280

بھارت: اتر پردیش میں مسجد کے سروے کے دوران 4 افراد ہلاک، 20 پولیس اہلکار زخمی

نئی دہلی (ڈیلی اردو/بی بی سی) مغربی اتر پردیش کے سانبھل شہر کے مرکز میں واقع شاہی جامع مسجد کے باہر پولیس کی بھاری نفری تعینات ہے۔ ہر طرف پتھر پڑے ہیں۔ جلی ہوئی گاڑیوں کو ہٹا دیا گیا ہے لیکن کہیں کہںی راکھ اب بھی باقی ہے۔

اتوار کی صبح عدالت کے حکم پر جامعہ مسجد کے سروے کے دوران مشتعل ہجوم اور پولیس کے درمیان ہونے والے تصادم میں اب تک کم از کم چار افراد کی ہلاکت کی تصدیق ہو چکی ہے جبکہ 20 سے زیادہ پولیس اہلکار زخمی ہیں۔

پولیس انتظامیہ کا کہنا ہے کہ تشدد کے واقعے میں چار افراد ہلاک ہوئے ہیں۔ ہلاک ہونے والوں کے نام بلال، نعیم، کیف اور ایان بتائے ہیں۔

یہ ہنگامے پولیس اور مظاہرین کے درمیان اس وقت شروع ہوئے جب مغل دور کی جامع مسجد کا سروے کیا جا رہا تھا۔

حکام نے ان ہنگاموں سے تعلق کی بنیاد پر 21 افراد کو حراست میں لیا ہے جبکہ شہر میں انٹرنیٹ سروس بند کر دی گئی ہے اور علاقے کے سکولوں کو ایک روز کے لیے بند کر دیا گیا ہے۔

مسجد کا سروے کرنے کا حکم ایک مقامی عدالت نے گذشتہ ہفتے اس وقت دیا تھا جب ایک درخواست میں دعویٰ کیا گیا تھا کہ یہ مسجد ایک مندر کو تباہ کر کے اس کی جگہ تعمیر کی گئی تھی۔

سوشل میڈیا پر ان جھڑپوں کی ویڈیوز اور تصاویر میں دیکھا جا سکتا ہے کہ مسجد کے گرد چپل، پتھر اور اینٹیں پھینکی جا رہی ہیں۔

مراد آباد رینج کے ڈپٹی انسپکٹر جنرل آف پولیس (ڈی آئی جی) منی راج نے دعویٰ کیا ہے کہ پولیس کی جانب سے گولی نہیں چلائی گئی۔

تاہم سکیورٹی کے لیے قریبی اضلاع سے پولیس فورس طلب کر لی گئی ہے۔ اس وقت علاقے میں سڑکیں سنسان ہیں اور پولیس کے علاوہ چند لوگ ہی آتے جاتے نظر آ رہے ہیں۔

مقامی انتظامیہ نے سنبھل میں انٹرنیٹ بند کر دیا ہے اور شہر سے باہر موجود افراد، سماجی کارکنوں اور سیاست دانوں کے سنبھل آنے پر یکم دسمبر تک پابندی لگا دی گئی ہے۔ یہاں 12ویں جماعت تک کے سکول بھی بند کر دیے گئے ہیں۔

پولیس کا دعویٰ ہے کہ حالات معمول پر ہیں اور حالات پر قابو پا لیا گیا ہے۔

پولیس کا دعویٰ کیا ہے؟

مراد آباد رینج کے ڈپٹی انسپیکٹر جنرل آف پولیس (ڈی آئی جی) منی راج نے پیر کی صبح میڈیا کو بتایا کہ ’صورتحال پر قابو پا لیا گیا ہے اور پولیس فورس تعینات ہے۔‘

ڈی آئی جی نے اس تصادم میں اب تک چار لوگوں کی ہلاکت کی تصدیق کی ہے۔ بی بی سی سے بات کرتے ہوئے منیراج نے یہ بھی دعویٰ کیا ہے کہ پولیس نے فائرنگ نہیں کی ہے۔

اس کے ساتھ ہی سنبھل پولس نے ایم پی ضیاالرحمٰن برق سمیت 2700 سے زیادہ لوگوں کے خلاف مقدمہ درج کیا گیا ہے۔ اتوار کی شام تک 25 افراد کو گرفتار بھی کیا جا چکا تھا۔

ایم پی برق کا دعویٰ ہے کہ وہ نہ صرف اتوار کو یوپی میں تھے بلکہ آل انڈیا مسلم پرسنل لا کی میٹنگ میں شرکت کے لیے بنگلور میں تھے۔

سنبھل کے پولیس سپرنٹنڈنٹ کرشنا کمار نے ایک بیان میں کہا ہے کہ ہنگامہ آرائی میں ملوث ملزمان کی ڈرون فوٹیج اور واقعے کی ویڈیو کی بنیاد پر شناخت کی جائے گی اور تشدد میں ملوث تمام افراد کو گرفتار کیا جائے گا۔

ہلاک ہونے والوں کے لواحقین کیا کہتے ہیں؟
ادھر تشدد میں ہلاک ہونے والوں کی لاشوں کو دفنا دیا گیا ہے۔ سنبھل کے محلہ تبیلا کوٹ میں ایک دکان کے شٹر سے گزرنے والی گولی کا نشان یہاں ہونے والے تصادم کی کہانی بیان کرتا ہے۔

اسی علاقے کا رہائشی 34 سالہ نعیم غازی اتوار کو گولیاں لگنے سے ہلاک ہو گیا۔

نعیم کی بیوہ ماں گھر کے باہر ایک نوجوان کو گلے لگا کر رو رہی تھی اور بار بار کہہ رہی تھی کہ ’میرے شیر جیسے بیٹے کو جامع مسجد کے قریب مار دیا گیا۔‘

