305

متحدہ عرب امارات کا سوڈان جنگ میں مبینہ ’پراکسی کردار‘ جو اسے دنیا میں متنازع بنا رہا ہے

دبئی (ڈیلی اردو/بی بی سی) معروف امریکی گلوکار اور ریپر میکلمور نے جب اپنے دبئی میں مجوزہ لائیو پروگرام کو منسوخ کرنے کا اعلان کیا تو ان کے مداحوں اور شائقین میں سے کچھ نے یہ نتیجہ اخذ کیا کہ غزہ کے ساتھ یکجہتی کے لیے انھوں نے ایسا کیا۔

لیکن ایسا نہیں تھا۔ یہ لائیو پرفارمنس متحدہ عرب امارات کے شہر دبئی میں ہونے والی تھی اور اسے سوڈان میں ہونے والی جنگ کی وجہ سے منسوخ کیا گیا ہے۔ اس جنگ میں اب تک ہزاروں لوگ مارے جا چکے ہیں جبکہ لاکھوں افراد بھوک کا شکار ہیں اور سوڈان میں ایک انسانی بحران پیدا ہو گیا ہے۔

گلیمر سے بھرپور دبئی شہر متحدہ عرب امارات (یو اے ای) کا سب سے بڑا شہر ہے تاہم اس پر سوڈان میں متحارب فریقوں میں سے ایک ریپڈ سپورٹ فورسز (آر ایس ایف) کو فنڈز فراہم کرنے کا بڑے پیمانے پر الزام لگایا جاتا رہا ہے۔

میکلمور نے سوموار کو اپنی ایک انسٹاگرام پوسٹ میں کہا کہ ’سوڈان کا بحران تباہ کن ہے۔‘ فوڈ سکیورٹی کے کچھ ماہرین کا اندازہ ہے کہ اکتوبر تک وہاں 25 لاکھ لوگ بھوک اور بیماری کا شکار ہو کر ہلاک ہو سکتے ہیں۔

2012 کے کلاسک ریپ ’تھرفٹ شاپ‘ سے شہرت کی بلندیوں کو چھونے والے ریپر میکلمور نے مزید لکھا کہ ایسے میں ’مجھے اپنے آپ سے پوچھنا ہے کہ بطور فنکار میرا کیا فرض ہے؟‘

انھوں نے کہا کہ ‘اگر میں اپنی روح کے خلاف جا کر دانستہ طور پر پیسے لیتا ہوں تو میں ان سیاست دانوں سے کس طرح مختلف ہوں جن کے خلاف میں احتجاج کر رہا ہوں؟‘

ان کا موقف سوڈان میں جاری تنازع کے خلاف ہے جس کو یوکرین یا غزہ کے مقابلے میں بہت کم عالمی توجہ ملی ہے۔ میکلمور کا کہنا ہے کہ سوڈان کے بحران کو معمول کے طور پر دیکھا جا رہا ہے جبکہ ایسا نہیں ہے۔ کارکنوں کو امید ہے کہ دوسرے فنکار بھی میکلمور کی پیروی کریں گے۔

جنگ بندی کے لیے مہم چلانے والے لندن مین مقیم ایک سماجی کارکن نے کہا کہ میکلمور کا اپنا دورہ منسوخ کرنا ’بہت بڑی بات ہے۔‘ اور یہ کہ ان کے انسٹاگرام بیان پر کمنٹس میں بہت سے لوگوں نے کہا: ’اوہ، میرے خدا، سوڈان میں کیا ہو رہا ہے؟‘

’میرے خیال سے اس (بات) نے لوگوں کی آنکھیں کھول دیں۔‘

آر ایس ایف ملک پر کنٹرول کے لیے سوڈانی فوج سے لڑ رہی ہے اور اس پر اپنے کنٹرول والے علاقوں میں جنسی تشدد، لوٹ مار اور نسل کشی کا الزام ہے۔

