284

ایران: تہران یونیورسٹی میں احتجاجاً اپنے کپڑے اتارنے والی طلبہ گرفتار

تہران (ڈیلی اردو/رائٹرز/بی بی سی) ایران کے دارالحکومت تہران کی یونیورسٹی آف سائنس اینڈ ریسرچ میں ایک طالبہ نے مذہبی لباس کے سخت قوانین کے خلاف احتجاج کرتے ہوئے اپنے کپڑے اتار دیے اور اس دوران وہ نیم برہنہ حالت میں گھومتی رہیں جسے پولیس نے گرفتار کرلیا۔

بی بی سی فارسی کی ڈیجیٹل ٹیم نے اس واقعے کی تصدیق کی ہے کہ یہ واقعہ تہران کی سائنس اور تحقیق کی آزاد یونیورسٹی کے بلاک نمبر ایک میں دو نومبر کی دوپہر کو پیش آيا۔

ایرانی خبررساں ادارے آئی ایس این اے سمیت ایرانی میڈیا نے یہ بھی اطلاع دی ہے کہ اس ’طالبہ‘ کو طلباء کی فلم بندی کرنے کے بعد ان کے احتجاج کا سامنا کرنا پڑا اور ان کے احتجاج کے جواب میں اس نے اپنے کپڑے اتار دیے۔

غیر ملکی خبر رساں ادارے ’رائٹرز‘ کے مطابق سوشل میڈیا پر ایران کی یونیورسٹی کی ایک ویڈیو وائرل ہورہی ہے جس میں ایک لڑکی ملک میں لباس پہننے سے متعلق سخت قوانین کے خلاف احتجاج ریکارڈ کررہی ہیں۔

وائرل ویڈیو میں دیکھا جاسکتا ہے کہ ایک لڑکی نیم برہنہ نظر آرہی ہے اور وہ اسی حالت میں یونیورسٹی کے ایک بلاگ میں سیڑھیوں پر بیٹھی ہوئی ہے۔

بعد ازاں، یونیورسٹی میں نیم برہنہ حالت میں گھومنے والی لڑکی کو گرفتار کرنے کی ویڈیو بھی منظر عام پر آئی، سوشل میڈیا پر پوسٹ کی گئی ایک ویڈیو میں اسلامک آزاد یونیورسٹی کی ایک شاخ کے سیکیورٹی گارڈ کو نامعلوم لڑکی کو گرفتار کرتے ہوئے دیکھا جاسکتا ہے۔

یونیورسٹی کے ترجمان عامر محبوب نے مائیکرو بلاگنگ ویب سائٹ ’ایکس‘ پر اپنی پوسٹ میں لکھا کہ ’پولیس اسٹیشن اور میڈیکل ٹیم کی جانب سے یہ بتایا گیا ہے کہ لڑکی کا دماغی توازن ٹھیک نہیں اور وہ شدید ذہنی دباؤ کا شکار تھی۔‘

تاہم کچھ سوشل میڈیا صارفین کا کہنا ہے کہ خاتون نے جان بوجھ کر ایسا قدم اٹھایا اور اس طرح احتجاج کا طریقہ اپنایا۔

ایک سوشل میڈیا صارف نے ایکس پر لکھا کہ ’زیادہ تر خواتین کے لیے کھلے عام نیم برہنہ حالت میں گھومنا کسی ڈراؤنے خواب سے کم نہیں ہے اور یہ حکام کی جانب سے حجاب پہننے کو لازمی قرار دیے جانے کا ردعمل تھا۔‘

خاتون کے اس اقدام کی حقیقت کا تو پتا نہیں چل سکا لیکن روزنامہ ’ہمشہری‘ نے اپنی ویب سائٹ پر کہا کہ ’ایک باخبر ذرائع نے بتایا ہے کہ تہران کی یونیورسٹی میں یہ اقدام اٹھانے والی خاتون شدید ذہنی مسائل کا شکار ہیں اور تحقیقات کے بعد ممکنہ طور پر خاتون کو نفسیاتی ہسپتال منتقل کیا جائے گا۔‘

ایمنسٹی انٹرنیشنل نے ایکس پر ایک ٹویٹ میں لکھا ’ایرانی حکام کو فوری طور پر اور غیر مشروط طور پر اس طالبہ کو رہا کرنا چاہیے، جس نے 2 نومبر کو اسلامی آزاد یونیورسٹی میں سکیورٹی حکام کی جانب سے جبری حجاب پر ہراساں کیے جانے کے خلاف احتجاج میں اپنے کپڑے اتار دیے جس کے بعد انھیں پرتشدد طریقے سے گرفتار کیا گیا۔‘

’اس دوران، حکام کو اس کے ساتھ تشدد اور دیگر ناروا سلوک سے باز رہنا چاہیے اور اس بات کو یقینی بنانا چاہیے کہ اس کی ان کے خاندان کے افراد اور وکیل تک رسائی ہو۔ حراست کے دوران اس کے خلاف مار پیٹ اور جنسی تشدد کے الزامات کی آزادانہ اور غیر جانبداری سے تحقیقات ہونی چاہیے۔‘

اگست میں اقوام متحدہ کی انسانی حقوق کونسل کی ایران کے لیے خصوصی نمائندہ کے طور پر اپنا کام شروع کرنے والی مائی ساتو نے بھی ایکس سوشل نیٹ ورک پر ایک ٹویٹ میں لکھا ’میں اس واقعے اور حکام کے ردعمل پر قریب سے نظر رکھ رہی ہوں۔‘

یاد رہے 16 ستمبر 2022 میں خواتین کے لباس کے سخت ضابطے کی مبینہ خلاف ورزی کے الزام میں گرفتار ہونے کے بعد 22 سالہ مہسا امینی کی مبینہ طور پر اخلاقی پولیس کے اہلکاروں کے ہاتھوں موت ہو گئی تھی جس کے بعد ایران میں مظاہرے پھوٹ پڑے تھے۔ جس کے دوران ہزاروں ایرانیوں کو گرفتار کیا گیا اور درجنوں سیکورٹی فورسز سمیت سینکڑوں مظاہرین ہلاک بھی ہوئے.

Share on Social

اپنا تبصرہ بھیجیں