41

متحدہ عرب امارات کا یہودی عالم کے قتل میں تین ملزمان کو گرفتار کرنے کا دعویٰ

ابوظہبی + تل ابیب (ڈیلی اردو/رائٹرز/بی بی سی) متحدہ عرب امارات کی وزارت داخلہ کا کہنا ہے کہ مجاز سیکیورٹی حکام نے یہودی ربی زوی کوگان کے قتل کے شبہ میں گرفتار تین افراد سے ابتدائی تحقیقات شروع کر دی ہیں۔

امارات کی سرکاری نیوز ایجنسی کے مطابق متحدہ عرب امارات کے حکام کا کہنا ہے مجاز سیکورٹی حکام نے تین ملزمان کو حراست میں لیا ہے۔ حکام نے ان کی شنخت ظاہر کرتے ہوئے کہا ہے کہ تینوں ملزمان ازبک شہریت رکھتے ہیں۔ ان میں 28 سالہ اولمبی توہیرووک، 28 سالہ محمود جان عبدالرحیم اور 33 سالہ عزیزی کاملوچ شامل ہیں۔

اماراتی حکام کے مطابق ربی کوگان کی لاش اتوار کو امارات کے شہر العین سے ان کی کار سے ملی تھی جو ان کے گھر سے آدھے گھنٹے کی مسافت پر موجود تھی۔

28 سالہ زوی کوگان ایک اسرائیلی تھے جن کے پاس مالدووا کی شہریت تھی اور وہ یہودی حباد تحریک کے نمائندوں میں سے ایک تھے۔

حباد ایک مذہبی تنظیم ہے جو یہودیوں کے مختلف فرقوں اور سیکولر یہودیوں کے بیچ تعاون پیدا کرنے کی کوشش کرتی ہے۔ اس کی ویب سائٹ کے مطابق متحدہ عرب امارات میں حباد کی شاخ ہزاروں یہودی سیاحوں اور مقامی لوگوں کے لیے کام کرتی ہے۔

یاد رہے کہ وہ جمعرات کی نصف شب کے بعد دبئی سے لاپتہ ہو گئے تھے۔ ان کی گمشدگی کے بعد اسرائیلی غیر ملکی انٹیلی جنس سروس (موساد) اور اماراتی حکام دونوں نے ان کی تلاش اور گمشدگی سے متعلق تحقیقات شروع کر دی تھی۔

متحدہ عرب امارات کے حکام نے ابھی تک کوگان کے قتل کے حالات کے متعلق نہیں بتایا ہے، تاہم یہ شبہ ظاہر کیا جا رہا ہے کہ یہودی ربی کو قتل سے پہلے اغوا کیا گیا تھا۔

یہ بات قابل غور ہے کہ متحدہ عرب امارات کی حکومت کے بیانات میں کوگان کی اسرائیلی شہریت کا تذکرہ کیے بغیر انھیں مالدووا کا شہری بتایا گیا ہے۔

متحدہ عرب امارات کے حکام کی جانب سے مجرموں کی گرفتاری سے متعلق بیان میں کہا گیا ہے کہ ’مالدووا کی شہریت رکھنے والے زوی کوگان نامی شخص کے قتل میں ملوث تین ملزمان کو ریکارڈ وقت میں گرفتار کر لیا گیا ہے۔‘

اسرائیلی وزیر اعظم بنیامن نتن یاہو نے ان کے قاتلوں کو پکڑنے اور انتقام لینے کا وعدہ کیا ہے۔ اسرائیلی وزیراعظم کے دفتر کا کہنا ہے کہ قدامت پسند یہودی تنظیم حباد سے تعلق رکھنے والے زوی کوگان جمعرات سے لاپتہ تھے جس پر اسرائیلی انٹیلیجنس ایجنسی موساد اور متحدہ عرب امارات کے حکام کی تحقیقات جاری تھیں۔