ہیومن رائٹس واچ کی ایک رپورٹ سے پتہ چلتا ہے کہ آر ایس ایف نے ایک ایسے شہر میں نسل کشی کی ہے جہاں 15,000 افراد کے مارے جانے کا خدشہ ظاہر کیا جا رہا ہے جبکہ ایس آر ایف نے اس الزام سے انکار کیا ہے۔

آر ایس ایف اپنا رشتہ ماضی کی ایک ملیشیا جنجاوید سے جوڑتی ہے جس پر 20 سال قبل سوڈان میں نسل کشی کا الزام لگایا گیا تھا۔ ایک اندازے کے مطابق 20 سال قبل اس وقت تقریبا 300,000 لوگ مارے گئے تھے۔

متحدہ عرب امارات سے ایس آر ایف کے روابط کے شواہد بھی سامنے آتے رہے ہیں۔

جنگ کے دوران یہ بات سامنے آئی کہ آر ایس ایف نے ڈرونز کا استعمال کیا ہے اور ایمنسٹی انٹرنیشنل کے ہتھیاروں کے ماہر نے انھیں وہی ڈرونز قرار دیا جو متحدہ عرب امارات نے ایتھوپیا اور یمن سمیت دیگر تنازعات میں اپنے اتحادیوں کو فراہم کیے تھے۔

رواں سال کے شروع میں سلامتی کونسل میں پیش کی گئی اقوام متحدہ کی رپورٹ کے مطابق ماہرین نے طیاروں کو مبینہ طور پر متحدہ عرب امارات سے آر ایس ایف کو ہتھیاروں کی منتقلی کرتے ہوئے بھی دیکھا ہے۔

متحدہ عرب امارات پر الزام یہ ہے کہ وہ بحیرہ احمر میں اقتصادی قدم جمانے اور سوڈان کے وسائل سے فائدہ اٹھانے کی کوشش کر رہا ہے۔

آر ایس ایف سوڈان کی سب سے زیادہ منافع بخش سونے کی کانوں کو کنٹرول کرتا ہے، جو دارفور کے علاقے میں واقع ہیں۔

سوئٹزرلیند کی ایک امدادی تنظیم نے الزام لگایا ہے کہ اماراتی اربوں ڈالر مالیت کی قیمتی دھاتیں درآمد کر رہے ہیں جو سوڈان سمیت افریقہ سے سمگل کی جاتی ہیں۔

اور سوڈان میں پچھلے سال وسیع پیمانے پر لڑائی شروع ہونے سے پہلے متحدہ عرب امارات نے بحیرہ احمر کے ساحل پر ایک بندرگاہ، ہوائی اڈے اور اقتصادی زون کی تعمیر اور اسے چلانے کے لیے چھ ارب ڈالر کے معاہدے پر دستخط کیے تھے۔

متحدہ عرب امارات کی حکومت نے سوڈان کے تنازع میں ملوث ہونے کے الزامات کو ’بے بنیاد اور غلط‘ قرار دیا ہے اور کہا ہے کہ اس کا مقصد وہاں ’جاری لڑائی اور انسانی تباہی سے توجہ ہٹانا ہے۔‘

متحدہ عرب امارات نے اقوام متحدہ کو ایک بیان میں کہا وہ ’تنازع میں فوری جنگ بندی کے اپنے مطالبے کا اعادہ کرتا ہے‘ اور اس نے متحارب فریقوں کو لڑائی بند کرنے اور بات چیت کے ذریعے پرامن حل تلاش کرنے کے لیے کام کرنے کی بات کہی ہے۔

میکلمور نے انسٹاگرام پر کہا کہ کئی گروپ مہینوں سے سوڈان کے بحران پر ان سے رابطہ کر رہے تھے۔

برطانیہ میں رہنے والے سوڈانیوں کے لیے کام کرنے والی تنظیم مدنیہ کے نمائندے نے بی بی سی نیوز کو بتایا کہ ’ایک بڑے فنکار کا بائیکاٹ سوڈان کے معاملے پر زیادہ توجہ مبذول کرائے گا، اور یہ بہت اچھا ہے۔‘