جب ہم اس سے ملے تو نعیم کی لاش پوسٹ مارٹم ہاؤس میں تھی۔ ان کی والدہ ادرو غازی کہتی ہیں کہ ’میرا بیٹا گھر کا واحد کمانے والا تھا، اب میں اپنے چار بچوں کا پیٹ کیسے پالوں گی۔ میں نے بیوہ ہوتے ہوئے اپنے بچوں کی پرورش کی، بڑھاپے میں میرا سہارا چھین لیا گیا ہے۔‘

ادرو کہتی ہیں کہ ’میرا بیٹا مٹھائی کی دکان چلاتا تھا، وہ اپنی موٹر سائیکل پر تیل خریدنے گیا تھا۔ ہمیں صبح گیارہ بجے فون آیا کہ اسے گولی مار دی گئی ہے۔ میں صرف یہ چاہتی ہوں کہ ہمارے بچے کی لاش مل جائے۔‘

نعیم کے چار بچے تھے تاہم ان کی بیوی بالکل خاموش ہیں۔ وہ صرف یہ کہتی ہیں کہ ’جو کچھ ہو رہا ہے وہ انصاف نہیں ہے، مسلمانوں کو یکطرفہ طور پر نشانہ بنایا جا رہا ہے، یہ ظلم ہے۔‘

اپنی بہو کو تسلی دیتے ہوئے ادرو کہتی ہیں کہ ’ہم کوئی مقدمہ درج نہیں کریں گے، ہم صبر سے کام لیں گے، ہم گھر بیٹھے رہیں گے، ہم میں پولیس اور حکومت سے لڑنے کی ہمت نہیں ہے۔‘

’پولیس نے میرے بیٹے کو سینے میں گولی مار دی‘
یہاں سے تقریباً دو کلومیٹر دور باغیچہ سریاترین علاقے میں ایک مسجد کے باہر لوگوں کا خاموش ہجوم ہے۔ یہاں مسجد کی سیڑھیوں پر نفیس سر جھکائے بیٹھے ہیں۔ اس تصادم میں ان کا بائیس سالہ بیٹا بلال بھی مارا گیا ہے۔

نفیس اپنے بیٹے کے نام کا ذکر سن کر جھک جاتا ہے۔ ان کا بیٹا بلال کپڑوں کا کام کرتا تھا۔

نفیس کہتے ہیں ’پولیس نے میرے بیٹے کو سینے میں گولی مار دی۔ میرا بیٹا بے قصور تھا، وہ دکان پر کپڑے خریدنے گیا تھا۔ میرے بیٹے کی موت کی ذمہ دار پولیس ہے۔‘

اس سوال پر طویل خاموشی کے بعد کہ وہ اس کا ذمہ دار کس کو ٹھہراتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ ’ہم کس کو ذمہ دار ٹھہرائیں، سب دیکھ سکتے ہیں کہ کون ذمہ دار ہے۔

’ہمارا کوئی نہیں، ہمارے پاس صرف اللہ ہے، میرا ایک جوان بیٹا تھا، مجھے اس کی شادی کی تیاری کرنی تھی، وہ چلا گیا۔ میں نے اسے کارٹ کھینچ کر اٹھایا۔ پولیس کی گولی اسے ہم سے دور لے گئی۔‘

کس کی گولی موت کا سبب بنی؟
ہلاک ہونے والوں کے لواحقین کا الزام ہے کہ ان کی موت پولیس کی فائرنگ سے ہوئی۔ تاہم پولیس کا کہنا ہے کہ فائرنگ بھیڑ کی جانب سے کی گئی۔

پولیس نے اتوار کے واقعے میں چار افراد کی ہلاکت کی تصدیق کی ہے۔ ان کی موت کن حالات میں ہوئی تفتیش کے بعد واضح ہو سکے گا۔

تقریباً چالیس سال کے رومان خان کو سنبھل کے حیات نگر علاقے کے پٹھان محلے کے قبرستان میں خاموشی سے سپرد خاک کر دیا گیا۔ یہاں آنے والے لوگوں نے اس کی بیٹی کو چپ کروایا جو اس کی قبر کے پاس رو رہی تھی۔

اتوار کو میڈیا سے بات کرتے ہوئے مرادآباد کے کمشنر انجنیا کمار نے سنبھل میں مارے گئے لوگوں میں رومان خان کا نام بتایا تھا۔

اس کے جنازے میں آنے والے لوگ دھیمے لہجے میں کہہ رہے تھے کہ اس کی موت پولیس کی فائرنگ سے ہوئی۔

لیکن رومان خان کی فیملی ان کی موت کے بارے میں بات کرنے کو تیار نہیں تھی۔ رومان خان کو بغیر پوسٹ مارٹم کے سپرد خاک کر دیا گیا۔

ان کے ایک رشتہ دار نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ ’خاندان نہ تو اس کا پوسٹ مارٹم کرنا چاہتے تھے اور نہ ہی وہ چاہتے تھے کہ کوئی مقدمہ درج کرے۔ ہم سب نے صبر کیا اور خاموشی سے اس کی لاش کو دفن کر دیا۔‘

تدفین میں شامل لوگوں کو یہ خوف بھی تھا کہ اگر وہ کیمرے میں نظر آئے تو پولیس تفتیش کے نام پر انہیں اپنی تحویل میں لے لے گی۔

یہاں موجود ایک مقامی کانگریس لیڈر توقیر احمد نے کہا کہ ’لوگوں میں اتنا خوف ہے کہ وہ یہ بتانے کو بھی تیار نہیں ہیں کہ اس شخص کی موت کیسے ہوئی۔‘

Share on Social

اپنا تبصرہ بھیجیں