لندن (ڈیلی اردو/ڈی پی اے/اے پی/بی بی سی) برطانوی نشریاتی ادارے بی بی سی کے ساتھ گفتگو کے دوران سعودی عرب کے ایک سابق سرکاری اہلکار نے الزام لگایا کہ یمن کی جنگ سے متعلق شاہی فرمان پر سعودی ولی عہد محمد بن سلمان نے اپنے والد ملکی بادشاہ سلمان بن عبدالعزیز کے جعلی دستخط کیے تھے۔
یہ سابق سرکاری اہلکار سعد الجبری ہیں، جو سعودی انٹیلیجنس میں کام کر چکے ہیں اور اب کینیڈا میں جلاوطنی کی زندگی گزار رہے ہیں۔ ان کا سعودی حکومت کے ساتھ طویل عرصے سے ایک تنازعہ چل رہا ہے۔ ان کے بچے ایک سعودی جیل میں قید ہیں اور الجبری کا دعویٰ ہے کہ ان کے بچوں کے خلاف کیس کا مقصد انہیں سعودی عرب واپس آنے پر مجبور کرنا ہے۔
انہوں نے کہا کہ سعودی وزارت داخلہ سے منسلک ایک ”قابل اعتماد‘‘ اہلکار نے تصدیق کی تھی کہ محمد بن سلمان نے اپنے والد کی جگہ یمن کی جنگ سے متعلق شاہی فرمان پر دستخط کیے تھے۔
الجبری کا کہنا تھا، ”ہم حیران تھے کہ شاہی فرمان میں زمینی کارروائی کے آغاز کی اجازت دے دی گئی تھی۔ انہوں نے (محمد بن سلمان نے) اس پر اپنے والد کے جعلی دستخط کیے۔ جب کہ بادشاہ کی ذہنی صحت بگڑتی جا رہی تھی۔‘‘ تاہم سعد الجبری نے اس الزام کے حوالے سے کوئی ثبوت فراہم نہیں کیے۔
خبر رساں ادارے ایسوسی ایٹڈ پریس نے اس بیان پر سعودی موقف جاننے کے لیے متعلقہ حکام سے رابطہ کیا، تاہم ان کی جانب سے کوئی فوری جواب موصول نہ ہوا۔ سعودی عرب کا موقف رہا ہے کہ سعد الجبری اپنی ساکھ کھو چکے ہیں۔
ایسوسی ایٹڈ پریس نے سعد الجبری کے وکیل سے بھی رابطہ کیا، لیکن ان کی جانب سے بھی فوری طور پر کوئی جواب موصول نہ ہوا۔
شہزادہ محمد بن سلمان اب تک باضابطہ طور پر سعودی عرب کے بادشاہ تو نہیں بنے تاہم اپنے ملک میں اصل اقتدار انہی کے پاس ہے، یعنی وہ سعودی عرب کے ڈی فیکٹو حکمران ہیں۔
یمن کی جنگ کے آغاز کے وقت محمد بن سلمان سعودی عرب کے وزیر دفاع تھے اور انہوں نے یقین دلایا تھا کہ یمن میں حوثی باغیوں کے خلاف جنگ جلد ختم ہو جائے گی۔
لیکن اس جنگ کو شروع ہوئے اب تقریباً ایک دہائی کا عرصہ گزر چکا ہے اور اس میں قریب ڈیڑھ لاکھ انسان ہلاک ہو چکے ہیں۔ یہ جنگ دنیا کے بدترین انسانی بحرانوں میں سے ایک کا سبب بھی بنی، جس کی وجہ سے ہزارہا اموات ہو چکی ہیں۔
الجبری نے اور کیا الزامات عائد کیے؟
سعد الجبری سابق سعودی ولی عہد محمد بن نائف کے دور میں سعودی حکومت کا حصہ تھے اور نائن الیون کے حملوں کے بعد دہشت گرد تنظیم القاعدہ کے خلاف جنگ میں امریکہ کے قابل بھروسہ راز داں بھی تھے۔
سن 2017 میں بادشاہ سلمان بن عبدالعزیز نے محمد بن نائف کی جگہ اپنے بیٹے محمد بن سلمان کو ولی عہد بنا دیا تھا اور خیال کیا جاتا ہے کہ تب سے ہی محمد بن نائف زیر حراست ہیں۔
دوسری جانب سعد الجبری نے ایک امریکی عدالت میں محمد بن سلمان کے خلاف دائر کردہ ایک مقدمے میں یہ دعویٰ بھی کیا ہے کہ سعودی ولی عہد نے انہیں قتل کروانے کی کوشش کی۔ ان کا کہنا ہے کہ محمد بن سلمان اب بھی انہیں مروانا چاہتے ہیں۔
برطانوی نشریاتی ادارے کے ساتھ انٹرویو میں الجبری نے اپنا یہ الزام بھی دہرایا کہ محمد بن سلمان نے مبینہ طور پر سعودی عرب کے سابق بادشاہ عبداللہ کو مروانے کے بارے میں بھی سوچا تھا۔