313

پاکستان اور چین کے مابین حالیہ سفارتی کشیدگی کی وجہ کیا ہے؟

اسلام آباد (ڈیلی اردو/ڈوئچے ویلے) پاکستان میں مخلتف ترقیاتی منصوبوں پر کام کرنے والے چینی شہریوں کی سلامتی سے متعلق بیجنگ حکومت اپنے خدشات کا اظہار تو طویل عرصے سے کرتی آئی ہے تاہم حالیہ دنوں میں سفارتی سطح پر ہونے والے چند واقعات سے بظاہر ایسا لگ رہا ہے کہ جیسے چینی حکومت کے صبر کا پیمانہ لبریز ہوتا جا رہا ہے۔

مقامی ذرائع ابلاغ کے مطابق گزشتہ چھ ماہ کے دوران پاکستان میں کیے گئے دو الگ الگ دہشت گردانہ حملوں میں تقریباً سات چینی شہری مارے جا چکے ہیں۔ پاکستان میں سلامتی کے امور سے متعلق ماہرین کا کہنا ہے کہ اگر یہ صورتحال برقرار رہی تو دونوں ممالک کے مابین تعلقات میں فی الحال ایک حد تک محسوس کی جانے والی سرد مہری میں اضافہ بھی ہو سکتا ہے۔

اسلام آباد میں قائد اعظم یونیورسٹی کے شعبہ ڈیفنس اینڈ اسٹریٹجک اسٹڈیز سے وابستہ ڈاکٹر سلمیٰ کا کہنا ہے، ”پاکستان میں چینی شہریوں کا جانی نقصان چین کے لیے ایک سنگین اور حقیقی تشویش ہے اور پاکستان کو اسے روکنے کے لیے دستیا ب ہر قسم کے وسائل کا استعمال کرنے چاہیے۔‘‘

دونوں ممالک کے حکام کے درمیان خلاف روایت بیانات کے تبادلوں کا حوالہ دیتے ہوئے ڈاکٹر سلمیٰ نے کہا کہ پاکستان کو صبر سے کام لینا چاہیے اور اس معاملے کو پہلے سے زیادہ نزاکت کے ساتھ سنبھالنا چاہیے۔

انہوں نے مزید کہا،” جیسے جیسے دونوں ریاستوں کے درمیان روابط بڑھ رہے ہیں، مفادات بھی بڑھ رہے ہیں۔ پہلے یہ تعلقات صرف حکومتی سطح پر ہوا کرتے تھے تاہم اب عوامی سطح پر بھی روابط میں اضافہ ہوا ہے۔‘‘ انہوں نے کہا کہ جیسے جیسے چین ترقی کر رہا ہے، اس کی سفارتکاری کا انداز بھی تبدیل ہو رہا ہے اور پاکستانی حکام کو کوئی بھی بیان دیتے وقت زیادہ محتاط ہونا چاہیے۔

غیر روایتی سفارتی بیانات

پاکستانی وزیر خارجہ اسحاق ڈار نے اپنے ایک حالیہ بیان میں کہا تھا کہ پاکستان دنیا کا وہ واحد ملک ہے، جہاں چین اپنے شہریوں کے قتل برداشت کر رہا ہے۔ اس بیان کو بعض حلقوں میں ایسے دیکھا گیا کہ جیسے چین اپنے شہریوں کی زندگیوں کے حوالے سے کوئی سمجھوتہ کر رہا ہو۔

اس کے بعد اسلام آباد میں چینی سفیر کا کہنا تھا کہ چینی حکومت اور اس کے صدر اپنے شہریوں کی زندگیوں کو انتہائی سنجیدگی سے لیتے ہیں اور پاکستان میں سی پیک منصوبوں کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ سکیورٹی کی خراب صورت حال ہے۔

یہاں یہ بات قابل ذکر ہے کہ چینی سفیر کے اس بیان کے بعد پاکستانی وزارت خارجہ کی ترجمان کا کہنا تھا، ”چینی سفیر کا بیان حیران کن اور پاکستان اور چین کے درمیان سفارتی روایات کے مطابق نہیں ہے۔‘‘

اسلام آباد میں قائم ایک تھنک ٹینک پاکستان کونسل برائے چین کے ایگزیکٹو ڈائریکٹر ڈاکٹر فضل الرحمان نے وزیر خارجہ کے اس حالیہ بیان کا حوالہ دیتے ہوئے کہا، ”اسحاق ڈار کو سفارتی معاملات میں مہارت نہیں ہے اور جب آپ سفارتی سطح پر بیان دیتے ہیں تو ہر لفظ کے اثرات کو جانچنا ضروری ہوتا ہے۔‘‘

انہوں نے مزید کہا کہ پاکستان کی حکومت نے بیجنگ کے ساتھ تنازعے کو ہوا دی اور چینی سفیر کے بیان پر وزارت خارجہ کے ردعمل کا حوالہ دیتے ہوئے ڈاکٹر فضل الرحمان نے کہا، ”ایک بار غلطی ہو گئی اور چینی سفیر نے بیان دے دیا تھا تو پھر پاکستانی وزارت خارجہ کو اس پر جواب نہیں دینا چاہیے تھا، یہ ردعمل بالکل غیر ضروری تھا۔‘‘

