر گئی۔ اعداد و شمار کے مطابق ان ہلاک شدگان میں سے نصف سے زیادہ غیر رجسٹر حجاج تھے۔ حج کے دوران رپورٹ ہونے والی نئی اموات میں مصر سے تعلق رکھنے والے 58 افراد شامل ہیں۔ اس طرح حج کی ادائیگی کے دوران انتقال کرنے والوں کی سب سے زیادہ 658 افراد کا تعلق مصر سے بتایا گیا ہے اور ان میں سے 630 غیر رجسٹر حجاج تھے۔
ایک عرب سفارت کار نے ’اے ایف پی‘ کو بتایا کہ سعودی عرب میں موجود مصری حکام کی جانب سے حج کے دوران 1400 شہریوں کے لاپتا ہونے کی رپورٹس موصول ہوئی ہیں۔
رواں برس حج کے دوران ب تک مجموعی طور پر 10 ممالک سے تعلق رکھنے والے 1,081 اموات کی اطلاع دی گئی ہے۔ یہ اعداد و شمار سرکاری بیانات اور مختلف ممالک کے سفارت کاروں کے ذریعے حاصل کیے گئے ہیں۔ حج اسلام کے پانچ بنیادی ارکان میں سے ایک ہے، جسے مالی اعتبار سے استطاعت رکھنے والے تمام مسلمانوں کے لیے اپنی زندگی میں کم از کم ایک بار مکمل کرنا ضروری ہے۔
اس سال دنیا بھر سے حج کے لیے سعودی عرب اکٹھے ہونے والے لاکھوں افراد کو شدید گرم موسم کا سامنا رہا۔ سعودی قومی موسمیاتی مرکز نے اس ہفتے مکہ کی گرینڈ مسجد میں درجہ حرارت 51.8 ڈگری سینٹی گریڈ (125 فارن ہائیٹ) کی اطلاع دی تھی۔ گزشتہ ماہ شائع ہونے والی سعودی تحقیق کے مطابق اس علاقے میں درجہ حرارت ہر دہائی میں 0.4 ڈگری سینٹی گریڈ بڑھ رہا ہے۔
غیر اندراج شدہ حجاج کے لیے اضافی خطرات
ہر سال دسیوں ہزار عازمین غیر قانونی طریقوں کے ذریعے حج کرنے کی کوشش کرتے ہیں کیونکہ وہ اکثر مہنگے سرکاری اجازت ناموں کے متحمل نہیں ہوتے۔ سعودی حکام نے اس ماہ لاکھوں غیر رجسٹرڈ عازمین کو مکہ سے کلیئر کرنے کی اطلاع دی ہے، لیکن ایسا لگتا ہے کہ اس کے باوجود بہت سے غیر انداراج شدہ لوگوں نے اب بھی مرکزی عبادات میں حصہ لیا جو گزشتہ جمعہ کو شروع ہوئیں تھیں۔
ایسے افراد جنہوں نے بغیر اندراج کے حج کرنے کا خطرہ مول لیا تھا، انہیں شدید گرمی سے خطرات لاحق تھےکیونکہ سرکاری اجازت نامے کے بغیر وہ سعودی حکام کی طرف سے فراہم کردہ ایئر کنڈیشنڈ جگہوں تک رسائی حاصل نہیں کر سکتے تھے. ایک عرب سفارت کار نے جمعرات کو اے ایف پی کو بتایا کہ مصری عازمین کی موت کی سب سے بڑی وجہ گرمی تھی، جس سے ہائی بلڈ پریشر اور صحت کے دیگر مسائل سے متعلق پیچیدگیاں پیدا ہوتی ہیں۔
مصر کے علاوہ پاکستان اور انڈونیشیا نے جمعرات کو نئی ہلاکتوں کی تصدیق کی۔ ایک سفارت کار نے خبر رساں ادارے اے ایف پی کو بتایا کہ پاکستان سے آئے ہوئے تقریباً 150,000 زائرین میں سے اب تک 58 کی اموات ریکارڈ کی گئی ہیں۔ اس سفارت کار نے کہا، ”میرے خیال میں لوگوں کی تعداد اور موسم کو دیکھتے ہوئے یہ ایک قدرتی بات ہے۔‘‘ انڈونیشیا کی وزارت مذہبی امور کے مطابق اس برس تقریباً 240,000 انڈونیشین عازمین حج میں سے 183کا انتقال ہوا جبکہ گزشتہ سال 313 اموات ریکارڈ کی گئی تھیں۔
ملائیشیا، بھارت، اردن، ایران، سینیگال، تیونس، سوڈان اور عراق کے خود مختار کردستان خطےکی حکومتوں نے بھی اپنے عازمین حج کی ہلاکتوں کی تصدیق کی ہے۔
ہلاک شدگان کی تدفین
جمعرات کو دو سفارت کاروں نے اے ایف پی کو بتایا کہ سعودی حکام نے مرنے والے زائرین کی تدفین کا عمل شروع کر دیا ہے ۔ایک سفارت کار نے کہا، ”تدفین سعودی حکام کرتے ہیں۔ ان کا اپنا نظام ہے اس لیے ہم صرف اس پر عمل کرتے ہیں۔‘‘
ایک سفارت کار کا کہنا تھا کہ جہاں تک ممکن ہو سکے، ان کا ملک مرنے والوں کے عزیزوں کو مطلع کرنے کے لیے کام کر رہا ہے۔ دوسرے سفارت کار نے کہا کہ ہلاکتوں کی تعداد کے پیش نظر بہت سے خاندانوں کو وقت سے پہلے مطلع کرنا ناممکن ہو گا، خاص طور پر مصر میں جہاں مرنے والوں کی تعداد بہت زیادہ ہے۔ گزشتہ سال مختلف ممالک نے حج کے دوران 300 سے زائد اموات کی اطلاع دی تھی، جن میں زیادہ تر انڈونیشیائی حجاج شامل تھے۔
آنے والے سالوں میں حج کا سیزن مزید گرم
جریدے جیو فزیکل ریسرچ لیٹرز کے سن 2019 کے ایک مطالعے میں کہا گیا ہے کہ موسمیاتی تبدیلیوں کی وجہ سے عازمین حج کے لیے گرمی کا دباؤ 2047 سے 2052 اور 2079 سے 2086 تک “انتہائی خطرے کی حد” سے تجاوز کر جائے گا۔
حج کی میزبانی سعودی شاہی خاندان کے لیے وقار کا باعث ہے اور شاہ سلمان کے سرکاری لقب میں مکہ اور مدینہ میں ”دو مقدس مساجد کے متولی‘‘ کے الفاظ شامل ہیں۔ گزشتہ کئی سالوں کے دوران حج کے موقع پر بھگدڑ اور آتشزدگی کے واقعات پیش آتے رہے ہیں۔ سن 2015 میں مکہ کے قریب منیٰ میں ”شیطان کو کنکریاں مارنے ‘‘ کے موقع پر بھگدڑ مچنے کی وجہ سے 2,300 افراد ہلاک ہوگئے تھے۔