ضلع کرم میں 50 افراد کی ہلاکت کے بعد فریقین کے درمیان دو ماہ کیلئے فائر بندی کا ’امن معاہدہ‘

پشاور (ڈیلی اردو/بی بی سی) صوبہ خیبر پختونخوا کے ضلع کرّم میں دو قبائل کے درمیان زمین کے تنازعہ پر جرگے کے بعد فریقین کے درمیان امن معاہدہ طے پا گیا ہے۔

کرّم میں فریقین نے دو ماہ کیلئے عارضی فائر بندی کے معاہدے پر دستخط کردے ہیں۔ کرم میں ہونے والے اس جرگے سے متعلق سامنے آنے والی تفصیلات کے مطابق اگر کسی بھی فریق کی جانب سے معاہدے کی خلاف ورزی کی گئی تو ایسا کرنے والے پر 12 کروڑ روپے جرمانہ کیا جائے گا۔

تاہم اہم شاہراہوں کو آمدورفت کیلئے محفوظ بنایا جائے گا۔

واضح رہے کہ گزشتہ ایک ہفتے کے دوران جھڑپوں میں 50 افراد ہلاک جبکہ 226 سے زائد زخمی ہوئے۔

تنازع ہے کیا؟

خیال رہے کہ حالیہ تصادم کی وجہ بننے والا زمین کا وہی ٹکڑا ہے جس پر گذشتہ برس جولائی میں تنازعے کی وجہ سے کرّم میں فرقہ ورانہ تصادم شروع ہوا تھا جس میں نصف درجن سے زیادہ لوگ مارے گئے تھے۔

امن کمیٹی کے رکن ملک محمود علی جان کے مطابق 100 کنال زمین کا یہ برسوں پرانا تنازعہ گلاب ملی خیل اور مدگی کلے قبائل کے درمیان ہے اور گلاب ملی خیل کا تعلق اہل تشیع سے ہے جبکہ مدگی کلے اہل سنت ہیں۔ ان کے مطابق ’اس تنازعے پر کئی مرتبہ مسلح تصادم ہوئے، جرگے ہوئے مگر ابھی تک یہ مسئلہ حل نہیں ہوا۔‘

ملک محمود علی خود گذشتہ برس اس معاملے پر ہونے والے جرگے میں شامل تھے۔ انھوں نے بتایا کہ 2023 میں جب مسلح تصادم کے بعد سیز فائر ہوا اور اس کے بعد بڑے جرگے منعقد ہوئے تو ان میں ایک معاہدہ ہوا جس میں فیصلہ کیا گیا کہ زمین کے اس ٹکڑے کا فیصلہ زمینوں کے تنازعات حل کرنے والی کمیٹی، لینڈ کمیشن، محکمہ مال کے کاغذات کی مدد سے کرے گی جس کو سب تسلیم کریں گے۔

ان کا کہنا تھا کہ اس صورتحال میں یہ جرگے چلتے رہے اور آخر میں فیصلہ ہوا کہ ’زمین کے ٹکڑے کی ملکیت گلاب ملی خیل کی ہے اور اس فیصلے کے بعد معاملے کا حل نکالنے کے لیے ایک اور تحریری معاہدہ ہوا کہ ایک سال تک گلاب ملی خیل اس زمین کے ٹکڑے کو استعمال نہیں کریں گے اور اس دوران ایک تیسرا فریق اسے استعمال کرے گا اور لگان گلاب ملی خیل کو دے گا جبکہ ایک سال کے بعد گلاب ملی خیل قبائل کی مرضی ہو گی کہ وہ دوبارہ اس کو ٹھیکے پر دیتے ہیں یا خود استعمال کرتے ہیں۔

ملک محمود جان کا کہنا تھا کہ ’ہمارے علاقے میں یہ رواج ہے کہ جب دو فریقوں کے درمیاں ایسا تنازع ہو جسے حل کیا جانا ہو تو وہ چیز، زمین کے اصل حقدار کو براہ راست نہیں دی جاتی بلکہ تیسرے فریق کو ٹھیکے پر دی جاتی ہے اور وہ تیسرا فریق حقدار کو حق دیتا ہے۔‘

ملک محمود کے مطابق اس تنازعے میں بھی تیسرے فریق نے ایک برس تک وہ زمین استعمال کی اور اس کا لگان گلاب ملی خیل قبائل کو دیا اور اب ایک برس کی تکمیل کے بعد یہ زمین گلاب ملی خیل کو ملنا تھی مگر جب گلاب ملی خیل نے زمین کا مطالبہ کیا تو پھر تصادم ہو گیا۔ ’پہلے ان دونوں فریقوں کے درمیاں جنگ شروع ہوئی مگر بات بڑھتے بڑھتے بڑھتے قبائل سے بھی نکل کر فرقہ وارانہ کشیدگی بن گئی۔‘

ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ یہ صرف ایک زمین کے ٹکڑے کا تنازعہ نہیں ہے بلکہ پانچ، چھ اور بڑے تنازعات بھی ہیں جو جب بھی سر اٹھاتے ہیں تو یہ قبائل یا خاندانوں سے نکل کر فرقہ وارانہ تصادم کی شکل اختیار کر لیتے ہیں۔ خود خیبرپختونخوا کے محکمہ داخلہ و قبائلی امور کے اعلامیے کے مطابق ’ضلع کرم میں 08 مختلف زمینی تنازعات چل رہے ہیں جن میں سے بیشتر آزادی سے پہلے کے زمانے کے ہیں۔‘

Share on Social

اپنا تبصرہ بھیجیں