واشنگٹن (ڈیلی اردو/اے پی/رائٹرز/وی او اے) رواں ماہ کے آغا میں جب ایران نے اسرائیل پر بیلسٹک میزائل حملے کیے تھے اس بات کی توقع کی جا رہی تھی کہ اسرائیل ان کا جواب دے گا اور اس جوابی کارروائی کے ممکنہ اہداف بھی زیرِ بحث تھے۔
اسرائیل نے ہفتے کو صبح سویرے ایران کے مختلف مقامات پر کئی اہداف کو نشانہ بنایا ہے۔ ان میں سے کئی حملے ایران کی سرحد کے کافی اندر تک کیے گئے اور دار الحکومت تہران بھی میں بھی دھماکے سنے گئے۔
اسرائیل کی فوج کہنا ہے کہ اس نے ’نپے تلے اور ٹارگٹڈ‘ حملے کیے ہیں جن میں ایران کے میزائل دفاعی نظام، فضائی جنگی صلاحیتوں اور ایسی تنصیبات کو نشانہ بنایا ہے جہاں اسرائیل کے خلاف استعمال ہوالے میزائل اور دیگر ہتھیار تیار کیے جاتے ہیں۔
ایران کا اصرار ہے کہ اسرائیل کے حملوں سے بہت ’محدود پیمانے پر‘ نقصان ہوا ہے۔
ان حملوں سے ایران کو کتنا نقصان پہنچا؟
اسرائیل کے حملوں کی نوعیت کیا تھی؟ اس پر خطے میں ردِ عمل کیا تھا اور ایران کا ممکنہ جواب کیا ہوسکتا ہے؟ یہاں ان اہم سوالوں کا احاطہ کیا گیا ہے۔
ایران کو کتنا نقصان ہوا؟
یہ تاحال واضح نہیں ہے کہ اسرائیل کے حملوں نے ایران میں کس پیمانے پر تباہی کی ہے۔ دونوں ہی ممالک نے اس بارے میں تاحال تفصیلات بیان نہیں کی ہیں۔ ایران کا کہنا ہے کہ اسرائیل کے حملے میں اس کے صوبے ایلان، خوزستان اور تہران میں فوجی اڈوں کو ہدف بنایا گیا ہے۔
اسرائیل ان حملوں میں ایران کے میزائل ڈیفینس سسٹم کو بری طرح نقصان پہنچانے کا دعویٰ کر رہا ہے۔
اسرائیل فوج کے ترجمان ریئر ایڈمر ڈینیئل ہگاری کا کہنا ہے کہ اسرائیل ایران میں کارروائی کے لیے اس کی فضائی حدود میں آزادانہ نقل و حرکت کر سکتا ہے۔
بعض اہداف کو چھوڑنا بھی اہم ہے
اسرائیل نے اپنے حملے میں اس بات کا خیال رکھا ہے کہ ایسے اہداف کو نشانہ بنایا جائے جس کے بعد ایران میں شدید ردِعمل پیدا نہ ہو۔ خاص طور پر ایران کی معیشت کے لیے ریڑھ کی حیثیت رکھنے والی تیل کی تنصیبات اور اس کے جوہری تنصیبات کو نقصان نہیں پہنچایا گیا ہے۔
رواں ماہ امریکہ کے صدر جو بائیڈن نے واضح کردیا تھا کہ وہ ایران کی جوہری تنصیبات پر اسرائیل کے حملوں کی حمایت نہیں کریں گے۔
امریکی حکام کے مطابق اسرائیل کو امریکہ کی جانب سے ایئر ڈیفینس میزائل کی فراہمی کے بعد اندازہ یہی تھا کہ اسرائیل اس بات پر آمادہ ہوگیا ہے کہ وہ ایران کی تیل اور جوہری تنصیاب کو نشانہ نہیں بنائے گا لیکن اس بات کو کسی باقاعدہ معاہدے کی شکل نہیں دی گئی تھی۔
