جرمنی میں دور تک مار کرنے والے امریکی ہتھیاروں کی تعیناتی

واشنگٹن (ڈیلی اردو/ڈی پی اے/اے پی/اے ایف پی) امریکہ نے اعلان کیا ہے کہ جرمنی میں طویل فاصلے تک مار کرنے والے ہتھیاروں کی تعیناتی کا عمل سن 2026 میں شروع کر دیا جائے گا۔ ادھر بیجنگ نے چین کے خلاف نیٹو کی ‘بیان بازی’ کی مذمت کی ہے۔

واشنگٹن میں نیٹو سربراہی اجلاس کے موقع پر جاری ہونے والے ایک بیان میں امریکہ اور جرمنی نے کہا کہ ایسی ”ایپیسوڈک تعیناتیوں” کی تیاریاں کی جا رہی ہیں، جس کے تحت طویل مدت تک ہتھیاروں کو برقرار رکھا جا سکے۔

اعلان کے مطابق امریکہ جرمنی میں طویل فاصلے تک مار کرنے کی والے ہتھیاروں کی تعیناتی سن 2026 میں شروع کر دے گا۔

ان ہتھیاروں میں ایس ایم-6 ٹوم ہاک اور تیار کیے جا نے والے وہ ہائپرسونک ہتھیار شامل ہوں گے، جن کی رینج یورپ میں موجود فی الوقت ہتھیاروں سے کہیں زیادہ طویل ہو گی۔

اس حوالے سے ایک بیان میں کہا گیا ہے کہ ”ان جدید صلاحیتوں کے استعمال سے نیٹو کے تئیں امریکہ کی وابستگی اور یورپ کے لیے مضبوط ڈیٹرنس میں امریکی تعاون کی مظہر ہوں گی۔”

نیٹو کو روسی ہتھیاروں کیلئے تیاری جاری رکھنی چاہیے

امریکی صدر جو بائیڈن کا کہنا تھاکہ نیٹو کے رکن ممالک کو ہتھیاروں سے متعلق اپنی صنعتی پیداوار کو بڑھانے کی ضرورت ہے تاکہ اسے روس کے ہتھیاروں اور گولہ بارود کی تیاری سے ہم آہنگ کیا جا سکے۔ انہوں نے کہا، ”ہم اتحاد کو پیچھے جانے کی اجازت نہیں دے سکتے۔”

ان کا مزید کہنا تھا کہ انہیں اس بات کی خوشی ہے کہ نیٹو کے تمام ممبران اپنے صنعتی اڈوں کو بڑھانے اور دفاعی پیداوار کے لیے اندرون ملک منصوبے تیار کرنے کا عہد کر رہے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ ”ہم نیٹو کی سرزمین کے ایک ایک انچ کا دفاع کر سکتے ہیں اور کریں گے اور ہم ایسا مل کر کریں گے۔”

چین کی طرف سے نیٹو کی ”بیان بازی” پر نکتہ چینی

چین نے ماسکو کے ساتھ تعلقات کے حوالے سے اپنے خلاف ”اشتعال انگیز ٹکراؤ” والے بیانات پر نیٹو کو خبردار کیا ہے۔

واضح رہے کہ نیٹو نے اپنے سربراہی اجلاس کے دوران بیجنگ پر یوکرین کے خلاف چنگ میں روس کی مدد میں کلیدی کردار ادا کرنے کا الزام لگایا ہے۔

بدھ کے روز نیٹو کے رہنماؤں نے کہا تھا کہ بیجنگ ”یوکرین کے خلاف روسی جنگ کا فیصلہ کن معاون بن چکا ہے۔”

اس پر یورپی یونین میں چینی مشن کے ترجمان نے کہا کہ نیٹو کا یہ منصوبہ بند بیان ”جنگی بیان بازی” سے بھرا ہوا ہے۔

ترجمان نے کہا، ”نیٹو کو چاہیے کہ وہ چین کے نام نہاد خطرے کو بڑھانے، محاذ آرائی سے بچنے اور دشمنی کو ہوا دینے سے باز آئے۔ اور اس کے بجائے عالمی امن اور استحکام کے لیے اسے اپنا زیادہ سے زیادہ کردار ادا کرنا چاہیے۔”

ترجمان کا کہنا تھا، ”جیسا کہ ہم سب جانتے ہیں، چین یوکرین کے بحران کا خالق نہیں ہے۔”

ترجمان نے میڈیا کے ایک سوال کے جواب میں کہا کہ ”واشنگٹن میں نیٹو سربراہی اجلاس کا اعلامیہ سرد جنگ کی ذہنیت اور جنگی بیانات سے بھرا پڑا ہے۔ چین سے متعلق مواد تو اشتعال انگیزی، جھوٹ، اکسانے اور تہمتوں سے بھرا ہے۔”

چین نے اب تک یوکرین پر روسی حملے کی مذمت نہیں کی ہے، البتہ اس نے کئی بار جنگ بندی کے لیے ثالثی کی کوشش کی ہے۔

گزشتہ برس بیجنگ نے اس جنگ کے حوالے ایک دستاویز جاری کیا تھا، جس میں تنازعہ کے ”سیاسی تصفیے” کا مطالبہ کیا گیا تھا۔

Share on Social

اپنا تبصرہ بھیجیں