بیجنگ (ڈیلی اردو/رائٹرز/ڈی پی اے/اے پی، اے ایف پی) چینی وزیر خارجہ نے بیجنگ میں امریکہ کے قومی سلامتی کے مشیر جیک سلیوان سے ملاقات کی ہے تاکہ صدر شی جن پنگ اور جو بائیڈن کے درمیان ممکنہ ملاقات اور نئی بات چیت کے حوالے سے کوئی حتمی فیصلہ کیا جا سکے۔
امریکہ کے قومی سلامتی کے مشیر جیک سلیوان منگل کے روز بیجنگ پہنچے تھے اور بدھ کے روز انہوں نے چینی وزیر خارجہ وانگ یی سے بات چیت کی پھر جمعرات کے روز انہوں نے سینٹرل ملٹری کمیشن کے بیجنگ ہیڈ کوارٹر میں چینی فوج کے سینیئر سربراہ ژانگ یوشیا سے ملاقات کی۔
سن 2016 کے بعد کسی بھی امریکی قومی سلامتی کے مشیر کا یہ پہلا دورہ چین ہے۔ یہ دورہ ایسے وقت میں ہوا، جب خطے میں امریکہ کے اتحادی جاپان اور فلپائن کے ساتھ چین بعض سکیورٹی کے مسائل میں الجھا ہوا ہے۔
چینی وزیر خارجہ کی امریکہ کو تنبیہ
بدھ کے روز ملاقات کے دوران وانگ یی نے چین کے اس دیرینہ موقف کا اعادہ کیا کہ تائیوان چین کا ہے” اور تائیوان کی آزادی کے حصول سے علاقائی امن و استحکام کو خطرہ لاحق ہے۔”
انہوں نے امریکہ سے یہ بھی مطالبہ کیا کہ وہ “تائیوان کو مسلح کرنا بند کرے اور چین کے پرامن اتحاد کی حمایت کرے۔”
وانگ نے سلیوان کو بتایا، “امریکہ کو چین کی خود مختاری اور علاقائی سالمیت کو نقصان پہنچانے کے لیے دو طرفہ معاہدوں کو بہانے کے طور پر استعمال نہیں کرنا چاہیے۔ اور نہ ہی اسے فلپائن کے جانب سے کی جانے والی خلاف ورزیوں کے اقدامات کی حمایت یا تعریف کرنی چاہیے۔”
چین کے سرکاری نشریاتی ادارے سی سی ٹی وی کے مطابق وانگ نے سلیوان کو بتایا کہ “چین اور امریکہ کے درمیان بات چیت کی ہموار ترقی ایک دوسرے کے ساتھ مساوی سلوک کرنے میں مضمر ہے۔”
چینی فوج کے سربراہ ژانگ یوشیا سے ملاقات
سلیوان نے چینی فوج کے ایک سینیئر جنرل ژانگ یوشیا سے کے دوران کہا، “یہ شاذ و نادر بات ہے کہ ہمیں اس قسم کے تبادلے کا موقع ملے۔” وائٹ ہاؤس کی طرف سے ایک بیان میں کہا گیا کہ دونوں عہدیداروں نے “مستقبل قریب میں” دونوں فریقوں کے تھیٹر کمانڈروں کے درمیان ایک کال منعقد کرنے پر اتفاق کیا۔
بیجنگ کی وزارت دفاع کے ایک بیان میں کہا گیا کہ ژانگ نے بات چیت کے دوران امریکی اہلکار کو خبردار کیا کہ تائیوان کی حیثیت ایسی “پہلی سرخ لکیر ہے جسے چین اور امریکہ کے تعلقات میں عبور نہیں کیا جا سکتا۔ البتہ چین آبنائے تائیوان میں امن اور استحکام کو برقرار رکھنے کے لیے ہمیشہ پرعزم رہا ہے۔”
ان کا مزید کہنا تھا کہ لیکن ‘تائیوان کی آزادی’ اور آبنائے تائیوان میں امن و استحکام ایک دوسرے سے مطابقت نہیں رکھتے۔
چین فوجی افسر نے کہا، “چین کا مطالبہ ہے کہ امریکہ تائیوان کے ساتھ فوجی گٹھ جوڑ بند کرے، تائیوان کو مسلح کرنا بند کرے، اور تائیوان سے متعلق جھوٹی داستانیں پھیلانا بند کرے۔”
خبر رساں ایجنسی روئٹرز کی ایک رپورٹ کے مطابق فریقین نے انڈو پیسیفک خطے کے متنازع مقامات کے حوالے سے اپنے ملٹری تھیٹر کمانڈروں کے درمیان ویڈیو کالز کا اہتمام کرنے پر بھی اتفاق کیا۔
اس اقدام کا مقصد آبنائے تائیوان جیسے علاقوں میں تنازعات کو مزید بڑھنے سے روکنا ہے۔ وائٹ ہاؤس کا کہنا ہے کہ اس حوالے سے مزید مذاکرات “مستقبل قریب” میں ہوں گے۔
وائٹ ہاؤس نے دو طرفہ، علاقائی اور مختلف عالمی مسائل پر ہونے والی بات چیت کو “صاف، ٹھوس اور تعمیری” قرار دیا۔
ایک امریکی بیان میں کہا گیا کہ اختلافات اور تناؤ کے باوجود، “شمالی کوریا، برما اور مشرق وسطیٰ کے بارے میں مشترکہ خدشات” جیسے بہت سے مسائل اور تنازعات پر اتحاد کی گنجائش بھی ہے۔ یہ بھی اعلان کیا گیا کہ ماحولیات اور موسمیاتی تبدیلیوں کے حوالے سے صدر بائیڈن کے مشیر جان پوڈیسٹا، مزید بات چیت کے لیے جلد ہی چین کا دورہ کریں گے۔