’اسرائیل کا جوابی حملہ ختم ہو چکا ہے‘
اسرائیل نے واضح کیا ہے کہ ہفتے کو ایران پر کی گئی بمباری کے بعد اس کا جوابی حملہ ختم ہوچکا ہے۔
فوج کے ترجمان ڈینیئل ہگاری نے ہفتے کو کہا تھا کہ جوابی کارروائی مکمل ہوچکی ہے اور اس کے مقاصد بھی حاصل کرلیے گئے ہیں۔
اس کے کچھ ہی دیر بعد ایران کی سول ایوی ایشن آرگنائزیشن نے فضائی حملے کے باعث معطل کیا گیا فلائٹ آپریشن بحال کردیا تھا۔
تہران میں دکانیں اور بازار کھل گئے تھے اور سب کچھ معمول کے مطابق تھا البتہ پیٹرول اسٹیشنز پر لمبی قطاریں تھی اور شہریوں نے ایندھن ذخیرہ کرنا شروع کردیا تھا۔
تل ابیب میں قائم ادارے نیشنل سیکیورٹی اسٹڈیز سے تعلق رکھنے والے محقق یوئیل گزانسکی کا کہنا ہے کہ اسرائیل کے حملوں کا مقصد یہ واضح کرنا تھا کہ اگر اس کے خلاف جارحیت کی گئی تو وہ خاموش نہیں رہے گا۔ لیکن یہ ایسے انداز میں کیا گیا کہ ایران کو زیادہ شرمندگی نہ اٹھانا پڑے۔
حملوں پر آنے والا ردِ عمل
وائٹ ہاؤس نے واضح کردیا تھا کہ یہ حملے ختم ہونے چاہییں اور دونوں ممالک کے درمیان کشیدگی مزید نہیں بڑھنی چاہیے۔
ساتھ ہی امریکہ نے ایران کو بھی کوئی ردِ عمل کرنے سے باز رہنے کی وارننگ دے دی تھی۔
برطانیہ کے وزیرِ اعظم کیئر اسٹارمر نے ’خطے میں مزید کشیدگی سے گریز‘ پر زور دیتے ہوئے فریقین سے تحمل کا مظاہرہ کرنے کا کہا تھا۔
مشرقِ وسطیٰ میں اسرائیل کے ایران پر حملے کا ردعمل زیادہ سخت تھا۔
عرب دنیا میں ایران کے سب سے بڑے حریف سعودی عرب نے اسرائیل کی کارروائی کی مذمت کی اور اسے بین الاقوامی قوانین کی خلاف ورزی اور خطے کے امن کے لیے خطرہ قرار دیا۔
ترکیہ نے اسرائیل پر الزام عائد کیا کہ وہ خطے کو ایک بڑی جنگ کے دہانے پر لے آیا ہے۔
ترکیہ کے بقول خطے میں اسرائیل کی پیدا کردہ دہشت کو ختم کرنا اب ایک تاریخی فریضہ بن چکا ہے۔
شام اور عراق بھی خطے کے ان ممالک میں شامل ہیں جنھوں نے اس حملے کی مذمت کی۔
سات اکتوبر کو اسرائیل پر حملہ کرنے والی فلسطینی عسکریت پسند تنظیم حماس نے بھی ایران پر اسرائیل کی کارروائی کو قابلِ مذمت قرار دیا۔ حماس کے حملے میں اسرائیل کے 1200شہری ہلاک ہوگئے تھے جن میں سے زیادہ تر عام شہری تھی جب کہ 250 افراد کو یرغمال بنا لیا گیا تھا۔
اس حملے کے جواب میں اسرائیل نے غزہ میں کارروائیوں کا آغاز کیا جن میں مقامی حکام کے مطابق 42 ہزار فلسطینی ہلاک ہوچکے ہیں۔ اس تعداد میں شہریوں اور جنگجوؤں کی تعداد میں تخصیص نہیں کی گئی ہے۔ تاہم مقامی حکام کا دعویٰ ہے کہ ان میں سے نصف سے زائد تعداد خواتین اور بچوں کی ہے۔