’اگر زیادہ سے زیادہ لوگ سوڈان میں متحدہ عرب امارات کی شمولیت پر غور کریں تو اہم بات ہوگی۔‘

اگلے چند ہفتوں میں کیلون ہیرس دبئی کے بندرگاہ میں اپنا پرفارمنس دینے والے ہیں اور سوفی ایلس بیکسٹر کا اوپیرا ہاؤس میں ایک پروگرام طے ہے۔ ان دونوں نے ہماری درخواست کا جواب نہیں دیا۔

کیا بائیکاٹ سے کچھ بدلے گا؟

امریکہ میں میساچوسٹس کی ٹفٹس یونیورسٹی میں سوڈان کے امور کے ماہر پروفیسر الیکس ڈی وال کا خیال ہے کہ ثقافتی اور کھیلوں کا بائیکاٹ ان علاقائی طاقتوں کو نشانہ بنانے کا ایک مؤثر طریقہ ہو سکتا ہے جن پر جنگ کو ہوا دینے کا الزام ہے۔

ان کا کہنا ہے کہ متحدہ عرب امارات اور سعودی عرب افریقہ میں اثر و رسوخ کے لیے مقابلہ کر رہے ہیں اور سوڈان میں مخالف فریقوں کی حمایت کر رہے ہیں۔ لندن میں امارات اور سعودی سفارتخانوں نے بی بی سی کی درخواست کا جواب نہیں دیا۔

پروفیسر ڈی وال کا کہنا ہے کہ حریف عرب ممالک معاشی طور پر اتنے طاقتور ہیں کہ کوئی بھی ان پر پابندی نہیں لگا سکتا۔ ساتھ ہی ان کہنا ہے کہ ایسے کسی بھی اقدام پر عمل درآمد مشکل ہوگا۔

انھوں نے مزید کہا کہ یہ بہت سے مغربی ممالک کے لیے ترجیحی نہیں ہوگا کیوں کہ وہ اسرائیل-غزہ جنگ اور ایران کے ساتھ کشیدگی میں پہلے ہی سے الجھے ہوئے ہیں۔

لیکن ان کا یہ بھی کہنا ہے کہ متحدہ عرب امارات اور سعودی عرب بین الاقوامی سطح پر اپنی ساکھ کا بہت خیال رکھتے ہیں۔

’ثقافت اور کھیلوں کی شخصیات کا یہ کہنا کہ ہم وہاں نہیں جا رہے ہیں‘ تجارتی پابندیوں یا مالی جرمانے کے خطرے سے کہیں زیادہ معنی رکھتا ہے۔‘

کیلیفورنیا کی چیپمین یونیورسٹی میں مشرقی افریقی مالیات کی ماہر ڈاکٹر کرسٹل مرفی جنوبی افریقہ میں نسل پرستی کے خلاف مظاہروں کی طرف اشارہ کرتے ہیں جس نے ماضی میں ’سیاست اور بین الاقوامی تعلقات کی از سر نو تعریف کی۔‘

وہ بتاتی ہیں کہ یہ ’بائیکاٹ بہت سے عوام اور مشہور شخصیات کی جانب سے اس مسئلے کے بارے میں بیداری پیدا کرنے (اور پروگرام کرانے) کے نتیجے میں سامنے آئے ہیں کہ بہت سے لوگ اپنی حکومتوں پر دباؤ ڈال رہے ہیں۔‘

پہلے سے ہی کچھ لوگ میکلمور کے نقش قدم پر چل رہے ہیں۔

ان کی پوسٹ پر ایک تبصرہ کرنے والے نے لکھا کہ انھیں متحدہ عرب امارات میں ہونے والے کنونشن میں تقریر کرنے کے لیے مدعو کیا گیا ہے لیکن ’آپ کی پوسٹ نے مجھے مزید تحقیق کرنے کی ترغیب دی اور میں نے پیشکش کو مسترد کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔‘

Share on Social

اپنا تبصرہ بھیجیں