18

احمدیوں کو اقلیت قرار دینے کے روز سرکاری چھٹی دینے کی قرارداد سینیٹ سے منظور

لاہور (ڈیلی اردو/وی او اے) پاکستان کے ایوانِ بالا سینیٹ آف پاکستان نے احمدیوں کو اقلیت قرار دینے کے روز سات ستمبر کو ملک بھر میں عام تعطیل اور اسے قومی دن کے طور پر منانے کی قرارداد منظور کر لی ہے۔ انسانی حقوق کی تنظیموں اور بعض مبصرین کی جانب سے اس پر ردِعمل بھی سامنے آ رہا ہے۔

پیر کو سینیٹ کے اجلاس کے دوران جمعیت علمائے اسلام (ف) کے رُکن مولانا عظاء الرحمان نے قرارداد قومی اسمبلی میں پیش کی جسے کثرتِ رائے سے منظور کر لیا گیا۔ کسی رُکن نے قرارداد کی مخالفت نہیں کی۔

قرارداد میں کہا گیا ہے کہ اس دن سرکاری چھٹی دی جائے تاکہ بچوں کو پتا چلے کہ اس دن پر احمدیوں کو اقلیت قرار دینے کا تاریخی فیصلہ کیا گیا تھا۔

واضح رہے کہ سات ستمبر 1974 کو پاکستان کی پارلیمان نے آئینی ترمیم کے ذریعے احمدیوں کو غیر مسلم قرار دے دیا تھا۔ اس وقت ذوالفقار علی بھٹو پاکستان کے وزیرِ اعظم تھے۔

احمدی کمیونٹی کا گلہ رہا ہے کہ اس سے پہلے ہی اُنہیں عدم برداشت اور مذہبی منافرت کا سامنا تھا اور اس ترمیم کی منظوری سے اُن کے مسائل میں مزید اضافہ ہوا۔

قرارداد کی منظوری کے دوران اپنے خطاب میں سینیٹر عطاء الرحمان نے کہا کہ جن علما نے یہ کام کیا اُنہیں تمغے اور اعزازات دیے جانے چاہئیں۔

قرارداد منظور ہونے کے بعد اقلیتی سینیٹر دنیش کمار نے کہا کہ وہ قرارداد پر بات کرنا چاہتے ہیں جس پر پاکستان پیپلز پارٹی کے رکنِ سینیٹ فاروق ایچ نائیک نے کہا کہ قرارداد پاس ہو گئی ہے، اب اس پر بات نہیں ہو سکتی۔

خیال رہے کہ پاکستان میں رواں ماہ کا آغاز مختلف مذہبی جماعتوں کی جانب سے احمدیوں کو غیر مسلم قرار دینے کے 50 سال مکمل ہونے کے طور پر منایا گیا۔ اِس سلسلے میں چھوٹی بڑی تقریبات کا اہتمام کیا گیا۔ ایسی تمام تقریبات غیر سرکاری سطح پر ہوئیں۔ اِن تقریبات میں احمدیوں کو غیر مسلم قرار دینے کے حکومتی فیصلے کو سراہا گیا۔

7 ستمبر کو لاہور کے گریٹر اقبال پارک میں جمعیت علمائے اسلام (ف) کے جلسے کے دوران ایک مقرر کی جانب سے احمدیوں کے قتل پر اُکسانے کا معاملہ بھی سامنے آیا تھا۔

سینیٹ سے قرارداد کی منظوری پر وائس آف امریکہ نے احمدی کمیونٹی کے ترجمان سے اس پر مؤقف لینے کے لیے رابطہ کیا، تاہم بعض ناگزیر وجوہات کی بنا پر اُنہوں نے اس پر گفتگو سے اجتناب کیا۔

احمدی کمیونٹی کے افراد کا گلہ رہتا ہے کہ پاکستان میں اُنہیں مذہبی آزادی حاصل نہیں اور ان پر مقدمات قائم کر کے اُنہیں ہراساں کیا جاتا ہے۔

‘یہ ایک خطرناک رجحان ہے’

ہیومن رائٹس کمیشن آف پاکستان کی سابق چیئرپرسن زہرہ یوسف سمجھتی ہیں کہ سینیٹ سے قرارداد کی منظوری سے یوں معلوم ہوتا ہے کہ پاکستان کو ایک ماڈریٹ اسلامی ریاست بنانے کے بجائے ملک کو انتہا پسندی کی طرف لے جایا جا رہا ہے۔

وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے اُن کا کہنا تھا کہ سینیٹ سے قرارداد کی منظوری سے یوں لگتا ہے کہ جس طرح ملک میں خوف کا ماحول ہے، یہی اب سینیٹ میں بھی نظر آ رہا ہے۔

اُن کا کہنا تھا کہ پاکستان میں توہینِ مذہب قانون پر سوال اُٹھایا جائے تو زندگی خطرے میں پڑ جاتی ہے۔ سابق گورنر پنجاب سلمان تاثیر کے ساتھ جو کچھ ہوا وہ سب کے سامنے ہے۔

کالم نویس اور دانشور وجاہت مسعود سمجھتے ہیں کہ سینیٹ سے احمدیوں سے متعلق قرارداد پاس ہونا ایک خطرناک رحجان ہے۔

وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے اُن کا کہنا تھا کہ یہ پارلیمنٹ کو دھمکی آمیز طریقے سے مفلوج کرنے کا ایک طریقہ ہے۔

اُن کا کہنا تھا کہ کسی رکنِ پارلیمنٹ میں کیا ہمت ہو سکتی ہے کہ وہ اِس قرارداد کی مخالفت کرتا۔ اُن کا کہنا تھا کہ یہ ایک ایسا معاملہ ہے جس پر پاکستان کا ایک سابقہ آرمی چیف اپنی صفائیاں دیتا رہا ہے اور موجودہ چیف جسٹس کو بھی خطرناک نتائج کا سامنا رہا ہے۔

واضح رہے کہ گزشتہ ماہ ایک مذہبی سیاسی جماعت تحریکِ لبیک پاکستان (ٹی ایل پی) کے نائب امیر نے مبارک ثانی کیس میں سپریم کورٹ آف پاکستان کے چیف جسٹس قاضی فائز عیسٰی کو سرِ عام قتل کرنے پر انعام کا اعلان کیا تھا۔

زہرہ یوسف کا کہنا تھا کہ 1974 میں احمدیوں سے متعلق ہونے والی آئینی ترمیم نے ملک میں عدم برداشت کا آغاز کیا جس سے پاکستان میں رہنے والے ایک طبقے کو مذہب کی بنیاد پر غیر مسلم قرار دیا گیا۔

واضح رہے کہ حکومتِ پاکستان کا یہ مؤقف رہا ہے کہ ملک بھر میں بسنے والی اقلیتوں کو تمام حقوق حاصل ہیں اور مذہب کی بنیاد پر کسی کے ساتھ نامناسب سلوک کی اجازت نہیں دی جاتی۔

ساتھ ہی حکومت کا یہ بھی مؤقف رہا ہے کہ توہینِ مذہب قانون کا غلط استعمال روکنے کے لیے کئی اقدامات کیے گئے ہیں جن میں ایسے مقدمات کے اخراج کے علاوہ جھوٹی شکایت کرنے والوں کے خلاف کارروائی جیسے اقدامات بھی شامل ہیں۔

Share on Social

اپنا تبصرہ بھیجیں