ایران کیا کرے گا؟
ایران کی وزارت ِخارجہ نے اسرائیل کے حملوں کو بین الاقوامی قوانین کی خلاف ورزی قرار دیا ہے اور واضح کیا ہے کہ ایران دفاع کا حق رکھتا ہے۔
اسرائیل نے اپنے حملوں کو رواں ماہ ایران کی جانب سے داغے گئے میزائلوں کا جواب قرار دیا ہے۔ ان میزائلوں میں سے اکثر کو ہدف پر پہنچنے سے پہلے ہی گرا دیا گیا تھا۔
ایران ایک بار پھر اسرائیل کو نشانہ بنانے کے لیے میزائل حملے کرسکتا ہے تاہم ایسا کرنے پر دوبارہ اسرائیل کے جواب کا خطرہ پیدا ہوجائے گا۔
اسرائیل کے حالیہ حملے کے بعد ایران کا دفاع پہلے ہی کمزور ہوچکا ہے اس لیے کسی بھی ممکنہ ردِ عمل میں ایران کی حدود میں ہونے والی کارروائیاں زیادہ تباہ کن ہوسکتی ہیں۔
اسرائیل کی حالیہ کارروائی کے بعد ایران غزہ میں حماس اور لبنان میں اپنے اتحادی حزب اللہ کو کارروائیوں میں شدت پر اکسا سکتا ہے۔ لیکن یہ دونوں گروہ اسرائیل کے ساتھ جاری جنگ میں پہلے ہی بھاری نقصان اٹھا چکے ہیں۔
خبر رساں ادارے ’رائٹرز‘ کے مطابق ایران کے سپریم لیڈر علی خامنہ ای نے کہا ہے کہ ایرانی حکام کو طے کرنا چاہیے کہ وہ اسرائیل کے سامنے اپنی قوت کا مظاہرہ کس طرح کریں گے۔
ایران کی سرکاری خبر رساں ایجنسی ’ارنا‘ نے رپورٹ کیا ہے کہ خامنہ ای نے کہا کہ دو راتیں قبل اسرائیل نے جو کارروائی کی ہے انہیں نہ ہی کم کرکے بیان کرنا چاہیے اور نہ ہی ان میں مبالغہ کیا جائے۔
علی خامنہ ای کے بیان میں فوری کسی کارروائی کی بات نہیں کی گئی ہے۔ تاہم انہوں نے ایرانی حکام کو کہا ہے کہ اسرائیل کو ایران کی طاقت دکھانی چاہیے۔ لیکن اس کا فیصلہ حکام عوامی اور قومی مفاد کو مدِ نظر رکھتے ہوئے کریں۔
لبنان میں قائم تھنک ٹینک ’چیٹ ہیم ہاؤس‘ سے تعلق رکھنے والی مشرقِ وسطیٰ کے امور کی ماہر صنم وکیل کا کہنا ہے کہ ایران صرف اسرائیل کے حملے سے ہونے والے نقصانات کو کم سے کم بیان کرنے پر اکتفا کرے گا حالاں کہ اسے قدرے بڑے نقصان کا سامنا کرنا پڑا ہے۔
ان کے مطابق ایران کو کوئی بھی قدم اٹھانے سے پہلے کئی پہلو مدِ نظر رکھنا ہوں گے۔ اس کی دفاعی صلاحیت کی اپنی محدودات ہیں پھر پابندیوں کے باعث بحرانوں میں گھری معیشت بھی ایک بڑا مسئلہ ہے۔
صنم وکیل کے بقول ایران کو امریکہ میں انتخابات کے نتائج کی صورت میں آنے والی تبدیلیوں کو بھی دیکھنا ہوگا۔ یہ سب پہلو کشیدگی میں اضافے یا سفارتی رابطوں دونوں ہی کی سمت کا تعین کریں گے۔