بیان کے مطابق اسرائیلی حکام کوگان کے لاپتہ ہونے کے بعد سے ان کے خاندان سے رابطے میں رہے ہیں۔ اس کا کہنا ہے کہ کوگان دہری شہریت کے حامل تھے، ان کے پاس اسرائیل کے علاوہ مالدووا کی شہریت تھی۔

کوگان نے 2022 میں ریوکی نامی خاتون سے شادی کی تھی۔ وہ ایک امریکی شہری ہیں جو ان کے ساتھ متحدہ عرب امارات میں رہتی ہے، وہ ربی گیوریل ہولٹزبرگ کی بیٹی بھی ہیں، جو 2008 میں ممبئی حملوں میں مارے گئے تھے۔

اسرائیلی حکومت کی جانب سے جاری کردہ سفری ہدایات میں درج ہے کہ شہری صرف ’ضروری کام‘ کے سلسلے میں متحدہ عرب امارات جائیں کیونکہ وہاں ’دہشتگرد سرگرمیاں‘ ہوتی ہیں۔

اسرائیلی شہریوں کو بتایا گیا ہے کہ متحدہ عرب امارات کا ’دورہ کرنے والے اسرائیلیوں یا وہاں رہنے والوں کو خطرہ ہے۔‘

اسرائیل نے کوگان کے قتل کا ذمہ دار کسی مخصوص فریق کو نہیں ٹھہرایا، لیکن اسرائیلی قومی سلامتی کونسل نے اتوار کو کہا کہ اسے یقین ہے کہ خطے میں اسرائیلیوں اور یہودیوں کے لیے اب بھی خطرہ موجود ہے۔

اسرائیل کو خدشہ ہے کہ ایرانی ایجنٹ بیرون ملک مقیم اسرائیلیوں کو اغوا یا قتل کر دیں گے۔ گذشتہ اگست میں، اسرائیل نے ان ممالک کے سفر کے خلاف ایک انتباہ جاری کیا تھا جن کے ساتھ اس کی مشترکہ سرحدیں ہیں۔

کوگان کے قتل نے متحدہ عرب امارات میں حفاظت کے حوالے سے یہودیوں میں تشویش پیدا کردی، اور اسرائیلی حکام نے اپنی سفارشات جاری کرتے کہا ہے کہ اسرائیلی شہری خلیجی ملک کا سفر کرنے سے گریز کریں۔

یاد رہے کہ یہ واقعے ہالینڈ کے دارالحکومت ایمسٹرڈیم میں اسرائیلی اور عرب شائقین کے درمیان ہونے والی جھڑپوں کے چند دن بعد سامنے آیا ہے۔

خبر رساں ادارے رائٹرز کے مطابق متحدہ عرب امارات میں 2020 کے بعد سے یہودی برادری میں اضافہ دیکھا گیا ہے مگر حماس کے اسرائیل پر 7 اکتوبر کے حملے کے بعد سے عوامی مقامات پر انھیں کم ہی دیکھا جاتا ہے۔

متحدہ عرب امارات نے اسرائیل کے ساتھ امریکی ثالثی میں سفارتی تعلقات قائم کیے تھے، جنھیں ابراہیم آکارڈز بھی کہا جاتا ہے۔ غزہ میں حماس اور اسرائیل کے درمیان جنگ کے دوران بھی دونوں ممالک کے بیچ تعلقات برقرار ہیں۔

متحدہ عرب امارات میں یہودی برداری نے روئٹرز کو بتایا تھا کہ سات اکتوبر کے حملے کے بعد دبئی میں سکیورٹی خدشات کے پیش نظر غیر رسمی یہودی عبادت گاہوں کو بند کر دیا گیا تھا۔

ابو ظہبی میں حکومت سے منظور شدہ ایک یہودی عبادت گاہ قائم ہے جو اب بھی کھلی رہتی ہے۔ تاہم ملک کے سب سے کمرشل شہر دبئی میں کوئی منظور شدہ عبادت گاہ نہیں ہے۔

Share on Social

اپنا تبصرہ بھیجیں