خیال رہے کہ بیجنگ حکومت کی جانب سے پاکستان میں اپنے شہریوں کی حفاظت کے لیے بارہا کیے گئے مطالبات کے باوجود ابھی تک اس امر کو یقنی نہیں بنایا جا سکا۔

ڈاکٹر سلمیٰ کا کہنا ہے، ”چین کے سیکیورٹی مطالبات جائز ہیں۔ ہمیں غلط فہمیوں سے بچنا چاہیے اور دونوں ممالک کو مسائل کو حل کرنے کے لیے وسیع پیمانے پر بات چیت کرنی چاہیے۔ موجودہ سفارتی کشیدگی صرف علامتی ہے لیکن اگر پاکستان میں چینی شہریوں کی حفاظت کو یقینی نہیں بنایا جاتا تو وقت کے ساتھ ساتھ دونوں ملکوں کے مابین تعلقات میں کشیدگی بڑھ سکتی ہے۔‘‘

پاکستان اور چین کے مابین سکیورٹی کے معاملے میں کس حد تک تعاون ممکن

سلامتی کے امور کے ماہرین کا کہنا ہے کہ چین پاکستان کے ساتھ سکیورٹی کے شعبے میں خفیہ معلومات کے تبادلے اوراعلیٰ ٹیکنالوجی کے استعمال میں تعاون کر سکتا ہے۔ خیال رہے کہ پاکستانی سفارتی زرائع سے ایسی اطلاعات بھی سامنے آئیں تھیں، جن کے مطابق چین طویل عرصے سے پاکستان میں موجود اپنے شہریوں کی سکیورٹی کا بندو بست خود ہی کرنا چاہتا ہےلیکن پاکستان کی جانب سے اس معاملے پر کوئی پیش رفت دیکھنے میں نہیں آئی۔

سابق وفاقی سیکرٹری دفاع لیفٹیننٹ جنرل (ریٹائرڈ) نعیم خالد لودھی نے کہا، ”چین کے ساتھ صرف انٹیلیجنس میں گہرا تعاون ممکن ہے۔ اور یہ صرف چین کا مسئلہ نہیں ہے بلکہ پاکستان روس سے بھی انٹیلیجنس کے لحاظ سے مدد لے سکتا ہے کیونکہ اس شعبے میں ان کے پاس بھی مہارت ہے۔‘‘

انہوں نے کہا کہ چین پاکستان میں اپنے شہریوں کو خود سکیورٹی مہیا کرنے کے لیے دباؤ ڈالتا رہتا ہے لیکن پاکستان اسے قبول نہیں کر سکتا اور اس کے پیچھے ٹھوس وجوہات ہیں۔ اس بارے میں وضاحت کرتے اس تجزیہ کار کا کہنا تھا، ”چینی سیکیورٹی اہلکاروں کو اپنے ہاں لانا اس بات کے مترادف ہوگا کہ پاکستان اپنی سرزمین پر غیر ملکی شہریوں کو سیکیورٹی فراہم کرنے کے قابل نہیں ہے اور دوسری بات یہ کہ ہماری سرزمین پر چینی افواج دوسرے ممالک کے ساتھ بھی سفارتی تناؤ میں اضافہ کر سکتی ہے، لہذا ہمیں فیصلے کرتے وقت بہت سی چیزوں پر غور کرنا ہوگا۔‘‘

ڈاکٹر فضل بھی اسی خیال سے متفق ہیں کہ دونوں ممالک کے درمیان صرف انٹیلیجنس تعاون ممکن ہو سکتا ہے۔ انہوں نے کہا، “پاکستان پر یہ ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ وہ چینی شہریوں کو سکیورٹی فراہم کرے۔ چین، جہاں تک ممکن ہو، اعلیٰ درجے کی ٹیکنالوجی اور انٹیلیجنس شیئرنگ کے ذریعے پاکستان کی مدد کر سکتا ہے۔ لیکن جو بھی صورت حال ہو، پاکستان پابند ہے کہ وہ سکیورٹی کو یقینی بنائے کیونکہ چین اس پر سمجھوتہ کرنے والا نہیں ہے چاہے وہ اپنی ذاتی سکیورٹی کے مطالبے سے وقتی طور پر پیچھے بھی ہٹ جائے۔‘‘

جولائی 2021 میں پاکستان کے شمال مغربی صوبے خیبر پختوانخوا میں ایک خودکش بمبار ایک ڈیم پر کام کرنے والے چینی اہکاروں کی بس کو نشانہ بنایا تھا، جس میں کم از کم نو چینی باشندے اور چار پاکستانی ہلاک ہو گئے تھے۔

2022 میں، کراچی یونیورسٹی کیمپس میں چینی شہریوں کی ایک وین پر حملے کے نتیجے میں تین چینی اساتذہ اور ان کے پاکستانی ڈرائیور ہلاک ہو گئے تھے۔

Share on Social

اپنا تبصرہ بھیجیں